You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
تو رینگتا ہے زمین پر ہے ان کی عرش پر گزر
اب تو ہی انصاف کر تو بھی بشر وہ بھی بشر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمداللہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین
میرا آج کا موضوع سخن یہ شعر ہے :-
تو رینگتا ہے زمین پر ہے ان کی عرش پر گزر
اب تو ہی انصاف کر تو بھی بشر وہ بھی بشر
یہ شعر میں نے آج سے تقریبا 8 سال پہلے( جب میں غالبا ڈاکٹر آف فارمیسی کے سیکنڈ پروف میں تھا) حضرت علامہ مولانا پیر سید شاہ تراب الحق قادری دامت برکاتھم العالیہ کے خطاب میں سنا تھا ۔ بہت خوبصورت شعر ہے ماشاءاللہ
اس شعر کا پس منظر یہ ہے کہ کچھ لوگ آقاۓ دوجہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثل بشریت کو اپنے جیسا قرار دینے پر بضد ہیں اور قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ جس کا ترجمہ من الکنزالایمان (تم فرماؤ آدمی ہونے میں تو میں تمہیں جیسا ہوں مجھے وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے ) سے استدلال کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرح بشر ہیں مگر شاعر ان کے اس عقیدے کا رد فرما رہا ہے کہ ہماری بشریت میں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثل بشریت میں زمین و آسمان سے بھی ذیادہ فرق ہے کہ ہم زمین پر چلتے پھرتے ہیں اور بے بس ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گزر عرش پر ہے تو اب اے شخص تو جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جیسا بشر کہتا ہے یہ انصاف تو نہیں۔
اب جاننا یہ ہے کہ سچا کون ہے ؟ وہ جو کہ اپنے جیسا کہتا ہے یا وہ جو بے مثل کہتا ہے ۔ اس بارے میں قرآن مجید فرقان حمید کیا راہنمائی کرتا ہے اور حدیث شریف کیا بتاتی ہے اور صحابہ کرام کا عمل اور عقیدہ کیا تھا؟
سب سے پہلے میں اس بارے میں اہلسنت کا عقیدہ بیان کروںگا کہ اہلسنت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟
اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ
آقاۓ دوجہان ، سرور ذیشان ، جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں اور شخصییت کے اعتبار سے بے مثل بشر ہیں اور اعلی حضرت ، امام اہلسنت ، الشاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو مطلقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بشریت کی نفی کرے وہ کافر ہے۔
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "شان حبیب الرحمن " میں اس آیت جس کو مخالفین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثل بشریت کو اپنی بشریت جیسا قرار دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں پر مفصل گفتگو فرمائی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت مبارکہ ہے۔
اول تو جاننا چاہیے کہ اس آیت میں لفظ قُلْ آیا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلان فرمانے کا حکم ہوا کہ اے محبوب آپ فرمائیں کہ میں تم جیسا بشر ہوں " لوگوں کو حکم نہیں ہوا کہ وہ کہتے رہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرح بشر ہیں"
بلا تشبیع اس کو یوں سمجھیں کہ اگر بادشاہ خوف خدا سے عاجزی میں کہے کہ میں عوام کا خادم ہوں تو کیا عوام بھی کہنا شروع ہو سکتی ہے کہ چونکہ بادشاہ نے اپنے آپ کو ہمارا خادم کہا ہے تو ہم بھی اسے اپنا خادم کہیں گے تو کیا کوئی ذی شعور ایسا کہہ سکتا ہے ؟ ہر بندہ جانتا ہے کہ بادشاہ کا یہ قول عاجزی پر مبنی تھا اور آکر کوئی بادشاہ کے اس کہنے سے اسے اپنا خادم کہنا شروع ہو جاۓ تو وہ مجرم قرار دیا جاۓ گا۔ بلا تشبیع ۔۔۔
