You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اللہ عزوجل ارشادفرماتا ہے :
اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنۡدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوْکِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلۡ لَّہُمَا قَوْلًاکَرِیۡمًا ﴿23﴾
ترجمہ کنزالایمان: اگر تیرے سامنے ان میں ایک یادونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں نہ کہنااور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ 15،بنیۤ اسرآئیل :23)
والدین کی نافرمانی کی مذمت پراحادیث مبارکہ:
(۱)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج ومَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے :
اگر کلام عرب میں لفظِ اُف کے علاوہ کوئی اور ایسا لفظ ہوتا جس میں لفظ اُف کی بجائے کم تکلیف کامعنی پایاجاتاتو اللہ عزوجل یہ نہ فرماتا:
فَلَاَ تَقُلْ لَّھُمَآاُفٍّ (بلکہ وہی کم تکلیف والالفظ فرمایاجاتا)بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن ِسلوک کرنے کا تاکیدی حکم ارشاد فرمایا ہے ۔
---------------------
(۲)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کافرمانِ عبرت نشان ہے :
والدین کا نافرمان اگرچہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے یہاں تک کہ وہ اس (نماز وروزہ)میں یکتاومنفرد ہو جائے اور ا س کاانتقا ل اس حال میں ہو کہ اس کے والدین اس پر ناراض ہوں تو وہ اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے گاکہ اللہ عزوجل اس پر غضب فرمائے گا۔
---------------------
(۳)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِعظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانيت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم كا فرمان ہے:
جہنم میں والدین کے نافرمان اور شیطان کے درمیان صرف ایک درجہ کافرق ہوگا۔
---------------------
(۴)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :
شب ِمعراج مجھے آسمان کی سیر کرائی گئی میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ آگ کی شاخوں پر لٹکے ہوئے ہیں ،میں نے اَ مینِ وحی حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا:
اے میرے بھائی جبرائیل !یہ کون لوگ ہیں؟
انہوں نے عرض کی:
یہ والدین کے نافرمان ہیں ۔
---------------------
(۵)۔۔۔۔۔۔حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبرصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم كافرمانِ عالیشان ہے:
جس نے اپنے والدین کو گالی دی اس کے سرپر جہنم میں اس قدر آگ کے انگارے برسیں گے جس قدر آسمان سے زمین پر بارش کے قطرے برستے ہیں۔
ہم اللہ عزوجل کی ناراضگی ،جہنم کی آگ اوراس میں داخل کرنے والے ہر عمل سے اللہ عزوجل کی پناہ مانگتے ہیں۔
---------------------
(۶)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم كا ارشاد ہے :
مجھے کوئی شے اس قدر غمگین نہ کرے گی جس قدر والدین کے نافرمانوں کا عذاب رنج وغم میں ڈالے گا(قیامت کے بعد) میں جنت میں ہوں گاکہ مار پیٹ کی وجہ سے والدین کے نافرمانوں کی چیخ وپکاراور ان کے رونے کی آواز سنوں گا ، میرے دل میں ان کے لئے شفقت بھر آئے گی تومیں عرش کے نیچے سجدے میں گر کر ان کے حق میں شفاعت کروں گا۔(اس وقت ) اللہ عزوجل فرمائے گا:
اے محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)!اپنا سر اٹھالیجئے کیونکہ میں والدین کے نافرمانوں کو اس وقت تک جہنم سے نہیں نکالوں گاجب تک کہ ان کے والدین ان سے راضی نہ ہوجائیں ۔
تو میں اپنی جگہ لوٹ آؤں گااور ان سے توجُّہ ہٹا لوں گامیں دوبارہ آکر اُن کی چیخ وپکار سنوں گا تو پھر عرش کے نیچے سجدہ کروں گا، اللہ عزوجل مجھ سے فرمائے گا:
