You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
نفس انسانی اور تقویٰ
****************
مضمون نگار: سید وحید القادری عارف
------------------------------------------
نفس کیا ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس پر محققین زمانہء قدیم سے تحقیق کرتے چلے آئے ہیں اور ہر تحقیق جدا نتیجہ پر پنہچتی ہے۔
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
"نفس" عربی زبان کا لفظ ہے۔ اگر آپ اسے عربی ڈکشنری میں تلاش کریں تو اس کے متعدد معانی ملیں گے۔
-----------
کبھی یہ بطورِ اسم سانس کے معنی میں ملے گا کہ جو حالتِ تنفس میں کسی ذی روح کی ناک اور منہ سے خارج ہو یا ان میں داخل ہو۔ یہی معنی بمرتبہء فعل "نفس ینفُسُ" سانس لینے کی صورت میں ہوں گے۔
------------
دوسری جگہ نفس بمرتبہء اسم "روح" کے معنوں میں ملتا ہے کہ اس کا وجود زندگی کا ضامن اور اس کا جد ا ہونا موت کا پیغام ہے۔ "خرجت نفسه" اس کی روح نکل گئی اسی سے مشتق ہے۔
-----------
بعض مواقع پر نفس "دم" یعنی خون کے معنوں میں بھی مستعمل رہا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں وارد ہے کہ"ما ليس له نفس سائلة فإنه لا ينجس الماء إذا مات فيه" کہ اگر پانی میں کوئی ایسا جاندار مرجائے(مثلاً مکھی) جس میں بہتا خون نہ ہو تو اس سے پانی نجس نہیں ہوتا۔
----------
نفس ذی جسد جیسے انسان کو بھی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ حدیثِ شریف میں آیا ہے کہ"ما من نفس منفوسة إلا وقد كُتِب مكانها من الجنة والنار" کوئی ذی جسد ایسا نہیں جس کا مقام جنت یا دوزخ میں نہ لکھ دیا گیا ہو۔ یہاں صاحبِ لسان العرب نے نفس سے روح اور خون بھی مراد لی ہے اور یہ کہ مندرجہ بالا حدیث انسان کا اس کے نفس سے تعلق اور عملِ سزا و جزا کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
-----------
اسی طرح معجمِ لسان العرب میں یہ بھی مذکور ہے کہ عرب میں نفس کپڑے کے معنی میں بھی مستعمل ہے جیسے کہا جاتا ہے "نَفْسَكَ فطَهِّر" اپنے کپڑے کو پاک کرلو۔
اس کے علاوہ بھی کئی مطالب موجود ہیں لیکن اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ نفس ' نفسِ داخل اور نفسِ خارج دونوں پر حاوی ہے جن میں معانی حیات' بدن میں موجودجسمِ لطیف ' خون' عزّت و آبرو وغیرہ کے منجملہ کوئی سو مطالب آجاتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر بھی اقوال ملتے ہیں جن میں امامِ غزالی علیہ الرحمہ کا یہ قول شامل ہے کہ
نفس کے دو معنی ہیں۔
ایک وہ جسمِ لطیف جس کا منبع انسان کا جوفِ قلب ہوتا ہے اور جو مختلف سوایل کی وساطت سے تمام اجزائے بدن میں پھیلتا ہے اور جس کے اس سریان سے بدن میں انوارِ حیات کے فیوض ایسےجاری و ساری ہوتے ہیں جیسے سورج کی کرنیں گھر کے تمام گوشوں میں پھیل جاتی ہے ۔یہاں زندگی کی مثال ان منورگوشوں کی ہے اور روح وہ روشنی ہے جو ان گوشوں میں متحرک ہوتی ہے ۔
-----------------
نفس کے ایک اور معنی بشری تقاضوں کے بھی ہیں۔ چنانچہ ہمیں جعفر بن حرب ہمدانی کا قول ملتا ہے کہ
"النفس عرض من الأعراض يوجد في الجسم و هو أحد الآلات التي يستعين بها الإنسان على الفعل كالصحة و السلامة "
نفس جسم انسانی میں پائے جانے والی اس قوت کا نام ہے جس سے انسان اپنے افعال مثلاً صحت و سلامتی میں مدد لیتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جسمِ انسانی کی ہئیتِ ترکیبی میں نفس کا اہم ترین حصہ ہے ۔
تفسیرِ قرطبی میں مذکور ہے کہ جب قرآنِ حکیم میں تسویتِ نفس کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مقصود تخلیقِ انسانی میں صورت و سیرت کے بعد روح کا پھونکنا بھی ہے جو دراصل ایسے ہے جیسے کسی چیز میں ہوا پھونکی جائے۔ نصِ قرآنی میں تسویتِ نفس کے دو طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
ایک آیتِ کریمہ "فاِذا سوّيته و نفخت فيه من روحي فقعوا له سٰجدين" میں مذکور ہے کہ جب میں اپنے دستِ قدرت سے اسے برابر کردوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سجدہ ریز ہوجانا۔
