You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اہل سنت کی شیرازہ بندی کا متفقہ لائحۂ عمل
------------
خیر امت اہل ایمان کا سواد اعظم(مسلمانوں کا سب سے بڑا گروپ ، جس میں علماۓ حق بہت بڑی تعداد میں ہوں) " اہل سنت و جماعت کے نام سے موسوم ہے اور بحمدہ تبارک وتعالی ، ہم اہل سنت ہیں۔
اس لیے مذہب و مسلک اہل سنت کا مفاد ہمیں ، ہر حال میں عزیز ہونا چاہیے ۔
اور اپنی ہر فکر اور ہر اقدام و عمل کو ، اپنے اسی مذہبی و مسلک کے دائرے میں ، محدود رکھ کر اپنی سرگرمی ، جاری رکھنی چاہیے۔
یہی ،ہماری زندگی کا مطلوب اور مقصود(مقصد) ہونا چاہیے کہ:
اسی میں، ہماری دنیا اور آخرت کی فلاح اور کامرانی کا راز، مضمر(چھپا ہوا) ہے ۔
سواد اعظم اہل سنت و جماعت کا وجود ، تسلسل(روانی) کے ساتھ،ساری دنیا میں ، کل بھی تھا اور آج بھی ہے ۔ اور قیامت تک ، اسی تسلسل کے ساتھ ، جاری اور باقی رہے گا ۔ان شاء اللہ تعالی۔
سواد اعظم ہونے کی حیثیت سے ،ہماری مذہبی اور ملی ذمہ داری ہے کہ
ہم اہل سنت کے ہر شعبۂ حیات میں ، ان کی مکمل ہدایت اور راہنمائی کریں ۔
اور دینی اور دنیوی امور(کاموں) اور مسائل میں ، اس طرح کی کوئی غفلت ، ہرگز ، نہ برتیں جس کے نتیجے میں دوسروں کی طرف ، آنکھ اٹھا کر ، انھیں دیکھنے اور کسی طرح کی ان سے مدد ، حاصل کرنے کا انھیں ، خیال اور مجبوری، پیش آۓ۔
اس فریضہ کی انجام دہی کے لیے وسیع علم اور آگہی(واقفیت) ، طویل تجربہ ، عمیق (گہرا)مشاہدہ، اور اجتماعی اور جماعتی شعور اور فکر کے ساتھ، احساس ذمہ داری کی شدید ضرورت ہے ۔
جس سے ، ہمارے علماۓ کرام کا ، ہر دور اور ہر عہد (زمانہ) میں متصف(ملا) ہونا، ان کا فرض منصبی(ان کے منصب کا تقاضا ) ہے ۔
باہمی اختلافات ، کم کر کے ۔ بلکہ ، اللہ عزوجل ، توفیق دے ،تو ،ختم کر کے اتحاد اہل سنت کا ماحول پیدا کرنے کے لیۓ مندرجہ ذیل امور(کاموں) کو ، ہر حال میں ملحوظ خاطر (دلی توجہ میں)، رکھا جاۓ:
1- علماۓ اہل سنت کے درمیان ، نو پید مسائل میں (نئے پیش آنے والے مسائل میں)، جو فرعی اختلافات ہوۓ انھیں ، اچھال کر ، کسی گرو ہ بندی، اور ایذا رسانی (تکلیف پہنچانے) سے ، سخت پرہیز کیا جاۓ۔
2- "اختلاف" اور "مخالفت" کے درجات ، الگ ہیں۔
کسی "فرعی اختلاف" کو "مخالفت" کی شکل میں ہرگز، تبدیل ، نہ کیا جاۓ۔
3- اختلاف، اگر، قابل مؤاخذہ (جواب طلبی کے قابل)ہے
تو جس درجہ کا اختلاف ہے ، اسی درجہ کا ، مؤاخذہ (جواب طلب کیا جاۓ گا) اور اس کا حکم ہو گا۔
اگر ، مؤاخذہ اور حکم ، اپنی حد سے تجاوز (بڑھ)کر جاۓ
تو ، یہ عمل ، خود ، قابل مؤاخذہ ہو جاۓ گا۔
اور ، جو ، سزا ، جرم سے ، ذیادہ ہو ، اسے ، ظلم اور ناانصافی کہا جاۓ گا۔
جس سے بچنا ضروری ہے۔
4- علمی اختلاف کو ، اہل علم کے درمیان ہی ، محدود رکھا جاۓ۔
اور عوامی حلقوں میں اسے ، نہ بیان کیا جاۓ۔
5- اپنوں کے ساتھ ، اظہار اختلاف کا ، وہ لب و لہجہ، ہرگز نہیں ہونا چاہیے جو ، غیروں کے ساتھ ، روا(جاری)، رکھا جاتا ہے ۔
6- علماء اور مشائخ کرام ، ایک دوسرے کی عظمت اور حیثیت عرفی (ظاہری ، رواجی ، مشہور)کا ، خصوصی لحاظ، رکھیں۔
اور ، اپنی نجی (پرائیویٹ) مجلسوں میں بھی ، کسی کا ذکر ، اس طرح ، ہرگز نہ کریں کہ شرکاۓ مجلس(مجلس میں شریک ہونے والے)، کسی عالم دین اور شیخ طریقت سے ، بدگمانی میں ، مبتلا ہوں ۔
7- تحریر و تقریر کے اسلوب(طریقے) اور طرز بیان(بیان کرنے کے انداز)میں، متانت(سنجیدگی) اور احتیاط پر توجہ ، مرکوز رکھیں۔ اور عالمانہ وقار کے خلاف ، کوئی بات ، نہ ہونے دیں ۔
8- مذہبی اورملی ، قومی اور ملکی مسائل پر مسلسل نظر رکھنے اور بوقت ضرورت میٹنگ کر کے تبادلۂ خیال کرنے ، نیز اخباری بیان ، جاری کرنے اور دیگر مناسب اقدام کرتے رہنے کی جماعتی ذہن سازی کی جاۓ۔
9- اہم مسائل میں ، رہنما خطوط(رہنمائی کرنے والے اصول) ، طے کرتے رہنے کے لیے "مجلس فکر " (تھنک ٹینک) کی تشکیل کی جاۓ۔
10- "مجلس عمل" (گورننگ باڈی) کے نام سے باشعور اور سرگرم ارکان پر مشتمل ایک مجلس تشکیل کی جاۓ۔
جو ، مجلس فکر کے طے کردہ امور (کاموں) اور تجاویز کو ، عملی شکل ، دیتے رہنے کی خدمت ، انجام دے۔
یہ ضروری ہے کہ ، مجلس عمل ، نمائندہ اور تجربہ کار علماۓ کرام اور ذمہ دار افراد پر ،مشتمل ہو۔
11- با ثر مشائخ او ر فقہا ۓ اہل سنت پر مشتمل ایک " مجلس اکابر" بھی قائم کی جاۓ جو ، درج بالا(اوپر لکھی گئی)، دونوں مجالس کی ، سرپرستی، کرے ۔
ہاں ! فی الحال ، اس مجلس کا قیام دشوار ہے کہ
اختلاف ، اسی پایہ اور مرتبہ کے علماء اور مشائخ کے مابین (درمیان) ہے-
درخواست و تجویز و دستخط دہندگان-
>محمد احمد اعظمی مصباحی
>محمد نظام الدین رضوی
> یسین اختر مصباحی
ماخوذ از:"فرعی اختلاف کی نوعیت و حیثیت" تحریر "یسین اختر مصباحی"
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.