اے محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ) !اپناسر اٹھالیجئے ،اے میرے محبوب! آپ نے جب بھی مانگامیں نے عطاکیامگر والدین کے نافرمانوں کو جہنم سے نہیں نکالاجائے گاجب تک کہ ان کے والدین ان سے راضی نہ ہوجائیں ۔
میں دوبارہ اپنی جگہ لوٹ جاؤں گااور وہ مجھے بھلا دئيے جائيں گے، میں ایک مرتبہ پھر اس طرف آؤں گاتو ان کاسخت گریہ اور روناسن کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کروں گا:
اے اللہ عزوجل!( داروغۂ جہنم حضرت )مالک(علیہ السلام) کو حکم دے کہ وہ ان کے طبقے کادروازہ کھولیں تاکہ میں ان کاعذاب دیکھ سکوں کیونکہ میں ان کی بہت زیادہ چیخ وپکار سنتاہوں ۔
تو اللہ عزوجل فرمائے گا:
میں مالک کو اس کاحکم دے چکا ہوں ۔
(آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرما تے ہیں:)میں اسی وقت (حضرت) مالک (علیہ السلام) کے پاس جاؤں گاتو وہ میرے لئے دروازہ کھول دیں گے میں دیکھوں گاکہ کچھ لوگ آگ کی شاخوں میں لٹکے ہوئے ہیں اور عذاب کے فرشتے ان کی پیٹھوں اور رانوں پر آگ کے کوڑے برسارہے ہیں اور ان کے پاؤں کے نیچے سانپ، بچھو گھوم پھر رہے ہیں اور انہیں ڈس رہے ہیں ،میں ان پررحم کی وجہ سے رو پڑوں گااورتیسری مرتبہ عرش کے نیچے آکر سجدہ کروں گا۔
اللہ عزوجل فرمائے گا:
یہ نافرمان، والدین کی رضامندی کے بغیر جہنم سے نہیں نکل سکتے۔
تو میں عرض کروں گا:
اے میرے رب عزوجل !ان کے والدین کہاں ہیں؟
اللہ عزوجل فرمائے گا:
وہ جنت میں اپنے ٹھکانوں میں ہیں ،ان میں سے بعض تو مقامِ اَعراف( جوجنت وجہنم کے درمیان ایک مقام ہے)میں ، بعض جنت الماویٰ میں اور دوسرے بعض اس کے علاوہ دوسری جگہوں میں ہیں ۔
میں عرض کروں گا:
اے میرے مالک و مولیٰ عزوجل !مجھے ان کے جنتی والدین کی پہچان عطافرما۔
تو اللہ عزوجل مجھے ان کی پہچان عطافرمائے گا،میں ان کے پاس جاکر ان سے کہوں گا:
کاش!تم اپنی اولاد کو دیکھتے، ان پر عذاب کے فرشتے مقرر کئے گئے ہیں جو ان کو عذاب دے رہے ہیں، مجھے ان کے رونے اور چیخنے نے غم میں مبتلاکردیا ہے ۔تو والدین ان تکالیف کویاد کریں گے جو دنیا میں ان کی اولاد کی طرف سے انہیں پہنچی ہوں گی، ایک کی ماں کہے گی :
یارسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم !آپ اس کو عذاب ہی میں رہنے دیں کیونکہ ا س نے میری توہین کی ،مجھے گالی دی ، میرادل دکھایا،اور اس کے پاس مال ودولت کی کمی نہ تھی مگر میں رات بھوکی گزارتی، میرے پاس تن ڈھانپنے کے بھی کپڑے نہ تھے اور اس کی بیوی عمدہ اور مہنگے کپڑے پہنتی تھی ۔
ایک اور عرض کریگا:
آپ اُسے عذاب ہی میں رہنے دیں کیونکہ میں جب کبھی اُس کو اچھی بات کی تلقین کرتاتھاتو وہ مجھے مارتاتھااور مجھے اپنے گھر سے نکال دیتاتھااور یہ اس کامعمول تھاکہ وہ ایسا کرتارہتاتھا۔
الغرض دنیامیں جو گزرا،ان کے دلوں میں اس کی رنجش باقی رہے گی ، میں ان سے کہوں گا:
دنیاتو گزر گئی اور جو ہوناتھاہوگیا،اب انہیں معاف کردو اورمیں نے تمہارے پاس قدم رنجا فرماکرتمہیں عزت دی ہے لہذا تم بھی ان سے درگزر کرو۔
اس وقت اللہ عزوجل فرمائے گا:
اے میرے محبوب!اے محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ان کے لئے مشقت نہ اٹھائیں ،میری عزت وجلال کی قسم ! میں والدین کی دلی رضامندی کے بغیران کی اولاد کو جہنم سے نہیں نکالوں گا۔
تومیں عرض کروں گا:
اے میرے رب عزوجل !ان کے والدین کو حکم دے کہ یہ میرے ساتھ چل کر اپنی اولاد کے عذاب کو دیکھیں امید ہے انہیں ان پر رحم آ جائے۔
اللہ عزوجل ان کومیرے ساتھ چلنے کاحکم فرمائے گاوہ جہنم کی طرف آئیں گے تو حضرت مالک علیہ السلام (یعنی داروغۂ جہنم)ان کے لئے جہنم کے دروازے کھول دیں گے ۔
جب وہ اپنی اولاد اور ان کے عذاب کو دیکھیں گے تو روناشروع کر دیں گے اور کہیں گے :
