You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قبروں کی توہین کرنے والوں کی سزا
جناب حامد علی علیمی ( پاکستان) کے قلم سے
نام نہاد مسلمانوں کے کام
رسول اﷲﷺ کی اُمّت میں بے شمار گمراہ فرقے وجود میں آچکے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے عقائد و نظریات اور معاملات طرح طرح کی اہانتوں سے پر ہیں۔ منجملہ ان اہانتوں میں سے ایک اہانت ’’قبور انبیاء و شہداء و اولیاء کا منہدم و مسمار کرنا‘‘ ان فرقوں کا شعار ہوگیا ہے، حالانکہ یہ سب کلمہ گو ہونے کے دعوے دار ہیں۔ یہ لوگ ایسا فعل قبیح کررہے ہیں، جسے دنیا کے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں نے بھی کبھی نہیں کیا بلکہ وہ لوگ اپنے معظمان مذہب کی قبروں کے ساتھ اس قسم کا اہانت و تحقیر والا کام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مگر افسوس! یہ نام نہاد مسلمانوں کے فرقے بہرحال ایسا کررہے ہیں، جب ان کا بس چلا تو حجاز مقدس میں جنت البقیع کے مزارات کو بھاری مشینری کے ذریعے زمین بوس کردیا۔ حضرات صحابہ کرام و تابعین رضی اﷲ عنہم اجمعین کی آرام گاہوں کی تمام نشانیاں مٹادیں۔
آج کل بعض افریقی ممالک، خصوصا ’’لیبیا‘‘ اور ’’صومالیہ‘‘ اور عرب ممالک مثلا شام وغیرہ میں یہ بدبخت لوگ شر پھیلا رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ دین اسلام کو اس کی وہ شکل دیں گے جو رسول اﷲﷺ کے مبارک دور میں تھی۔ اس دین سے ’’کفر و شرک‘‘ کی نحوست کو ختم کریں گے، اور اس کفر و شرک میں ایک اہم کردار اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات ہیں، لہذا یہ لوگ اپنی پوری توانائیاں ان مزارات کو شہید کرنے میں استعمال کررہے ہیں۔ حال ہی میں رسول اﷲﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت حجر بن عدی رضی اﷲ عنہ کے مزار مقدس کو شہید کرکے جسد مبارک نامعلوم مقام پر منتقل کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت خالد بن ولید، حضرت زہیر بن قیس اور حضرت امام حسن عسکری رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے مزارات پر بم دھماکے کرچکے ہیں اور کئی دیگر اولیاء کاملین کی قبروں کو کھود چکے ہیں۔
مسلمان کو مشرک کون سمجھے گا؟
ان افراد کا اس طرح کے اقدامات کرنے کا ایک بڑا محرک یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے سوا تمام مسلمانوں کو مشرک سمجھتے ہیں یا جو مسلمان ان کی بات پر عمل نہ کرے، وہ مشرک ہے۔ ان لوگوں کی نشانیاں حدیث میں بیان کردی گئی ہیں۔ چنانچہ صحیح ابن حبان میں ہے:
اخبرنا احمد بن علی بن المثنی حدثنا محمد بن مرزوق حدثنا محمد بن بکر عن الصلت بن بہرام حدثنا الحسن حدثنا جندب البجلی فی ہذا المسجد ان حذیفۃ حدثہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ان ما اتخوف علیکم رجل قرأ القرآن حتی اذا رئیت بہجتہ علیہ، وکان ردئاً للاسلام، غیرہ الی ما شاء اﷲ، فانسلخ منہ و نبذہ وراء ظہرہ، وسعی علی جارہ بالسیف، ورماہ بالشرک، قال: قلت: یانبی اﷲ! ایہما اولیٰ بالشرک المرمی ام الرامی؟ قال: بل الرامی