دوسری بات جو اس آیت میں آگے چل کر آ رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بشریت میں اور دوسرے انسانوں کی بشریت میں فرق بھی بیان فرما رہے ہیں کہ یہ کہ مجھے وحی ہوتی ہے " یعنی میں نے جو کہا کہ میں تم جیسا بشر ہوں کہ بندہ ہونے میں تمہاری طرح ہوں۔ جیسے نا تم خدا ہو ویسے ہی نا میں خدا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اب مجھے اپنی طرح بھی نہ سمبھ لینا۔کیونکہ میرے بندہ ہونا میں اور تمہارے بندہ ہونے میں بہت فرق ہے وہ یہ کہ مجھ پر وحی ہوتی جو تم پر نہیں ہوتی۔
آیے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بے مثل بشریت کے مبارک عقیدے کو اس روایت سے سمجھنے کی کوشش کریں
صحابہ کرام علیھم الرضوان کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر عمل ، ہر سنت کو اپنانے کا اتنا شوق تھا کہ وہ جو بھی عمل آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کرتے دیکھتے خود وہ عمل کرنا شروع ہو جاتے اور یہ بھی نہ سوچتے کہ وہ عمل وہ کر بھی سکیں گے یا نہیں ۔ بس ان کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہر ادا کو ادا کرنے کا شوق موجزن رہتا تھا- دن ہو یا رات ہو ، صبح ہو یا شام ہو ، گرمی ہو یا سردی ہو کچھ پروا نہیں بس محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عشق میں ہمہ تن ڈوبے ہوے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہر ہر ادا کو ادا کرنے میں لگ جاتے ، بس دل میں یہ خوف ہوتا کہ کوئی سنت چھوٹ نہ جاۓ کہیں۔ اسی عشق میں ، اسی جوش میں ، اسی محبت میں کچھ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وصال صوم رکھتے دیکھا تو بس کیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس سنت کو ادا کرنے میں لگ گۓ مگر کچھ روز بعد ہی انتہائی کمزور ہو گۓ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کمزوری کی وجہ دریافت کرنے کےبعد فرمایا
ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقینی
تم میں سے کون ہے میری مثل ، میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی۔
حوالہ کے لئے دیکھیں
مسند الامام احمد جلد 2 صفحہ 21، 102، 231 اور الجامع الصغیر جلد 1 صفحہ 115 الموطا للامام مالک جلد 1 صفحہ 130 اور سنن الدارمی جلد 1 صفحہ 304 اور جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 163 اور سنن ابی داود جلد 2 صفحہ 279 اور صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 134
مطلب کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم صحابہ کو عقیدہ سکھا رہے ہیں کہ تمہاری بشریت میں اور میری بشریت میں بہت فرق ہے میں بغیر کھاۓ پیے روزے پہ روزہ رکھ سکتا ہوں مگر تم یہ نہیں کر سکتے کیونکہ تم میرے جیسے نہیں۔
اب صحابہ کرام علیھم الرضوان نے وہ آیت بھی سن رکھی تھی مگر کسی صحابی نے اس آیت کا غلط استعمال نہیں کیا اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جیسا بشر سمجھا ۔۔۔۔،
صحابہ کرام علیھم الرضوان اگر خصور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جیسا بشر سمجھتے تو کبھی بھی اپنی حاجات لے کر آپ کی بارگاہ میں نہ آتے ، کبھی بھی اپنی پریشانیوں سے نجات کے لیے آپ کے دامن کرم میں پناہ نہ لیتے ۔ مگر ایسا نہیں ہوا ۔۔۔
ہر صحابی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بے مثل ، یکتا ، اللہ کا محبوب ، اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ ، اپنا ملجاء و ماوی ، اللہ کی عطا سے مشکل کشا ،اللہ کی عطا سے حاجت روا ، شفیع روز جزا ، سراج منیرا ،سراپا رحمت ،اللہ کی پہچان،اللہ کے ایک ہونے کی دلیل، سراپا معجزہ سمجھتا تھا اور نہیں سمجھتا تھا تو اپنے جیسا بشر نہیں سمجھتا تھا ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جنگ احد میں خون نکلتا صحابہ کرام نے بھی دیکھا تھا ، کھانا کھاتے بھی دیکھا تھا ، پانی پیتے بھی دیکھا تھا ، اپنی طرح چلتے بھی دیکھا تھا مگر کبھی اپنے جیسا نہیں کہا نہ سمجھا ، بلکہ ایک صحابی سے دوسرا صحابی اس کی عمر پوچھتا ہے کہ آپ بڑے ہیں یا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ؟