اللہ عزوجل کی قسم !ہمیں معلوم نہ تھا کہ انہیں اس قدرسخت عذاب ہورہا ہے۔
والدین میں سے ہر ایک اپنی اولاد کے لئے چیخ وپکار کریگا اور جب ان کی اولاد اپنے ماں باپ کے رونے کی آواز کو سنے گی توان میں سے ہر کوئی اپنی ماں سے کہے گا:
اے میری ماں ! آگ نے میرے جگر کو جلادیاہے اور عذاب نے مجھے ہلاک کر دیا ہے، اے میری ماں! تُو تو کبھی یہ برداشت نہیں کرتی تھی کہ میں دھوپ یااس کی تپش میں ایک گھڑی بھی بیٹھوں یامجھے کانٹاچبھ جائے ،اے میری ماں ! (آج )تو نے کیسے میرے عذاب کوسن کر اس پر صبر کرلیا،کیاتومیری کھال اور ہڈیوں پر رحم نہیں کھائے گی؟
اس وقت ان کے والدین روتے ہوئے عرض کریں گے :
اے ہم سے محبت کرنے والے، اے سراپا حسن وخوبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم!آپ ان کی شفاعت فرمائیے ۔
اللہ عزوجل ان کے والدین سے فرمائے گا:
چونکہ میں نے تمہاری ہی وجہ سے ان پر غضب کیالہذااب تمہاری ہی سفارش سے میں ان کو جہنم سے نکالوں گا۔
وہ عرض کریں گے :
اے ہمارے معبود ومالک عزوجل !ہماری اولاد کو جہنم سے نکال کر ہم پر اپنافضل واحسان فرما۔
تواللہ عزوجل ان کے والدین سے فرمائے گا:
کیاتم دونوں اپنی اولاد سے راضی ہوگئے؟
وہ عرض کریں گے:
جی ہاں ۔
اللہ عزوجل حکم فرمائے گا:
جس کے والدین ا س کو نکالنے پر راضی ہیں اس کو جہنم سے نکال دو اور جن کایہ مطالبہ نہیں ان کی اولاد کو عذاب میں ہی رہنے دو یہاں تک کہ میں ان کے بارے میں جو چاہوں فیصلہ فرمادوں۔
چنانچہ حضرت مالک( علیہ السلام) ان کو اس حال میں نکالیں گے کہ وہ جل کر کوئلہ ہوچکے ہوں گے تو ان پر نہرِ حیات کاپانی بہایاجائے گا،اس سے ان پر نیا گوشت، کھال اور بال اُگ آئیں گے پھر وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔
---------------------
(۷)۔۔۔۔۔۔سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب وسینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم كافرمانِ عظمت نشان ہے:
میں تمہیں نمازاور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت کرتا ہوں، بے شک اس سے عمر میں زیادتی ہوتی ہے ،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے !کبھی ایساہوتاہے انسان کی زندگی تین سال رہ جاتی ہے اور وہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہے تواللہ عزوجل تین سالوں کو تیس(30)سال کردیتاہے اوراگروہ اپنے والدین کے ساتھ براسلوک کرتاہے تواللہ عزوجل اس کی عمرکے تیس(30)سالوں کو تین سال یا(فرمایا)تین دن کردیتاہے ۔
(پھر ارشادفرمایا:) گھروالوں اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک عمر کو زیادہ کرتاہے اوران پرظلم ،عمر اوررزق میں کمی کرتاہے اور اللہ عزوجل کے غضب کا سبب ہے ، اوراگراللہ تبارک و تعالیٰ قطع رحمی کرنے والے کو دنیامیں عذاب نہ دے تو اس کے عذاب کو موت کے بعد تک مؤخر فرمادیتاہے اوراس کی روح کوقیامت تک جہنم کے منہ پر واقع
بئر برھوت (نامی) کنوئیں میں قید رکھاجائے گا۔
---------------------
(۹)۔۔۔۔۔۔حضور نبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاك صلي اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم كا فرمانِ عبرت نشان ہے:
جس نے والدین کی نافرمانی کی اس نے اللہ عزوجل اوراس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی اور والدین کے نافرمان کوجب قبر میں دفن کر دیاجائے گاتو قبر اس کواس طرح دبائے گی کہ اس کی پسلیاں ٹوٹ پھوٹ کرایک دوسرے میں پیوست ہوجائیں گی اور قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ سخت عذاب ان تین اشخاص کو ہوگا
(۱)والدین کانافرمان
(۲)زانی اور
(۳)اللہ عزوجل کا شریک ٹھہرانے والا۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.