You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اس اعتبار سے حدیث کی تین اقسام کی جاسکتی ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔ متابِع
(۲)۔۔۔۔۔۔ متابَع
(۳)۔۔۔۔۔۔ شاہد
متابِع ،متابَع ، اور شاہِد:
وہ حدیث جو فرد حدیث (فرد نسبی) کے ساتھ لفظا و معنی یا فقط معنی موافقت کرے متابع کہلاتی ہے جبکہ جسکی موافقت کی جائے وہ متابَع کہلاتی ہے ۔متابعت کے لیے شرط ہے کہ دونوں حدیثیں ایک ہی صحابی کی مسند ہوں اور اگر صحابی مختلف ہو تو موافقت کرنے والی حدیث کو شاہد کہیں گے۔
متابع و متابَع کی مثال:
رَوَی الشَّافِعِيُّ عَنْ مَالِکٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا) أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللُّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلشَّہْرُ تِسْعٌ وَّعِشْرُوْنَ فَلاَ تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوُا الہِلالَ وَلاَ تُفْطِرُوْا حَتّٰی تَرَوْہ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدّۃَ ثَلاثِیْنَ۔
ترجمہ:امام شافعی نے امام مالک سے انھوں نے عبداللہ بن دینارسے انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا:مہینہ (کبھی) انتیس دن کا (بھی)ہوتا ہے لہذا روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند نہ دیکھ لو اور روزہ ترک نہ کرو یہاں تک کہ چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند دکھائی نہ دے تو تیس دن پورے کرو.
امام شافعی (رحمۃ اللہ علیہ ) اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کرنے میں امام مالک سے متفرد ہیں کیونکہ امام مالک کے دوسرے اصحاب (شاگردوں) نے اسی سند سے ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے۔ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدِرُوْا لَہٗ امام شافعی کے متفرد ہونکی وجہ سے لوگوں نے یہ گمان کیا کہ امام شافعی کی یہ حدیث غریب ہے لیکن ہمیں ایک اور حدیث مل گئی جسے عبد اللہ بن مسلمہ القعنبی نے انہی الفاظ کے ساتھ امام مالک سے روایت کیا ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنِ مَسْلِمَۃَ عَنْ مَالِکٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلشَّہْرُ تِسْعٌ وَّعِشْرُوْنَ ۔۔۔۔ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدّۃَ ثَلاثِیْنَ ۔
یہ دونوں حدیثیں ایک ہی صحابی حضرت عبدا للہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی سند سے ہیں ۔ لہذا امام شافعی سے مروی حدیث کو متابَع اور عبد اللہ بن مسلمہ کی حدیث کو متابِع کہیں گے۔
شاہد کی مثال:
اسی حدیث کو دوسرے صحابی کی سند سے امام نسائی نے روایت کیا ہے حدیث یہ ہے۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حُنَیْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ۔۔۔ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدّۃَ ثَلاثِیْنَ ۔ لہذا امام نسائی سے مروی یہ حدیث شاہد ہے۔
حکم:
متابِع ،متابَع اور شاھد فردِ نسبی کی اقسام ہیں اور فرد نسبی خبر غریب کی ایک قسم ہے لہذا ان کا حکم وہی ہے جو خبر غریب کا یعنی ان سے ظن کا فائدہ حاصل ہو گا لیکن قرائن و شواہد سے قوت پا کر یہ واجب العمل حکم کا فائدہ دیں گی۔
------------------------------------------------------------
نصاب اصول حدیث
مع
افادات رضویۃ
پیشکش
مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی )
(شعبہ درسی کتب)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.