You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قائدین تحریک آزادی قسط ۱
ہندوستان کی جنگ آزادی کا پس منظر تاریخی حقائق کی زبانی
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
ہندوستان وہ ملک ہے جوہمیشہ سے مسلمانوں کا مسکن رہاہے۔صحابہ کرام وتابعین کرام وتبع تابعین کرام کے قافلے اسلام کے فروغ واستحکام کے لیے ہند کی سرزمین پر تشریف لاتے رہے ہیں۔ صوفیائے عظام،مشائخ کرام،دعاۃ ،مبلغین اور اجلہ علمائے کرام کے دم قدم اور فیضان وبرکت سے ہر دور میں ہندوستان میں اسلام کی شمع روشن رہی اور ایمان کی باد بہاری سے ہر خطہ لہلہاتا رہا ۔عہد بہ عہد شمع اسلام کی لَواور اس کی روشنی تیز تر ہوتی گئی اور چراغ سے چراغ جلتے چلے گئے۔مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی(وصال صفر۱۰۳۴ھ/دسمبر۱۶۲۴ئ)،امام المحدثین شاہ عبدالحق محدث دہلوی(وصال ربیع الاول۱۰۵۲ھ/جون ۱۶۴۲ئ) ،امام لہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(وصال ۱۱۷۶ھ / دسمبر ۱۷۶۲ئ) ،سراج الہند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (وصال ۱۲۳۹ھ/۱۸۲۳ئ)،بحرالعلوم علامہ عبدالعلی فرنگی محلی لکھنوی (وصال صفر۱۲۲۵ھ/دسمبر۱۸۱۰ئ)،شمس العارفین حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں قادری برکاتی مارہروی (وصال صفر ۱۲۳۵ھ/ دسمبر۱۸۲۰ئ)،امام الحکمت والکلام علامہ فضل حق خیرآبادی (وصال صفر۱۲۷۸ھ/۱۸۶۱ئ)،مفتی صدرالدین آزردہ دہلوی (وصال صفر۱۲۸۵ھ/۱۸۶۸ئ)اور دوسرے بہت سے جید وممتاز علمائے کرام نے اپنی مساعی جمیلہ سے کفروارتداد کے اٹھنے والے ہر فتنے کا سر قلم کیا اور اسلامی تعلیمات وقوانین کی محافظت کا فریضہ انجام دیا۔۱۸۵۷ء کے سنگین ودردناک حالات میں علمائے اہلسنّت نے مسلمانان ہند کی جو فکری قیادت کی اس سے مؤ رخین بخوبی واقف ہیں۔یہ ایک مسلم الثبوت اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی علمائے کرام ہی کے دم قدم سے متصور ہے۔آج ہم آزادی کی جس خوشگوار فضا میں زندگی کے لمحات بسر کررہے ہیں،یہ علمائے حق ہی کے سرفروشانہ جذبات اور مجاہدانہ کردار کا ثمرہ ہے۔انھیں کے مقدس لہو سے شجر آزادی کی آبیاری وآبپاشی ہوئی ہے۔اگر انہوں نے بروقت حالات کے طوفانی رخ کا تدارک نہ کیا ہوتا تو آج مسلمان یہاں کس حال میں ہوتے وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
مغلیہ عہد حکومت پر نظر دوڑائے تو معلوم ہوگا کہ مغلیہ سلطنت میں بگاڑ اس وقت پیدا ہواجب بادشاہِ ہند جلال الدین محمد اکبر(م۱۶۰۶،آگرہ)نے دین الٰہی کی بنیاد رکھ کر امت میں انتشار وافتراق پھیلایا۔اکبر ہی کے دورِ حکومت میں ملکہ الزبتھ کے ذریعے لندن کی ایک تجارتی کمپنی کو ہندوستان میں تجارت کرنے کی منظوری ملی۔