You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
کہیں اساتذہ اور والدین اپنی ذمہ داریاں بھول تو نہیں گئے۔۔۔۔؟؟
*******************************************
اسکول وکالج کی سالانہ گیدرنگ میں شرعی احتیاط کی ضرورت
آج دنیامیں گانے باجے کا شوروغل ہے۔شہر،بازار،گلی،کوچے اس فتنۂ عظیم سے دوچار ہے۔ناچنے،گانے والے اب گلوکار،اداکار،موسیقار، فنکار اورفلمی اسٹار جیسے دل فریب ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں۔مردوزن کی مخلوط محفلوں کاانعقاد عروج پر ہے۔
بڑے بڑے شادی ہال،کلب،بازار،نیشنل وانٹرنیشنل ہوٹل اور دیگر مقامات ان بے ہودہ کاموں کے لیے بُک کردیئے جاتے ہیں جس کے لیے بھاری معاوضے اداکئے جاتے اور شو کے لیے خصوصی ٹکٹ جاری ہوتے ہیں۔چست وباریک لباس،میک آپ سے آراستہ لڑکیاں مجرے کرتی ہیں،جسے ثقافت وکلچرکانام دیاجاتاہے۔عاشقانہ اشعار،ڈانس میں مہارت،جسم کی تھرتھراہٹ،آواز کی گڑگڑاہٹ،ڈھول باجوں اور موسیقی کی دھن میں کمال دکھانے والوں اور جنسی جذبات کواُبھارنے والوں کو خصوصی ایوارڈ سے نوازا جاتاہے۔
غیرمسلم آبادی سے اٹھ کر یہ مرض مسلم سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکاہے۔سفرہویاحضر،جلوت ہویاخلوت،گھرہویادفترہرجگہ فلمی نغموں کی رسائی ہے حتیٰ کہ اب کھانابھی بغیرگاناسنے نہیں بنتا۔ہماری قوم تباہی کے دہانے پر خوشی خوشی آرہی ہے اور اسے اس کے نقصانات کااحساس تک نہیں ہے۔ایک کم عمر لڑکا باپ کے موبائل پر جب خود سے ویڈیو دیکھتااور گانے سنتاہے توباپ کی مسرت کی انتہانہیں ہوتی ہے اور وہ یارانِ محفل میں اس بات کاذکر فخریہ انداز میں کرتاہے کہ میرابیٹاخودسے موبائل آپریٹ کرلیتاہے۔تُف ہے ایسے باپ پر جوبچے کوگناہ کے راستے پر جاتاہوادیکھ کرروکنے کی بجائے خوشی وانبساط محسوس کرتاہے۔ اب ہماری اسکول وکالج کا یہ حال ہوچکاہے کہ اللہ کی پناہ۔جو جگہ قوم کے نونہالوں کی تربیت گاہ تھی اب وہ ناچ گانوں کی پریکٹس کااڈابنتی جارہی ہے۔
یوم آزادی ہویا اسکول وکالج کی سالانہ گیدرنگ۔اسلامی تعلیمات اور شریعت مطہرہ کے احکام کوکس طرح پیروں تلے رونداجاتاہے یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔
ان مجلسوں کاآغازتلاوت قرآن سے ہوتاہے،؟حمدونعت کانذرانہ پیش کیاجاتاہے،پھر اس کے بعد جوہوتاہے اسے جان بوجھ کرشریعت سے کھلواڑکہہ لیجئے یا دین سے دوری۔ہفتے دوہفتے بلکہ مہینے بھرپہلے سے ان محفلوں میں جو ناچ گانے اوررقص وسرورکے نمونے پیش کیے جانے والے ہوتے ہیں باضابطہ اساتذہ طلباء وطالبات کواس کی پریکٹس کرواتے ہیں۔جو اساتذہ قوم کے رہبرورہنماہیں،ترقی کے ضامن ہیں،وہی حضرات تعلیم وتربیت پر ناچ گانوں کوترجیح دیتے ہوئے ایسے پروگراموں کی تیاری میں مصروف نظرآتے ہیں۔پھریہ گلہ وشکوہ کیامعنی رکھتاہے کہ آخر معیار تعلیم کیوں گھٹ رہاہے؟اساتذہ کی عزت واہمیت موجودہ دور میں کیوں کم ہوتی جارہی ہیں؟ہماری قوم کے نونہال کیوں اونچی پوسٹ پرنہیں پہنچ پاتے؟