تو اس صحابی کا ایمان افروز جواب ملاحظہ فرمائیں اور عقیدہ سیکھیں ، ادب سیکھیں ۔ وہ صحابی فرماتے ہیں کہ بڑے توحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں مگر عمر میری ذیادہ ہے ۔
وہ روز قرآن پڑھتے تھے ، روز قرآن سنتے تھے ان کی نگاہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات ہی بسے ہوتے تھے ۔ صحابہ جانتے تھے جب قرآن اعلان فرما رہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں جیسی کوئی عورت نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن سے نسبت زوجیت کی بنا پر وہ بے مثل اور یکتا ہو گئی ہیں تو خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثلیت اور یگانیت کا کیا عالم ہو گا۔ پھر کوئی ان جیسا کیسے ہو سکتا ہے ؟؟
قرآن اعلان فرما رہا ہے
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ
اے نبی کی بیبیوں تم اور عورتوں کی طرح نہیں
المعجم الکبیر شریف میں ایک حدیث ہے جو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ظاہری دنیا میں آخری گھڑیاں بیان کرتی ہے ۔۔ اس حدیث مبارکہ کا مفہوم پیش کرتا ہوں۔۔۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نماز جنازہ کا طریقہ کیا ہو گا؟
اگر صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے جیسا بشر سمجھتے ہوتے تو کبھی دریافت نہ کرتے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ پر نماز جنازہ کا طریقہ کیا ہو گا؟
کیونکہ وہاں دنیا سے پردہ فرمانے والوں کا نماز جنازہ جس طریقہ سے اللہ کے نبی پڑھاتے تھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جانتے تھے ۔۔۔ مگر ساتھ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہم جیسے نہیں اسی لیے دریافت فرما رہے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ پر نماز جنازہ کا طریقہ کیا ہو گا ۔۔ اور اللہ کے نبی نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ اے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسے اور لوگوں کا پڑھایا جاتا ہے ویسے ہی میرا بھی کیونکہ تم لوگ بھی تو میرے جیسے آدمی ہو ۔ قسم خدا کی جس نے حضور سرور کائنات، جان کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرگز ایسا نہیں فرمایا ۔۔ بلکہ کیا فرمایا ذرا ایمان کی آنکھوں سے ملاحظہ کریں ۔۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں "جب تم میرے غسل و کفن سے فارغ ہو جاؤ ، تو مجھے میرے اسی حجرے میں میری قبر کے کنارے چارپائی پر رکھ دینا اور کچھ دیر کے لیے باہر نکل جانا، کیونکہ سب سے پہلے میرا رب مجھ پر درود بھیجے گا۔ پھر وہ اپنے فرشتوں کو مجھ پر درود پاک پڑھنے کی اجازت دے گا ، تو اللہ کی مخلوق میں سب سے پہلے حضرت جبرائیل علیہ سلام میرے حجرے میں داخل ہونگے اور مجھ پر دورد بھیجیں گے پھر حضرت میکائیل علیہ سلام پھر حضرت اسرافیل علیہ سلام پھر حضرت ملک الموت عزرائیل علیہ سلام بہت بڑے بڑے لشکروں کے ساتھ آئیں گے ، اللہ عزوجل ان پر رحمت فرماۓ ۔
پھر تم سب لوگ قافلہ در قافلہ اور گروہ در گروہ آنا اور مجھ پر درود سلام پیش کرنا اور چیخ و پکار کر کے اور رو دھو کر مجھے اذیت نہ پہنچانا اور تم میں سے پہلے امام اور میرے اہل بیت میں سے ذیادہ قریب والے مجھ پر درود پاک پڑھیں ، پھر عورتوں کا گروہ ، پھر بچوں کا گروہ۔
(پوری حدیث مبارکہ " المعجم الکبیر ، ج 3، ص 63 " پر ملاحظہ فرمائیں )