دوسرا طریقہ آیتِ کریمہ"و نفسٍ و ما سوّاها*فألهمها فجورها و تقواها" میں ذکر ہوا کہ قسم ہے نفس اور اس کے درست کرنے کی پھر قسم ہے اس میں بدی اور نیکی ودیعت کرنے کی۔
ان دو طریقوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی ذاتِ والا صفات میں حق تعالیٰ شانہ کا اپنے دستِ قدرت سے تسویتِ نفس کا عمل جن حالات و کیفیات میں ہوا وہ اولادِ آدم کی تخلیق کی کیفیات سے یکسر مختلف ہیں۔ اولادِ آدم کی تسویتِ نفس میں کلمہء " ما " کا بڑا عمل ہے جس کا استعمال عربی زبان میں اس کیفیت کی جانب مستشار ہوتا ہے جو بصورتِ دیگر واضح نہ ہو۔اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ نفس کی تکوین اختیاری ہوتی ہے کہ نفسِ فاجرہ فجور سےاور نفسِ ذکیّہ تقویٰ سے قرار پاتے ہیں اور نفسوں کے اسی اختلاف پرجزا بصورتِ ثواب وعقاب منحصر ہوتی ہے۔
اب رہا سوال یہ کہ نفس کا جائے قرار کیا ہے۔ ارشادِ باری ہوتا ہے "وهوالذي انشاكم من نفسٍ واحدةٍ فمستقرومستودع قد فصلنا الايات لقوم يفقهون" اور وہی تو ہے جس نے نفسِ واحد سے تمہاری تکوین فرمائی پھر تمہارے لئے "مستقر"یعنی ٹہرنے اور "مستودع" یعنی سپردگی کی جگہ بھی ۔اور ہم نے سمجھداروں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔ یہاں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مستقر یعنی ٹھہرنے کے مقام سے ماں کا رحم مراد ہے اور مستودع یعنی سپردگی کے مقام سے زمین مراد ہے جہاں انسان بعدِ موت دفن ہوتا ہے۔ جبکہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مستودع سے باپ کی صلب مراد ہے اور مستقر سے رحمِ مادر (جب حمل قرار پائے) اور سطحِ زمین (بعد پیدائش )مقصود ہے۔
------------------
اب آئیے قرارِ نفس اور اس کے عوامل پر بھی ایک غائرانہ نظر ڈالیں۔ جب ماں کے رحم سے بچہ کی ولادت ہوتی ہے تو یا تو وہ سانس لیتا'حرکت کرتا اور روتا ہوا پیدا ہوتا ہے یا پھر ساکت و صامت ہوتا ہے۔
شریعتِ اسلامی میں یہ امر صریح ہے کہ جو انسان سانس لیتا' حرکت کرتا' آواز کرتا اس دنیائے فانی میں ظاہر ہوتا ہے وہ تمام حقوقِ زندگی کا حقدار ہوتا ہے اور جو غیر متنفس' غیر متحرک اور بغیر کسی آواز کے پیدا ہو اس کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ اگر بچہ سانس لیتا' متحرک اور آواز کے ساتھ پیدا ہو پھر وفات پاجائے تو اس کی نمازِ جنازہ ہوگی جبکہ غیر متحرک و صامت کی نمازِ جنازہ بھی نہیں پڑھی جائیگی کیونکہ وہ محض ایک جسد تھا' صاحبِ نفس اور ذی روح نہ تھا اور نمازِ جنازہ صرف صاحبِ نفس کے لئے ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے"كل نفسٍ ذائقة الموت ثم الينا ترجعون"۔
حدیثِ مبارکہ میں وارد ہے"الروح تنفخ في الجنين عند انقضاء الأربعين الثالثة من بداية تخلقه في الرحم" جنین میں روح حمل کے ایک سو بیس دن بعد پھونکی جاتی ہے۔
غور فرمائیے کہ جسد کی تکوین تو حمل کے پہلے دن سے شروع ہوجاتی ہے جبکہ روح ایک سو بیس دن بعد اس جسد میں قرار پاتی ہے۔ تو جوبچہ اس مرتبہء قرارِ روح سے گذر کر بعد تکمیل مدتِ حمل دنیا میں آئے وہ حقوقِ انسانی کا حقدارہے اگرچہ کہ پیدا ہونے کے فوراً بعد اس کی موت واقع ہوجائے جبکہ وہ بچہ جو اس مرحلے سے گذرے بغیر پیدا ہو وہ جسدِ محض ہوگا ۔ اس کا شمارکیونکہ صاحبانِ نفس میں نہ ہوگا تو وہ کسی انسانی حق کا مستحق بھی نہ ہوگا۔
-------------
تکوینِ انسانی پر غور کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ لفظ "انسان" مرکب ہے جس کا مفرد "انس"یعنی وہ شئی یا کیفیت جو باعثِ اُنسیت ہو۔ تو انسان دو ایسی کیفیتوں کا نام ہوا جو آپس میں موانست رکھتی ہیں اور اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہونے میں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ نفس کو "امارہ" یعنی "ابھارنے والا" یا "حکم دینے والا" کہا گیا ہے کہ یہ جسدِ انسانی کو کوئی کام کرنے' کھانے' پینے' درد اور خوشی کو محسوس کرنے پر اُبھارتا ہے۔"إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ" کہ نفس تو بے شک برائی پر ابھارنے والا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم فرمادے اور بے شک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔تو معلوم ہوا کہ جسمِ انسانی کے اجزائے ترکیبی تین ہیں۔ پہلے روح جو انسان کا جوہرِ خفی ہے' پھرجسد جو انسان کی ظاہری شکل و صورت ہے اور تیسرانفس جو تمام افعالِ انسانی کو روح و جسدسے مرتبط کرتاہے۔