جب قوم کے رہبرورہنماہی اپنے شاگردوںکواخلاقی گراوٹ کی تعلیم دینگے،سرمحفل ان سے ڈانس کروائینگے،پھر یہ امیدکیوں کی جارہی ہے کہ وقار مسلم بحال ہوگا۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیااساتذہ کرام کودینی احکام نہیں معلوم؟کیامنیجمینٹ باڈی کوشریعت کاپاس وخیال نہیں ہے؟کیابطور مہمان خصوصی ایسے پروگرامات میں شرکت کرنے والوں کوفرمان خداورفرمان رسول ﷺکاذرہ برابر احساس نہیں ؟گانوں باجوں کے متعلق قرآن وحدیث کی کیاتعلیم ہے؟صحابۂ کرام واکابرین امت کی کیارائے ہے؟کیاایسی محافل ومجالس میں شرکت جائزہے؟گاناباجاکن لوگوں کامشغلہ ہے؟کیامسلمانوں کی روحانی غذاہے یہ؟
اسلام تو ہم سے یہ کہتاہے کہ مخلوط مجالس کاانعقاد ناجائزہے،ان مجالس میں عورت نہ ہی گاسکتی ہے اور نہ ہی اپنے بنائو سنگھار کااظہار کرسکتی ہے،جنھیں اسلام نے پردہ کی تعلیم دے کر باعزت ومکرم بنایاتھاآج کے سرسید کہلانے والے نام نہاد اساتذہ نے انھیں اسٹیج کی زینت بنادیا؟کیا یہی لوگ اپنی بیٹیوں کو اسٹیج پر نیم عریاں لباس میں رقص کرنے کی اجازت دینگے؟
حضرت عبدالرحمن بن ثابت فرماتے ہیں کہ
رسول گرامی وقارﷺنے فرمایاکہ ایک وقت آئے گاکہ میری امت کے کچھ لوگ زمین میں دب جائیں گے،شکلیں بدل جائیں گی اور آسمان سے پتھروں کی بارش کانزول ہوگا ،
عرض کیا،کیاوہ کلمہ گوہوں گے؟
فرمایا:ہاں!
جب گانے باجے اور شراب عام ہوجائے گی اور ریشم پہناجائے گا۔(ترمذی)
پیغمبراسلام ﷺتوبانسری کی آواز سن کر کانوں میں انگلیاں رکھ لیتے تھے،آپﷺنے جنگ بدر کے موقع پر اونٹوں کی گردنوں سے گھنٹیاں علیحدہ کردینے کاحکم فرمایاکہ گھنٹیاں شیطانی سازہیں
(مسلم)
جس گھرمیں جھانجھن یاگھنٹی ہواس میں فرشتے نہیں آتے ـ
(نسائی)
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
جو شخص کسی گلوکارہ کی مجلس میں بیٹھااور اس نے گاناسنا،قیامت کے دن اس کے کان میں سیسہ پگھلاکرڈالاجائے گا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ
جوشخص اس حالت میں فوت ہواکہ اس کے پاس گلوکارہ ہے،اس کاجنازہ مت پڑھو۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے ایک عورت کوگھرمیں دیکھاجوگارہی تھی اور خوشی میں اپنے سرکوگھمارہی تھی،آپ نے فرمایا:اُف!یہ توشیطان ہے ،اس کونکالو،اس کونکالو،اس کونکالو
(بخاری)
حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ
راگ (گانا)دل میں نفاق پیداکرتاہے۔
اگر واقعی تعلیمی بورڈ ایسے پروگرامات کاتقاضاکرتاہے تو ایساشیڈول بنایاجائے جس میں اسلامی احکام کی خلاف ورزی نہ ہو،اور والدین کو بھی چاہئے کہ
اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں،اگر وہ ایسی محافل میں شرکت کی اجازت طلب کریں جو شریعت کے مخالف ہوتوانھیں منع کریں اگر چہ وہ محفل ان کی کالج میں ہی کیوں کر نہ منعقد کی گئی ہو۔الل
ہ پاک عقل سلیم عطافرمائے۔
عطا ء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.