ترجمہ: ’’حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: مجھے تم لوگوں پر زیادہ خوف اس شخص کا ہے جو قرآن پڑھے گا یہاں تک کہ اس پر قرآن کی تر وتازگی دکھائی دینے لگے گی اور وہ اسلام کا مددگار بن کر اسلام کو بدلنے لگے گا اور اس سے نکل کر اسے پس پشت ڈال دے گا۔ اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر نکلے گا اور اس پر شرک کا الزام لگائے گا، حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اے اﷲ کے نبی! ان دونوں میں سے کون شرک کا حقدار ہوگا،جس پر الزام لگایا گیا یا الزام لگانے والا؟ حضورﷺ نے فرمایا: بلکہ وہ جس نے الزام لگایا‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق ان کے بڑے بدبختوں نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے، جس کی رو سے یہ لوگ ہر اس مسجد کو منہدم کرنا لازم و ضروری سمجھتے ہیں، جس سے متصل کسی اﷲ تعالیٰ کے نیک بندے (صحابہ و ولی) کی قبر ہو، لہذا اس حکم کے تحت اب تک کئی مساجد و مزارات کو شہید کیا جاچکا ہے، مزید یہ شر انگیزی جاری بھی ہے۔ یاد رہے کہ اس ناپاک حکم کے مطابق معاذ اﷲ تمام مساجد کے ساتھ ساتھ مسجد نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام، بھی شامل ہے۔ مزید تفصیل کے لئے فتاوٰی بن باز اور ناصر الدین البانی کی تحذیر الساجد پڑھیں تاکہ ان لوگوںکی گمراہیاں واضح ہوں۔
ان مذکورہ ممالک میں الحمدﷲ غیرت مند مسلمان زندہ ہیں، جو ’’سنی ملیشیا فورس‘‘ کے دستوں کی صورت میں اپنی حیثیت کے مطابق ان بدنصیبوں سے برسر پیکار ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی ان کے اس قبیح فعل پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ فورا مزارات و مساجد کو شہید کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق بعض نام نہاد ’’اسلامی ممالک‘‘ ان دہشت گردوں کی ہر طرح سے حمایت کررہے ہیں، انہیں مال و اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔ اگر ان لوگوں کے مقدر میں ہدایت ہے تو دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو ہدایت عطا کرے، ورنہ اپنی غیبی مدد سے ان سب لوگوں کو عبرت کا نشان بنادے۔
ان سطور میں ہم اس فعل قبیح کی سزا پر کچھ تحریر کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ناپاک فعل کے ناجائز و حرام ہونے کے دلائل قارئین کے سامنے پیش کریں گے۔
آج کل ان لوگوں کی پہچان دنیا بھر میں ’’نجدی، وہابی یا سلفی‘‘ (۱) کے نام سے ہوتی ہے۔ مذکورہ ممالک میں یہی ’’سلفی‘‘ وغیرہ اس قسم کی گستاخانہ حرکتوں میں ملوث ہیں۔ علامہ احمد بن علی بصری رحمتہ اﷲ علیہ اپنی کتاب ’’فصل الخطاب فی رد ضلالات ابن عبدالوہاب‘‘ میں اس گمراہ و بددین فرقے کے نظریات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
منہا انہ صح انہ یقول (ابن عبدالوہاب) : لو قدر علی حجرۃ الرسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم لہد متہا
یعنی: من جملہ گستاخیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہتا ہے: ’’اگر میں قدرت پائوں تو روضۂ رسولﷺ کو توڑ دوں۔
ناصر الدین البانی نے ’’تحذیر الساجد‘‘ میں نجدی حکومت سے روضہ رسولﷺ کو مسجد نبوی سے خارج کرنے کا کہا ہے تاکہ مزار اقدس بالکل جدا ہوجائے اور آنا جانا مسجد سے بند ہوجائے۔ اس کے رد کے لئے ’’تبیین ضلالات الالبانی المتمحدث‘‘ کا مطالعہ لازمی ہے۔
مزید علامہ بصری رحمتہ اﷲ علیہ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’اقول: تہدیم قبور شہداء الصحابۃ المذکورین لأجل البناء علیٰ قبورہم ضلالۃ، ای: ضلالتہ‘‘ انتھی
یعنی: ’’نجدی کا شہداء صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی قبور کو قبوں کی وجہ سے توڑ ڈالنا اس ابن عبدالوہاب نجدی کی گمراہی ہے‘‘
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
