You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ولی
لفظ وَلِیْ وَلْیٌ یا وَلَایَۃٌ سے بنا ہے ۔
وَلْیٌ کے معنی قرب اور ولایت کے معنی حمایت ہیں،
لہٰذا وَلْیٌ کے لغوی معنی قریب ، والی ، حمایتی ہیں۔
قرآن شریف میں یہ لفظ اتنے معنی میں استعمال ہوا ہے
۱۔دوست ،
۲۔قریب ،
۳۔مددگار ،
۴۔والی،
۵۔وارث ،
۶۔معبود ،
۷۔ مالک ،
۸۔ ہادی
(1) اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾
تمہارا دوست یا مدد گار صرف اللہ اور اسکے رسول اور وہ مومن ہیں جونماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اوررکوع کرتے ہیں۔(پ6،المائدۃ:55)
(2)نَحْنُ اَوْلِیٰٓـؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ
ہم ہی تمہارے دوست ہیں دنیا اور آخرت میں۔(پ24،حٰمۤ السجدۃ:31)
(3) فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ۚ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ﴿۴﴾
پس نبی کا مدد گار اللہ ہے اور جبریل اور نیک مومن او راس کے بعد فرشتے مدد گار ہیں ۔(پ28،التحریم:4)
(4) وَاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾
پس بنادے تو ہمارے لئے اپنے پاس سے والی اور بنادے ہمارے لئے اپنے پاس سے مدد گار ۔(پ5،النسآء:75)
(5) اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیۡنَ مِنْ اَنۡفُسِہِمْ وَ اَزْوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمْ
نبی زیادہ قریب یا زیادہ مالک ہیں مسلمانوں کے بمقابلہ ان کی جانوں کے اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔(پ21،الاحزاب:6)
ان آیتوں میں ولی کے معنی قریب ، دو ست ، مدد گار، مالک ہیں۔
(6) اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنۡفُسِہِمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ؕ
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں اوروہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی ان کے بعض بعض کے وارث ہیں(پ10،الانفال:72)
اس آیت میں ولی بمعنی وارث ہے کیونکہ شروع اسلام میں مہاجرو انصار ایک دوسرے کے وارث بنادیئے گئے تھے ۔
(7) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمْ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا
اور جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت نہ کی انہیں ان کی وراثت سے کچھ نہیں یہاں تک کہ ہجرت کریں۔(پ10،الانفال:72)
اس آیت میں بھی ولی سے مراد وارث ہے کیونکہ اول اسلام میں غیرمہاجر،مہاجرکا وارث نہ ہوتاتھا۔
(8) وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ
اور کافر بعض بعض کے وارث ہیں۔(پ10،الانفال:73)
(9) وَاُوْلُوا الۡاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ
رشتہ دار بعض بعض کے وارث ہیں(پ10،الانفال:75)
(10) فَہَبْ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾یَّرِثُنِیۡ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوۡبَ
تومجھے اپنے پاس سے کوئی ایسا وارث دے جو میرا اور آل یعقوب کا وارث وجانشین ہو۔ (پ16،مریم:5،6)
ان آیات میں بھی ولی سے مراد وارث ہے جیسا کہ بالکل ظاہر ہے ۔
(11) اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُخْرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۬ؕ وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙیُخْرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ
اللہ تعالیٰ مومنوں کا حامی والی ہے کہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طر ف نکالتا ہے اور کافروں کے حامی والی شیطان ہیں جوانہیں روشنی سے اندھیرے کی طر ف نکالتے ہیں ۔(پ3،البقرۃ:257)
اس آیت میں ولی بمعنی حامی والی ہے ، بعض آیات میں ولی بمعنی معبود آیا ہے ملاحظہ ہو:
(12) وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوْلِیَآءَ ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلْفٰی ؕ
جنہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے اور کہتے ہیں کہ نہیں پوجتے ہم ان کو مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔(پ23،الزمر:3)
جنہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے اور کہتے ہیں کہ نہیں پوجتے ہم ان کو مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔
اس آیت میں ولی بمعنی معبود ہے اس لئے آگے فرمایا گیا: مَانَعْبُدُہُمْ
(13) اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ اَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا ﴿۱۰۲﴾
تو کیا یہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے سوا میرے بندوں کو معبود بنالیں بے شک ہم نے کافروں کی مہمانی کیلئے دوزخ تیا رکر رکھی ہے ۔(پ16،الکہف:102)
اس آیت میں بھی ولی بمعنی معبود ہے ۔ اس لئے ان ولی بنانے والوں کو کافر کہا گیا ۔ کیونکہ کسی کو دوست اور مدد گار بنانے سے انسان کافر نہیں ہوتا جیسا کہ پچھلی آیتوں سے معلوم ہوا ہے ۔ معبود بنانے سے کافر ہوتا ہے :
(14) مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَیۡتًا
ان کی مثال جنہوں نے خدا کے سوا کوئی معبود بنالیا مکڑی کی طر ح ہے جس نے گھر بنایا ۔(پ20،العنکبوت:41)
اس آیت میں بھی ولی بمعنی معبود ہے کہ یہاں کفار کی مذمت بیان ہو رہی ہے اور کافر ہی دوسروں کو معبود بناتے ہیں ۔
ولی اللہ، ولی من دون اللہ
ولی بمعنی دو ست یامدد گار دو طرح کے ہیں
-ایک اللہ کے ولی ،
- دوسرے اللہ کے مقابل ولی۔ ا
للہ کے ولی وہ ہیں جو اللہ سے قرب رکھتے ہیں اور اس کے دوست ہوں اور اسی وجہ سے دنیا والے انہیں دوست رکھتے ہیں
ولی من دون اللہ کی دو صورتیں ہیں۔
- ایک یہ کہ خدا کے دشمنوں کو دوست بنایا جائے جیسے کافر وں یابتوں یا شیطان کو ،
- دوسرے یہ کہ اللہ کے دوستوں یعنی نبی ،ولی کو خدا کے مقابل مدد گار سمجھا جائے کہ خدا کا مقابلہ کرکے یہ ہمیں کام آئیں گے ۔
ولی اللہ کو ماننا عین ایمان ہے اور ولی من دون اللہ بنانا عین کفر وشرک ہے ۔
ولی اللہ کے لئے یہ آیت ہے :
(1)اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾
خبردار ! اللہ کے دوست نہ ان پر خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے وہ ہیں جو ایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے ہیں۔(پ11،یونس:62،63)
اس آیت میں ولی اللہ کا ذکر ہے۔
(2) لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ
مسلمان کافروں کو دوست نہ بنائیں مسلمانوں کے سوا۔(پ3،اٰل عمرٰن:28)
(3) مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾
اللہ کے مقابل نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار (پ1،البقرۃ:107)
ان دو آیتو ں میں ولی من دون اللہ کا ذکر ہے۔
پہلی آیت میں دشمنان خدا کو دوست بنانے کی ممانعت ہے ۔
دوسری میں خدا کے مقابل دوست کی نفی ہے یعنی رب تعالیٰ کے مقابل دنیا میں کو ئی مد د گار نہیں نہ ولی ، نہ پیر ، نہ نبی۔ یہ حضرات جس کی مدد کرتے ہیں اللہ کے حکم اور اللہ کے ارادے سے کرتے ہیں ۔
ولی یا اولیاء کے ان معانی کابہت لحاظ رکھنا چاہیے۔ بے موقع تر جمہ بدعقیدگی کا باعث ہوتا ہے
مثلا ۔
اگرنمبر۱کی آیت اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہ، (المائدۃ:55) کا ترجمہ یہ کردیا جائے کہ تمہارے معبود اللہ، رسول اور مومنین ہیں شرک ہوگیا
اور اگر وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾ (البقرۃ:۱۰۷)
کے یہ معنی کردیئے جائیں کہ خدا کے سوا کوئی مددگا ر نہیں تو کفر ہوگیاکیونکہ قرآن نے بہت سے مدد گا روں کا ذکر فرمایا ہے اس آیت کا انکار ہوگیا۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے کافر وں ، ملعونوں کا کوئی مددگار نہیں۔ معلوم ہواکہ مومنوں کے مدد گار ہیں۔
(1) وَمَنۡ یَّلْعَنِ اللہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۵۲﴾
اور جس پر خدا لعنت کردے اس کے لئے مدد گار کوئی نہیں پاؤگے۔(پ5،النسآء:52)
(2) وَ مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ وَّلِیٍّ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ (پ25،الشورٰی:44)
اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کے پیچھے کوئی مدد گار نہیں۔
(3) وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ﴿٪۱۷﴾ (پ15،الکھف:17)
جسے اللہ گمراہ کردے اس کیلئے ہادی مرشد آپ نہ پائیں گے ۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.