اب میرا سوال ہے ان لوگوں سے جو کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہماری طرح بشر ہیں ۔ کیا تمہارا یا تمہارے مولویوں کا جنازہ بھی ایسے پڑھا جاتا ہے؟
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم دنیا میں جلوہ گر ہونے سے لے کر ہماری نگاہوں سے پردہ فرمانے تک بلکہ اس کے بعد بھی ہر طرح سے ہم سے اعلی ہیں اور ہماری طرح نہیں۔ اللہ نے جتنی بھی مخلوق بنائی ہے ان میں سے کوئی بھی ہمارے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرح نہیں ۔ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق ہونے میں لاشریک ہیں ۔
سب سے اولی و اعلی ہمارا نبی
سب سے بالا و والا ہمارا نبی
اپنے مولی کا پیارا ہمارا نبی
دونوں عالم کا دولھا ہمارا نبی
سارے اچھوں میں اچھا سمجھیے جسے
ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبی
سارے اونچوں میں اونچا سمجھیے جسے
ہے اس اونچے سے اونچا ہمارا نبی
ہمارا پیدا ہونا غلاظت کے ساتھ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیدا ہونا نور ہے اور آپ نے پیدا ہوتے ہی سجدہ فرمایا کہ با وضو پاک پیدا ہوے ،ناف بریدہ پیدا ہوے ، امت کی مغفرت کی دعا لب پر ہے ۔۔سبحان اللہ
دیکھیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیدائش کتنی اعلی اور نور اعلی نور ہے
ہم مریں تو نماز جنازہ پڑھا جاۓ اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پردہ فرمائیں تو درود شریف کے گجرے آللہ کی طرف سے ، ملائکہ کی طرف سے صحابہ کی طرف سے ، اہل بیت کی طرف سے آپ کی بارگاہ میں نچھاور کیے جائیں
ہمارا تھوک بیماری ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب شریف میں شفاء، اور زندگی ہے
ہمارا سونا ناقص وضو ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نیند کو شرف بخشنا وضو نہیں توڑتا
ہمارا ہاتھ ہمارا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھ مبارک کی شان یہ ہے کہ رب اسے اپنا ہاتھ قرار دے
ہمارا بولنا قابل گرفت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بولنا قرآن ہے
ہماری جان کی کوئی قدر و منزلت نہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کی قدرو منزلت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے جب خود خالق کائنات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کی قسم ارشاد فرماۓ
ہمارے قدم لگیں تو زمیں کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا مگر جہاں جہاں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدم مبارک لگتے جاتے ہیں اس زمین کی شان اتنی بلند ہو جاتی کے اللہ عزوجل اس کی قسم اٹھا لیتا ہے سبحان اللہ
ہمارا پسینہ عیب والا بدبو والا ہے اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک اتنا معطر کہ کوئی خشبو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ سبحان اللہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کی کوئی حد نہیں ۔۔ زندگیاں ختم ہو گئی ، قلم ٹوٹ گۓ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف کو بیان کرنے کا حق کوئی ادا نہ کر سکا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف کا اک باب بھی بیان نہ کر سکا۔
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کا اللہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و عظمت کا صدقہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام اور شان سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے غلاموں میں شامل فرماۓ اور سچے غلاموں کے ساتھ ہمارا حشر فرماۓ ۔۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
طالب دعا و طالب غم مدینہ
سگ بارگاہ غوث و رضا ، ڈاکٹر صفدر علی قادری
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.