قال بعضہم: ولو کان المبنی علیہ مشہور ابالعلم والصلاح او کان صحابیا وکان المبنی علیہ قبۃ وکان البناء علیٰ قدر قبرہ فقط ینبغی ان لایہدم لحرمۃ نبشہ وان اندرس، اذا علمت ہذا فہذ البناء علیٰ قبور ہٰؤلاء الشہداء من الصحابۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم لایخلواما ان یکون واجبااو جائزاً بغیر کراہۃ وعلیٰ کل فلا یقدم علی الہدم الا رجل مبتدی ضال لاستلزامہ انتہاک حرمۃ اصحاب رسول اﷲ صلی تعالیٰ علیہ وسلم الواجب علی کل مسلم محبتہم ومن محبتہم وجوب توقیرہم وای توقیرہم عند من ہدم قبورہم حتی بدت ابدانہم واکفانہم کما ذکر بعض علماء نجد فی سوال ارسلہ، انتہی‘‘
یعنی: بعض علماء نے فرمایا کہ صاحب قبہ اگر کوئی مشہور عالم، متقی یا صحابی ہے اور قبہ صرف قبر کے برابر ہو تو اسے منہدم نہیں کرنا چاہئے کیونکہ خواہ اس کا نشان بھی کیوں نہ مٹ جائے مگر اس کا کھولنا جائز نہیں۔ اب آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان شہید صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی قبور پر عمارات بنانا تو واجب ہوگا یا بلا کراہت جائز۔ اور بہر دو صورت منہدم کرنا جائز نہیں، اور یہ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو بدعتی اور گمراہ ہو کیونکہ اس سے اصحاب رسولﷺ کی بے حرمتی ہوتی ہے، حالانکہ ان کی تعظیم اور توقیر ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اب وہ لوگ تعظیم کرنے والے کیسے قرار پاسکتے ہیں جنہوں نے شہداء کی قبور کھود ڈالیں جبکہ بعض کے جسم اور کفن بھی صحیح سلامت ظاہر ہوگئے۔ جیسا کہ بعض علماء نجد نے ایک سوال کے جواب میں ذکر کیا ہے(۲)
افسوس…! جب سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ان ملعونوں کا ایسا ناپاک خیال ہے اور ان کے روضۂ اطہر اور شہداء و صحابہ کرام علیہم الرضوان کی قبور کو منہدم کرنے کا بے ہودہ خیال ہے تو باقی اموات عامہ مومنین صالحین کی نسبت اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں، کیونکہ قبور مومنین صالحین کا توڑنا اور منہدم کرنا، شعار نجدیہ وہابیہ ہے اور شریعت مطہرہ میں یہ فعل قطعاً ناجائز و حرام ہے۔
اس کی حرمت پر دلائل
حاکم و طبرانی حضرت عمارہ بن حزم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ نے مجھے ایک قبر پر بیٹھے دیکھا، فرمایا:
یاصاحب القبر! انزل من علی القبر لا تؤذی صاحب القبر ولا یؤذیک
یعنی: او قبر والے! قبر سے اتر آ، نہ تو قبر والے کو ایذا دے نہ وہ تجھے (۳)
امام احمد علیہ الرحمہ بسند حسن انہیں حضرت عمر بن حزم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ سید عالمﷺ نے مجھے ایک قبر سے تکیہ لگائے دیکھا، فرمایا ’’لاتؤدی صاحب ہذا القبر) اس قبر والے کو ایذا نہ دے) فرمایا : لاتوذہ (اسے تکلیف نہ پہنچا) (۴)
اسی واسطے فقہائے احناف علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’قبر پر رہنے کو مکان بنانا، یا قبر پر بیٹھنا، یا سونا، یا اس پر یا اس کے نزدیک بول و براز کرنا، یہ سب امور اشد مکروہ قریب بحرام ہیں۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
ویکرہ ان یبنی علی القبر او یقعد اوینام علیہ اویطأ علیہ او یقضی حاجۃ الانسان من بول او غائط… الخ
قبرپر عمارت بنانا، بیٹھنا، سونا، روندنا، یا بول و براز کرنا مکروہ ہے (۵)
علامہ شامی رحمتہ اﷲ علیہ اس کی دلیل میں حاشیہ در مختار میں فرماتے ہیں:
لان المیت یتاذی بما یتاذی بہ الحی
یعنی: اس لئے کہ جس سے زندوں کو اذیت ہوتی ہے اس سے مردے بھی ایذا پاتے ہیں (۶)
بلکہ دیلمی نے ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے اس کلیے کی تصریح میں روایت کی کہ سرور عالمﷺ نے فرمایا:
المیت یؤذیہ فی قبرہ ما یؤذیہ فی بیتہ
میت کو جس بات سے گھر میں ایذا ہوتی ہے قبر میں بھی اس سے ایذا ہوتی ہے (۷)
ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں سیدنا عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں: اذی المومن فی موتہ کاذاہ فی حیاتہ: مسلمان کو بعد موت تکلیف دینی ایسی ہے جیسے زندگی میں اسے تکلیف پہنچائی (۸)
علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ مسلمان کی عزت میں مردہ اور زندہ برابر ہیں۔ محقق علی الاطلاق رحمتہ اﷲ علیہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں:
الاتفاق علیٰ ان حرمۃ المسلم میتا کحرمتہ حیا
اس بات پر اتفاق ہے کہ مردہ مسلمان کی عزت و حرمت زندہ مسلمان کی طرح ہے (۹)
نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:
کسر عظم المیت واذاہ ککسرہ حیائ، رواہ الامام احمد و ابو دائود وابن ماجۃ باسناد حسن عن ام المومنین عائشہ الصدیقۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
مردے کی ہڈی کو توڑنا اور اسے ایذا پہنچانا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی کو توڑنا (۱۰)
قبر کھودنے والوں کا حکم
جب قبر پر بیٹھنا، اس پر ٹیک لگانا، پائوں رکھنا، یا کسی مردے کی ہڈی وغیرہ توڑنا حرام و ناجائز ہے تو اندازہ لائیں کہ کفن چرانا یا مردے کے جسم کو ہی اڑالے جانا اور قبریں کھود ڈالنا کس قدر برا جرم ہوگا۔
چنانچہ فتح القدیر، کتاب السرقۃ، ج 5،ص 137، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ میں ہے:
قال عبدالرزاق: اخبرنا ابراہیم بن ابی یحیی الاسلمی قال: اخبرنی عبداﷲ بن عامر من عبداﷲ بن عامر بن ربیعۃ انہ وجد قوما یختفون القبور بالیمن علی عہد عمر بن الخطاب، فکتب فیہم الی عمر، فکتب عمر رضی اﷲ عنہ ان اقطع ایدیہم
یعنی: مصنف عبدالرزاق میں ہے: عبداﷲ بن عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں یمن کے کچھ لوگ قبر کھود کر کفن چرانے لگے تو آپ رضی اﷲ عنہ نے وہاں کے گورنر کو لکھا کہ ان کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔
فاحسن منہ بلاشک مارواہ ابن ابی شیبۃ: حدثنا عیسی بن یونس عن معمر عن الزہری قال: اتی مروان بقوم یختفون: ای ینبشون القبور فضربہم ونفاہم والصحابۃ متوافرون اخرجہ عبدالرزاق فی مصنفہ اخبرنا معمر بہ وزاد وطوف بہم
یعنی: اس سے عمدہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں زہری سے مروی ہے کہ مروان بن حکم کے پاس کفن چرانے والوں کو پکڑ کر لایا گیا تو اس نے حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی موجودگی میں ان لوگوں کو تعزیراً کوڑے لگوائے اور ملک بدر کردیا۔ مصنف عبدالرزاق میں یہ اضافہ ہے کہ ’’مروان نے انہیں شہر بھر میں پھرایا‘‘
وکذا احسن منہ بلاشک ماروی ابن ابی شیبۃ ئی حدثنا حفص عن اشعث عن الزہری قال: اخذنباش فی زمن معاویۃ وکان مروان علی المدینۃ فسال من بحضرتہ من الصحابۃ والفقہاء فاجمع رأیہم علی ان یضرب ویطفا بہ
یعنی: نیز اس سے عمدہ روایت بلاشبہ یہ بھی ہے جسے مصنف ابن ابی شیبہ میں زہری سے روایت کیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ زمانے میں مدینے کا گورنر مروان تھا۔ اس وقت مروان کے پاس ایک کفن چور کو پکڑ کر لایاگیا۔ اس نے وہاں موجود صحابہ و فقہاء سے اس کی سزا کے بارے میں پوچھا۔ تو سب کی رائے اس پر متفق ہوئی کہ اسے تعزیراً کوڑے ما رکر شہر بھر میں پھرایا جائے۔
ان سرکشوں کی سزا کیا ہونی چاہئے؟
