You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
تقلید کے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ
****************************
قرآن وحدیث میں جو بات وضاحت کے ساتھ موجود نہ ہوتوکسی مجتہد کے بیان کردہ مسئلے پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہے
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
=====================
روز اوّل سے آج تک مذہب اسلام نے ہزارہا بلائوں وآفتوں سے مقابلہ کیا۔رسول اللہ ﷺ کے اس مہکتے اور لہلہاتے چمن پر بہت سی تیز آندھیاں آئیں اور اپنا زور دکھا کر چلی گئیں۔مگر الحمداللہ!یہ چمن مصطفی اسی طرح سرسبزوشاداب ہے۔دور حاضر میں ایک اور فتنہ بڑی تیزی کے ساتھ رسول اکرم ﷺکی بھولی بھالی امت کو شکوک وشبہات میں مبتلا کرکے گمراہ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہاہے۔اس فرقے کے سوالات کا انداز کچھ مختلف ہی ہوتا ہے۔مثلاً:ائمہ کی پیروی کرنا کیساہے؟تقلید کرنا کہاں تک صحیح ہے؟اس طرز کے سوالات قائم کرنے کی بجائے یہ کہاں جاتاہے کہ ائمہ کی تقلید کریں یا اللہ ورسول کی مانیں؟فقہ کی پیروی کریں یا احادیث کی پیروی کریں؟کیا تقلید کرکے اندھے اوربہروں میں شمار ہوجائیں؟ اور بعض جاہل تو تقلید کو شرک بھی کہہ دیتے ہے۔گویا کہ انھوں نے ائمہ کرام کو اللہ و رسول کے اور فقہی مسائل کو احادیث نبوی ﷺکے برابر جانا۔اس طرزکے سوالات منفی سوچ وفکر پیدا کرنے میں بڑے ہی مؤثر ثابت ہوتے ہیں اور منفی سوچ پیدا کرناہی غیر مقلدین کا بنیادی مقصد ہے۔علم و فہم سے خالی غیر مقلدین ایک طرف تقلید کا نہایت شدت سے انکار کرتے ہیں اور حیرت ہے کہ خود ہی بہت بڑے مقلد بنتے ہیں۔ممکن ہے وہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے مقلد نہ ہوں لیکن ۱۳؍یا۱۴؍ سوسالوں بعد کے غیر محتاط شخص جو مجتہد تو دور کی بات، معلوم نہیں عالم بھی ہے یانہیں،کی تقلید کرتے ہیں،اسی کے فتوے پر عمل کرتے ہیں،کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو اسی کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہے،ارے صاحب!اسی عمل کا نام تو تقلید ہے۔قرآن وحدیث میں جو بات وضاحت کے ساتھ موجود نہ ہوتوکسی مجتہد کے بیان کردہ مسئلے پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہے۔باالفاظ دیگر کسی شخص کا اپنے غیر کی اطاعت کرنا اس میں جو اس کوکہتے ہوئے یا کرتے ہوئے سن لے یہ سمجھ کر کہ اس کاکلام اور اس کا کام ہمارے لئے حجت ہے ،یہ سمجھ کرکہ وہ اہل تحقیق میں سے ہے۔
تقلید دو طرح کی ہے۔
تقلید شرعی اور تقلید غیر شرعی۔
تقلید شرعی تو شریعت کے احکام میں کسی کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں جیسے نماز،روزہ،حج ،زکوۃ وغیرہ کے مسائل میں ائمہ دین کی اطاعت کرنا،
اور تقلید غیر شرعی ہے دنیاوی باتوں میں کسی کی پیروی کرنا،جیسے طبیب لوگ علم طب میں بوعلی سیناکی،شاعر لوگ داغؔ،امیرؔیامرزاغالبؔ کی یا نحوی وصرفی لوگ سیبویہ اور خلیل کی پیروی کرتے ہیں۔اسی طرح ہر پیشہ ور اپنے پیشے میں اس فن کے ماہرین کی پیروی کرتے ہیں،یہ تقلید دنیاوی ہے۔
تقلید غیرشرعی اگر شریعت کے خلاف ہوتو حرام ہے اور اگر خلاف اسلام نہ ہوتو جائز ہے۔
عقائداور صریح احکام میں کسی کی تقلید جائز نہیں ہے۔
مثلاً:پانچ وقت کی نماز،نمازکی رکعتیں،روزوں کی تعداد،روزے میں کھاناپینا حرام ہونا،یہ وہ مسائل ہیں جن کاثبوت نص سے صراحۃً ہے اس لیے یہ نہیں کہا جائے گا کہ نمازیں پانچ اس لیے ہیں یا روزے ایک مہینے کے اس لیے ہیں کہ فقہ اکبر میں لکھا ہے یاامام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے بلکہ اس لیے کہ قرآن وحدیث میں ان کے احکام موجود ہیں۔
مکلف مسلمان دوطرح کے ہیں۔
ایک مجتہد اور دوسرے غیر مجتہد۔
مجتہد وہ ہے جس میں اس قدر علمی لیاقت اور قابلیت ہوکہ قرآنی اشارات ورموز سمجھ سکے اور کلام کے مقصد کو پہچان سکے،اس سے مسائل نکال سکے،ناسخ ومنسوخ کاپورا علم رکھتا ہو،علم صرف ونحووبلاغت وغیرہ میں اس کو پوری مہارت حاصل ہو،احکام کی تمام آیتوں اور احادیث پراس کی نظرہو،اس کے علاوہ ذکی اور خوش فہم بھی ہو۔
اور جو اس درجہ پر نہ پہونچا ہووہ غیر مجتہد یا مقلد ہے۔
غیر مجتہد پر تقلید ضروری ہے۔حضرت امام رازی،امام غزالی وغیرہ امام ترمذی اور امام دائود وغیرہ،حضور سیدنا غوث پاک،حضرت بایزید بسطامی،شاہ بہاء الحق نقشبند،اسلام میں ایسے پایہ کے علماء اور مشائخ گزرے کہ ان پر اہل اسلام جس قدر بھی فخر کریں کم ہے،مگر ان حضرات میں سے کوئی صاحب بھی مجتہد نہ ہوئے بلکہ سب مقلد ہی ہوئے۔آج کے دور میں کون ان کی قابلیت کاہے؟جب یہ مجتہد نہ ہوئے تو جن جاہلوں کو ابھی حدیث کی کتابوں کے نام لینا بھی نہ آتے ہوںوہ کس شمارمیں ہیں۔لہٰذا کم علم اور گمراہ لوگوں کے الٹے سلٹے سوالات میں آکربہکنے کی بجائے علماء حق سے ملاقات کرنی چاہئے اورذہنی خلجان کو دور کرنا چاہئے ۔ مکمل تفصیل کے لیے جاء الحق ودوسری کتابوں کا مطالعہ کریں۔
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.