۱۶۰۸ء سے لے کر ۱۶۶۶ء تک مغل بادشاہ نورالدین جہانگیراورشاہجہاںکے دور حکومت میں سورت(گجرات)،کھمبات،گوا،احمدآباداور کلکتہ میں ایسٹ اندیاکمپنی کو آزاد تجارت کے وسیع مواقع میسر ہوئے۔حضرت اورنگ زیب عالمگیر (۱۷۰۷ئ)کے وجودکے ساتھ ہی مسلمانوں کی غیرت وحمیت اور مغل حکمرانوں کا رعب ودبدبہ بھی سپردخاک ہوگیا۔محمد معظم معروف بہ شاہ عالم بہادر شاہ فرزندِ اورنگ زیب کے عہد حکومت از ۱۷۰۷ء تا ۱۷۱۲ء ،جہاں دار شاہ فرزند ِشاہ عالم بہادر شاہ کے عہد حکومت از ۱۷۱۲ء تا ۱۷۱۳ء ،جہاں دار شاہ کے برادر زادہ فرخ سیر کے عہد ۱۷۱۳ء تا ۱۷۱۹ء ،شاہ عالم بہادر شاہ کے پوتے محمد شاہ رنگیلے کی مدت حکومت ۱۷۱۹ء تا ۱۷۴۸ء تک مغلیہ حکومت کی کمزوری وابتری،ذلت ورسوائی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے برتری کا دور تھا۔حتی کہ ابوالمظفر جلال الدین سلطان عالی گوہر معروف بہ شاہ عالم ثانی مدت حکومت ۱۷۵۹ء تا ۱۸۰۶ء حکومت اتنی کمزور وناتواں ہوگئی کہ بادشاہ ہونے کے باوجود شاہ عالم ثانی وظیفہ خوری کی زندگی گزار نے پر مجبور تھا۔جابجابغاوتیںاور شورشیں برپا ہوئیںاور ہندوستان کے ہر حصے میں خودمختار ریاستیں قائم ہوگئیں۔رہی سہی کسر نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی کے یکے بعد دیگرے کئی حملوں نے پوری کردی۔تخت وتاج کی بوالہوسی،حصولِ زرو زن اور عیش پرستی کے اس دور میں انگریز اپنا تجارتی لبادہ اتار کر حاکم بننے کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔
۱۷۵۷ء میں رئیس بنگال نواب سراج الدولہ کی قیادت میںجنگ پلاسی ،۱۷۶۴ء میں جنگ بکسر،۱۷۷۴ء میں جنگ روہیل کھنڈاور اس کے بعد حیدر علی سے انگریزوں نے کئی جنگیں لڑیں اور اپنوں کی فریب کاری ،مکاری ،دغابازی اور عیاری کے سبب انگریز ہر محاذ پر کامیاب ہوئے۔۱۷۹۹ء میں ہندوستان کے شیر دل حکمراں سلطان ٹیپو کوشہید کرنے کے بعد انگریز کمانڈر نے کہاتھا کہ ــ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘یعنی آج صرف سلطان ٹیپو نے شکست نہیں کھائی ہے بلکہ ہندوستان نے شکست کھائی ہے۔
فصل ِ آزادی کو اس ملک میں بویا ہم نے اور دیس کے واسطے ٹیپو کو بھی کھویاہم نے
مئی ۱۸۵۷ء میںآخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں تقریباً ساڑھے چار مہینے جنگ ہوئی مگر بہادر شاہ ظفر کو بھی شکست فاش ہوئی اور آخر کار ایسٹ انڈیا کمپنی کا عمل دخل ختم ہوکر ہندوستان پر براہِ راست ملکۂ برطانیہ کی حکومت قائم ہو گئی۔بہادر شاہ ظفر کو قید کرلیاگیا،بادشاہ کے بیٹے مرزا مغل اور پوتے خصر سلطان کو مسٹر ہڈسن نے گولی کا نشانہ بنایا،سر تن سے جدا کیا گیااور سَروں کو خوان میں سجا کر بادشاہ کے سامنے تحفۃً پیش کیاگیا۔بادشاہ کو مع اہل وعیال رنگون بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے حسرت ویاس کے عالم میںنومبر ۱۸۶۲ء میں انتقال فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.