اولا راقم الحروف کہتا ہے کہ جب کفن چور کی سزا یہ مقرر ہوئی کہ کوڑے مار کر، شہر بھر میں پھرایا جائے اورپھر ملک بدر کردیاجائے تو اندازہ لگائیں کہ معاذ اﷲ صحابہ کرام واولیائے عظام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے مزارات کی بے حرمتی کرنا، ان کے اجسام کو ایذا پہنچانا کس قدر سخت حرام ہوگا۔ اس کی سزا فی زمانہ تعزیراً قتل سے کم نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ یہ لوگ بزور اسلحہ طاقت کا استعمال کررہے ہیں، جو یقینا قرآن کریم کی سورۂ مائدہ کی آیت 33 کے مطابق اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ اور زمین میں فساد برپا کرنے کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سزا بحکم قرآنی ایسے لوگوں کو چن چن کر قتل کرنا، یا سرعام پھانسی دینا، یا دایاں ہاتھ اور بایاں پائوں کاٹنا بنتی ہے۔
ولکن اقول: جہاں تک تعلق رہا ملک بدر کرنے کا تو یہ آج کل اتنا مفید نہیں، کیونکہ اگر یہ سرکش لوگ بچ کر کہیں دوسرے ملک نکل گئے تو دشمن عناصر ان کی وہاں پشت پناہی کریں گے اور خدانخواستہ یہ لوگ اسی ملک میں یہ فساد برپا کرنا شروع کردیںگے۔
ثانیاً: تمام مسالک کے علماء یہ فیصلہ کریں کہ جن کتب میں اس طرح کا گمراہ کن مواد موجود ہے، ان سے فوراً لاتعلقی کا اظہار کریں۔ مثلا فتاویٰ بن باز، فتاویٰ البانی اور تحذیر الساجد وغیرہ۔
ثالثاً: جس مسالک میں ایسے لوگ ہیں، ان مسالک کے علماء فورا ایسوں سے بے زاری کا اعلان کریں
رابعاً: مسلمان ممالک سفارتی سطح پر کوششیں کریں اور جن ممالک میں اس طرح کے افسوس ناک واقعات ہورہے ہیں، ان سے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کریں۔
خامساً: اگر یہ کام کسی ملک کی سربراہی میں ہورہا ہے تو اس ملک سے ہر قسم کے تعلقات کا بائیکاٹ کیا جائے۔
اولاً: مقام مصطفیﷺ، عظمت صحابہ و اولیاء کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف کانفرنسوں، علمی مذاکروں اور نشستوں کا اہتمام کیا جائے۔
ثانیاً: تعلیمی نصاب میں باقاعدہ معظمان دینی کی حیات کے مختلف خوشبودار گوشوں کو شامل کیا جائے۔
ثالثاً: جامعات اور کالجز کی سطح پر تحقیقی مقالاجات لکھے جائیں۔
رابعاً: ان گمراہ افراد کے رد میں لکھی کئی کتب وتحریرات کو خود بھی پڑھیں اور اپنی اولاد کو بھی پڑھائیں تاکہ حقیقت حال واضح ہوجائے۔ مثلا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی کتاب ’’اہلاک الوہابیین فی اہانۃ قبور المسلمین۔
آخر میں غیرت مند مسلمانوں سے التجا ہے کہ اس گمراہ گروہ کے افعال قبیحہ پر نہ صرف احتجاج کریں اور اپنی آواز بلند کریں، بلکہ اپنی نسلوں کو ان لوگوں کے سائے سے بھی محفوظ رکھیں۔ عام مسلمانوں کو ان کے مکروہ عزائم سے خبردار کریں کہ یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے، کیونکہ بحکم حدیث ایسے لوگوں کے کرتوتوں کا دیگر لوگوں کو بتانا ضروری ہے تاکہ وہ لوگ ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ ارباب اختیار عالمی سطح پر عملی اقدامات کریں۔ اﷲ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین
حوالہ جات
۱… ’’سفلی‘‘ پڑھنا زیادہ بہتر ہے، ۱۲ منہ
۲… فتاویٰ رضویہ ج ۹، ص ۴۲۸۔۴۳۱، ملخصاً
۳… شرح الصدور بحوالہ الطبرانی والحاکم باب تاذیہ بسائرہ وجوہ الاذی، خلافت اکیڈمی سوات، ص ۱۲۶
۴… مشکواۃ المصابیح بحوالہ حم عن عمرو بن حزم باب دفن المیت، مطبع مجتبائی، دہلی، ص ۱۴۹
۵… فتاویٰ ہندیہ، الفصل السادس فی القبر والدفن، نورانی کتب خانہ پشاور، ج ۱، ص ۱۶۶
۶… ردالمحتار، فصل الاستنجائ، ادارۃ الطباعۃ المصریۃ، مصر، ج۱، ص ۲۲۹
۷… الفردوس بما ثور الخطاب، حدیث دارالکتب العلمیہ بیروت، ج ۱، ص ۱۹۹
۸… شرح الصدور بحوالہ ابن ابی شیبہ باب تاذیہ بسائرہ وجوہ الاذی خلافت اکیڈمی سوات، ص ۱۲۶
۹… فتح القدیر، فصل فی الدفن، مکتبہ نوریہ رضویہ، سکھر، ج ۲، ص ۱۰۲
۱۰… سنن ابی دائود، کتاب الجنائز، آفتاب عالم پریس لاہور، ج ۲،ص ۱۰۲
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.