You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
شبِ معراج میں رسول گرامی وقار ﷺکے جہنم کے مشاہدات
************************************
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
================================
نبوت کا بارہواں سال اور رجب کی ستائیسویں رات تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ام ہانی بنت ابو طالب کے گھر میں بستر نبوت پر استراحت فرما رہے تھے ۔
آنکھیں محو خواب تھیں مگر دل بیدار تھا ۔کہ نا گاہ جبریل امیں بارگاہ رحمۃ للعالمین میں حاضر ہوئے اور عالم قدس کی بزم نور میں شرکت کے رب العرش کا دعوت نامہ پیش کیا چنا نچہ مہمان عرش حریم ام ہانی سے نکل کر حرم کعبہ میں تشریف لائے ۔پھر جناب جبریل علیہ السلام نے آپ کا سینہ مبارک چاک کر کے قلب منور کو آب زمزم سے دھویا۔ اور حلم وعلم اور یقین وایمان سے پر کر کے پھر قلب انور کو سینہ منور میں رکھ کر بند کردیا۔ اور حرم کعبہ سے روانہ ہوئے اور براق پر سوار ہو کر مہمان الٰہی سفر معراج کے لیے چل پڑے۔ براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں تک نگاہ جاتی تھیں اتنا لمبا اس کا ایک قدم ہوتا تھا۔بیت المقدس پہنچ کر یہ دیکھا رسولوں کی مقدس جماعت استقبال وخیر مقدم کے لیے حاضر تھے ۔امام المرسلین نے امامت فرمائی۔ اور تمام انبیاء ومرسلین نے مقتدی بن کر آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ اعلیٰ حضرت قبلہ فرماتے ہیں ؎
نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر عیاں ہوں معنی اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
جنت کی سیر:
غیب داں رسول فرماتے ہیں : میں شب معراج ایک ایسی وادی میں پہونچا جس میں خوشبو ،ٹھنڈک اور کستوری تھی ،وہاں آواز سنی ، میں نے پوچھا یہ مہک اور خوشبو دار آواز کیسی ہے ؟
بتایا:یہ جنت کی آواز ہے جو کہہ رہی ہے :میرے رب !اپنے وعدہ کے مطابق مجھے عطافرما ،میرے کمرہ جات ،برتن ،ریشم ،سندس ،عبقری ،مرجان ،سونا ، اور چاندی ،ستارے ،کوزے،شہد ، پانی اور دودھ کثیر ہیں۔تو حکم الٰہی ہوا تیرے لئے ہر مسلمان مرد عورت اور جس نے مجھ پر اور میرے رسولوں پر ایمان لایا ،نیک اعمال کئے اور میرے ساتھ شرک نہ کیا یہ تمام تیرے لئے ہیں ،جو مجھ سے ڈر گیا وہ امان پاگیا ،جس نے مجھ سے مانگا میں اسے عطا کرتا ہوں ،جس نے مجھے قرض دیا میں اس پر بدلہ دیتا ہوں اور جس نے مجھ پر بھروسہ کیا اس کیلئے میں کافی ہوں ۔
جہنم کامشاہدہ:
آقائے رحمت فرماتے ہیں :شب معراج میں ایک وادی پر پہونچا وہاں بہت بری آواز سنی اور بدبو آئی ،میں نے پو چھا یہ بدبو اور آواز کیسی ہے ؟
بتایا :یہ دوزخ کی آواز ہے جو عرض کررہی ہے : اے میرے رب !مجھے حسب وعدہ عطا فرما ،میرے زنجیر ،بیڑیا ں ،گڑھے ،پیپ ،اور عذاب کے کیڑے مکوڑے اور میری گہرائی بہت ہے اور میری گرمی شدید ہے ،رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :ہر مشرک مردو عورت ،خبیث مردوعورت تیرا ہے ،میدان حساب میں کسی متکبر کیلئے امان نہ ہو گی۔
شب معراج میں آپﷺ نے دوزخ کو دیکھا ،داروغۂ جہنم حضرت مالک نے دوزخ کا ڈھکنا کھولا تو جہنم جوش میں آگیا،اور بلند ہو نے لگا،پیارے آقا سیاح لامکاں فرماتے ہیں :
’’میں خیال کرنے لگا کہ ان تمام چیزوں کو جنھیں میں دیکھ رہا ہوں ضرور اپنی گرفت میں لے لے گا ،آقا فرماتے ہیں :میں نے بہت سارے لوگوں کو مختلف دردناک عذاب میں مبتلا دیکھا ۔سیاح لامکاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں جن کے سر پتھروں سے کوٹے جارہے تھے ،جب کوٹ دیا جاتا وہ دوبارہ پہلی حالت پر آجاتا ، درمیان میں کچھ بھی مہلت نہ تھی ۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا جبریل! یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کیا :یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر فرض نماز کی ادائیگی سے غافل رہتے تھے ۔پھر آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے اگلی اور پچھلی شرمگاہوں پر کپڑے کے ٹکڑے تھے اور وہ وہاں اونٹوں اور بکریوں کی طرح چرتے تھوہر (ایک خار دار زہریلا پودا)اور دوزخی پتھر کھارہے تھے ۔میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ بلبل سدرہ نے عرض کیا :یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال میں سے صدقہ نہیں کرتے تھے اور اللہ جل شانہ کسی پر ظلم نہیں فرماتا ۔پھر آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے سامنے ہنڈیوں میں گوشت پک رہا تھا اور کچھ کچا ناپاک گوشت بھی تھا وہ لوگ ناپاک اور خبیث کچا گوشت کھا رہے تھے اور حلال پکا ہوا گوشت چھوڑ رہے تھے ،آقا نے پوچھاجبریل !یہ کون لوگ ہیں ؟ بتایا یہ آپ کی امت کے ایسے لوگ ہیں جو حلال بیوی چھوڑ کر غیر حلال عورت کے ساتھ راتیں بسر کرتے تھے۔اب آپ کو ایسے لوگ دکھا ئے گئے جنہوں نے لکڑیوں کے ایسے گٹھے جمع کر رکھے ہیں جنہیں اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے اور وہ اس میں اضافہ کررہے ہیں ۔پوچھا یہ کون ہیں ؟ بتایایہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس لوگوں کی امانتیں تھیںاور ان کی ادائیگی پر قادر نہیں لیکن وہ مزید اٹھائے جارہے ہیں ۔پھر غم خوار امت شفیع رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے ،کٹنے کے بعد وہ پہلی حالت میں آجاتے ،اس کے درمیان بالکل مہلت نہ ملتی،حضور نے پوچھا جبریل !یہ کون ہیں ؟ عرض کیا یہ فتنہ پرور خطبااور مقررین ہیں ۔مدنی آقا فرماتے ہیں :پھر میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک چھوٹا سا سوراخ تھا جس سے بڑا بیل باہر نکلااب وہ واپس اس میں داخل ہونے کی کوشش میں تھا لیکن ایسا نہ ہونے پارہا تھا ،آقائے محتشم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا تو جبریل علیہ السلام نے عرض کیا :یہ وہ شخص ہے جو بڑی بات کرکے اس پر نادم ہوتا مگر اس پر طاقت نہیں رکھتا ۔ اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔
عطا ء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.