You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قوم مسلم میں تعلیمی منصوبہ بندی کا فقدان:لمحہ ٔ فکریہ
اسٹوڈنٹس،اساتذہ،ٹیوشن کلاسیس اور زیراکس دکانداروںکی غفلت
****************************************
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
==============================
’’امتحان‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جس سے ہر انسان کا زندگی میں کبھی نہ کبھی سامناہوناہے۔
اسلامی نقطۂ نگاہ سے دیکھیں تو ہماری زندگی خود ایک امتحان ہے،اس زندگی میں احکام الٰہی کی بجاآوری کرتے ہوئے ان سوالوں کے جوابات تیار کرنے ہیں جو ہمیں قبروحشر میں دینے ہیں اور نتیجے میں اللہ جل شانہ ہمیں رزلٹ (نامۂ اعمال)عطا فرمائے گا ۔جو اس امتحان میں کامیاب رہا جنت الفردوس کی لازوال نعمتوں کا حق دار قرار پائے گا جبکہ ناکام شخص جہنم کا مستحق ٹھہرے گا۔
اُخروی اوردنیاوی امتحان میں فرق اتناہے کہ دنیاوی امتحان میں سوالات امتحان ہال میں بتائے جاتے ہیں جبکہ اُخروی امتحان کے سوالات بھی بتادیئے گئے ہیں اور ان کی تیاری کا مکمل طریقہ بھی۔
مارچ کے آغاز ہی سے مختلف شعبہ جات کے امتحانات کا سلسلہ دراز ہوجاتاہے۔امتحان کے قریب آتے ہی اکثر اسٹوڈنٹس ذہنی تنائو،نفسیاتی امراض اور صحتی گراوٹ کا شکارہوجاتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ تعلیمی میدان میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔سال بھر ہمارے اسٹوڈنٹس پڑھائی سے گریز کرتے ہیں اور عین امتحان کے وقت جاگتے ہیں۔ درحقیقت ہمارے پاس وِژن نہیں ہے۔پچاس سال نہیں بلکہ صرف پانچ سال بعد کیاہوگا،وقت اور حالات کیا کروٹ بدلیں گے ،اس کا ہمیں احساس نہیں،اس لیے کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔کیریئر گائیڈنس کے متعدد پروگرامات،اساتذہ کی سرپرستی اور رہنمایان قوم کی رہبری کے باوجود مسلم طلبہ کی اکثریت بغیر کسی پلاننگ یا ناقص منصوبے کے ساتھ تعلیمی اداروں میں قیمتی وقت ضائع کررہی ہے۔ہمارے اسٹوڈنٹس حال سے غافل،مستقبل کے متعلق بے فکر اور عزائم سے ناآشناہیں۔
اکثر طلبہ وطالبات کو ’’رٹنے‘‘کا مرض ہے۔وہ رَٹ کر سبق یاد کرتے ہیں۔یہ طریقہ غلط ہے۔ہمیشہ سمجھ کریاد کرنے کی عادت بنائیں۔رَٹاہواامتحان ہال میں بیٹھتے ہی آپ بھول سکتے ہومگر سمجھ کر یاد کیاہواآپ پرنسپل کے بازو میں بیٹھ کر بے جھجھک اطمینان کے ساتھ لکھ سکتے ہو۔اخبارات میں آئے دن ٹیوشن کلاسیس کے اشتہارات بھی بچوں میں احساس کمتری پیداکرتے ہیں۔ان اشتہارات کے ذریعے بچوں کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ہر ٹیوشن کلاس کاکچھ نہ کچھ دعویٰ ضرور ہوتاہے۔مثلاً:پاس نہیں تو فیس واپس،صد فی صد کامیابی کی ضمانت وغیرہ وغیرہ ۔جو بچے ان کلاسیس میں داخلہ نہیں لے سکتے وہ سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ بغیر ان کلاسیس کے ٹاپ پوزیشن حاصل کرناناممکن ہے۔اور جو ایڈمیشن لیناچاہتے ہیں وہ اشتہارات کی بھرمار دیکھ کر اس بات میں امتیاز نہیں کرپاتے ہیں کہ استاد رہنماہے یا تاجر؟؟
بعض اسکولوں اور کالجوں میں نصاب مکمل نہیں ہوپاتاجس کی وجہ سے اساتذہ بچوں کو پرانی نوٹس،گائیڈس اور رہبر کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔کچھ بچے ان کے ذریعے پڑھائی مکمل کرلیتے ہیں جبکہ بہت سے اسٹوڈنٹس انہی چیزوں کا سہارا لے کر نقل کرتے ہیں۔مجھے نہیں معلوم کے اس بات میں کتنی سچائی ہے مگر میرے احباب نے مجھے بتایا کہ بعض اسکولوں میں خود اساتذہ اپنے بچوں کو نقل کرواتے ہیں تاکہ وہ ٹاپ پوزیشن حاصل کریں۔پبلشر حضرات کو بھی چاہئے کہ وہ پاکٹ سائز ڈائجسٹ کے نقصانات کو فراموش نہ کریں۔یا د رہے کسی ایک طالب علم یا کسی ایک اسکول کے ٹاپ کرنے سے پوری قوم کا تعلیمی معیار بلند نہیں ہوگا۔ قوم مسلم کا تعلیمی معیار اسی وقت بلند ہوسکتاہے جب ہر بچہ عمدہ پوزیشن حاصل کرے گا۔اور ہربچے کو اعلیٰ مارکس دلانے کے لیے رہبری کی ضرورت ہے نہ کہ نقل نویسی کی۔
راقم زیراکس کرنے والوں سے عرض کرتا ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی طالب علم نقل کی غرض سے نوٹس کو کم سائز میں زیراکس کرنے کے لیے آتا ہے تو آپ اسے سمجھائیں،نقل سے روکیں اور پڑھائی کی طرف متوجہ کریں۔یقینااس سے آپ کا کچھ نقصان ہوگا مگر قوم کے فائدے کے لیے یہ نقصان کوئی معنی نہیں رکھتا۔طلبہ کو چاہئے کہ اسٹڈی باوضو کریں،بسم اللہ شریف،درود شریف اور قوت حافظہ کی دعائیں پڑھ لیا کریں۔مستقل مزاجی اور سخت محنت ہی میں کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
اللہ پاک قوم مسلم کو ہر محاذ پر کامیاب وکامران فرمائے۔
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.