You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قائدین تحریک آزادی قسط ۲
علمائے اسلام پر انگریزی مظالم کی لرزہ خیز داستان
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
۱۸۵۷ء میں علمائے اہلسنّت نے اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کا خیال کئے بغیرانگریزوں کے خلاف فرضیت جہاد کا فتویٰ صادر کیا۔ان میں خاص طور پر علامہ فضل حق خیرآبادی، مفتی صدرالدین آزردہ،مولانافیض احمد بدایونی،احمد اللہ شاہ مدراسی،مفتی عنایت احمد کاکوروی،مولانا کفایت علی کافی ،مولانا رحمت اللہ کیرانوی ،ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی،مولانا امام بخش صہبائیؔ دہلوی ،مولانا وہاج الدین مرادآبادی اور مولانا رضا علی خاں بریلوی قابل ذکر ہیں۔فتویٔ جہاد کے صدور کے بعد ہزارہاں ہندوستانی اپنی ہتھیلیوں میں سروں کا نذرانہ لیے آزادی کے لیے انگریزوں سے برسرپیکار ہوئے مگر افسوس یہاں بھی بعض وجوہات کی بناپر مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔چوں کہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے لی تھی اور مسلمان ہی آزادی کی لڑائی میں پیش پیش تھے اس لیے اس کا خمیازہ صرف اور صرف مسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔انگریز اپنے انتقام میں ایسے اندھے ہوگئے کہ انھیں برادران وطن کا خیال ہی نہیں رہا،انھیں اعزازی نوکریاں ملنے لگیں اور مسلمان ہر جگہ سے بے دخل کئے جانے لگے۔مختصر یہ کہ بغاوت کی ساری ذمہ داری مسلمانوں ہی کے حصے میں آئی ؎
آکے پتھر تو مرے صحن میں دوچار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
۱۸۵۷ء کی بغاوت کو کچلنے میں انگریزوں نے کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا۔چنانچہ علامہ فضل حق خیرآبادی ’’الثورۃ الہندیہ‘‘میں رقمطراز ہیں:’’اس ابتلاء عظیم میں پردہ نشین خواتین پیدل نکل کھڑی ہوئیں،ان میں بوڑھی اور عمر رسیدہ بھی تھیں،جو تھک کر عاجز ہوگئیں۔بہت سی خوف سے جان دے بیٹھیںاور پچاسوں عفت وعصمت کی بنا پر ڈوب کر مر گئیں،اکثر پکڑ کر قیدی بنائی گئیںاور طرح طرح کی مصیبتوں میں گرفتار ہوگئیں۔کچھ کو بعض رذیلوں نے لونڈیاں بنالیااور بعض چند ٹکوں کے بالعوض بیچ ڈالی گئیں۔بہت سی بھوک پیاس کی تاب نہ لا کر مرگئیں۔بہت سی ایسی غائب ہوئیں کہ پھر نہ تو لوٹ کر ہی آئیں،نہ ان کا کچھ پتہ ہی چل سکا۔ہزاروںعورتیںاپنے سرپرستوں،شوہروں، باپوں، بیٹوں اور بھائیوں سے جدا کردی گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت سی صبح کی سہاگن عورتیں شام کو بیوہ بن گئیں اور شب کو آغوشِ پدر میں سونے والے بچے صبح کو یتیم ہوکر اٹھے۔کتنی ہی عورتیں اپنی اولاد وغیرہ کے گم میں گریہ وزاری کرتی تھیں اور کتنے مردوں کی آنکھوں سے آنسوئوں کا دریا جاری تھا۔شہر چٹیل میدان اور بے آب وگیاہ جنگل بن گیاتھا۔‘‘(باغی ہندوستان،ص۵۳)
۱۸۶۴ء تا ۱۸۶۷ء تک انگریزوں نے علماء کوہلاک کرنا شروع کیا۔ایک انگریز فوجی افسر ہنری کوٹن (Henry Cotton)بیان کرتا ہے کہ ’’دہلی دروزہ سے پشاور تک گرینڈ ٹرنک روڈ کے دونوں ہی جانب شاید ہی کوئی خوش قسمت درخت ہوگا جس پر انقلاب ۱۸۵۷ء کے ردّ عمل اور اسے کچلنے کے لیے ہم نے ایک یا دو عالمِ دین کو پھانسی پر نہ لٹکایا ہو۔ایک اندازے کے مطابق تقریباً بائیس ہزار علما کو پھانسی دی گئی۔‘‘،مسلمان مجاہدین نامی کتاب میں ایک غیر مسلم مؤ رخ لکھتا ہے کہ ’’ایک اندازہ کے مطابق ۱۸۵۷ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں۔جوبھی معزز مسلمان انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا اس کو ہاتھی پر بٹھایاگیااور درخت کے نیچے لے گئے۔پھندا اس کی گردن میں ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھایاگیا،لاشیں پھندے میں جھول گئیں،آنکھیں اُبل پڑی ،زبان منہ سے باہر نکل آئی۔‘‘(علمائے اہلسنّت کی بصیرت وقیادت،ص۸۰)
ان تین سالوں میں چودہ ہزار علمائے کرام تختۂ دار پر چڑھائے گئے۔دہلی میں چاندنی چوک کے اِردگرد دور دور تک ایسا کوئی درخت نہیں تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں۔علماء کو سُوروں کی کھالوں میں بند کرکے جلتے ہوئے تنوروں میں ڈالاگیا۔علماء کے جسموں کو تانبوں سے داغا گیا۔علماء کو ہاتھیوں پر چڑھا کر درختوں سے باندھا گیااور ہاتھیوں کا پھر چلا دیا جاتا۔ انگریزی رائٹر مسٹر ایڈورڈ ٹامسن ’’تصویر کا دوسرا رخ‘‘ نامی کتاب میںلکھتا ہے کہ ہاتھیوں کو اس طرح چلانے سے پھانسی لگنے والے شخص کا بدن انگریزی کے آٹھ (8)کے جیسا ہوجاتا۔لاہور کی شاہی مسجد میں ایک دن میں اسّی اسّی علمائے کرام کو پھانسی دی جاتی تھی۔لاہور کے دریائے راوی میں علما کو بوریوں میں بند کرکے بہادیا جاتااور اوپر سے گولیاں چلائی جاتی۔غرضیکہ ایسے ایسے مظالم ڈھائے گئے جن کی تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
دنیا سے آج پوچھو پیچھے نہیں ہے ہم انگریز سے رہا تھا جب امتحاں ہمارا
زد میں بھی گولیوں کی مقصد نہ ہم نے چھوڑا قیدوں میں بھی نہ بدلہ عزم جواں ہمارا
ریلوں میں راستوں میںجیلوں میں محفلوں میں نعرہ تھا ہم کو دے دو ہندوستان ہمارا
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.