چنانچہ جب انسان خوشی کی کیفیت کو محسوس کرتا ہے تو وہ اپنے وجود کو ہلکا پاتا ہے اور اس کے برعکس جب وہ رنج و حزن کی کیفیات سے آشنا ہوتا ہے تو اسی وجود میں اسے بھاری پن کا احساس ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان کیفیات کا انسان پر اس قدر تسلط ہوجاتا ہے کہ وہ دیگر خصائصِ نفس پر حاوی ہوجاتی ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ "شہوت" حالانکہ نفسِ انسانی کی خصوصیات کا حصہ ہے لیکن یہ بھی ان کیفیات سے مغلوب ہوجاتی ہے۔ انسان بھوکا ہوتا ہے اور اس کا جسم غذا کا طالب ہوتا ہے لیکن اگر وہ کسی ایسے عمل میں مشغول ہوجائے جو اسے محبوب ہو' یا جس سے اسے کراہت ہو یا جو اس کے لئے باعثِ خوف ہو تو اس کا نفس اسے بھوک کی جانب راغب نہیں کرتا۔ یہی حال بھوک' پیاس ' سردی' گرمی' شدّتِ درد 'جنسی خواہشات وغیرہ کا ہے کہ اگرچہ کہ انسانی جسم ان سب احساسات و کیفیات کا انکی مخصوص حالتوں میں معترف ہوتا ہے لیکن اگر ذہنِ انسانی پر کسی دوسری ایسی کیفیت کا غلبہ ہو جو ان سے زیادہ محبوب یا مکروہ ہوں تو نفسِ انسانی ان عوامل پر انسان کو راغب نہیں کر پاتا۔ یہیں سے "تزکیہء نفس" کا عنصر سامنے آتا ہے کہ انسان کو اس بات پر اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے نفس کو اپنے قابو میں رکھ سکے۔
ارشادِ حق سبحانہ تعالیٰ
"من عمل صالحاً فلنفسه و من اساء فعليها ثم الى ربكم ترجعون"
جس نے نیک عمل کیا یا برائی کی تو یہ خود اسکی ذات کے لئے ہے اور پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیں گے' اسی پر دلیل ہے۔ دوسری آیتِ کریمہ میں جو انسان کا اپنے نفس پر ظلم کرنا بیان ہوا وہ بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے "وما ظلمناهم و لكن ظلموا انفسهم" کہ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے نفسوں پر ظلم کرلیا۔ اور "انّ الله لا يغيّر ما بقومٍ حتّى يغيّروا ما بانفسهم" کہ اللہ قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے نفسوں کی حالت یعنی اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔ انسان کی فطرت ایسی بنی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو خود جان جاتا ہے اور پھر ان کے تدارک یا اصلاح کی بھی خود ہی کوشش کرتا ہے۔
" بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ* وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ" کہ انسان اپنے نفس پر خود گواہ ہے اگرچہ عذر و معذرت کرتا رہے۔ پھر"قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا" کامیابی اسی کے لئے ہے جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا۔ تزکیہء نفس کے ذرائع بھی قرآنِ حکیم میں بیان کردئے گئے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ نفوس کی طہارت اور حصولِ فلاحِ دارین صرف اور صرف اطاعتِ الہٰی اور اطاعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ممکن ہے
" وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا"
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوجائیں گے جن پر اللہ نے بڑا فضل فرمایا ہے اور یہ انبیاء' صدیقین' شہداء اور صالحین کا گروہ ہے۔اور اس اطاعتِ الہٰی اور اطاعتِ رسول میں کامیابی کے اہم ترین ذریعہ خشیتِ الٰہی' ذکر ربّانی اور عبادتِ خداوندی ہے۔
ارشادِ باری ہوتا ہے "قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ*الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ"
ایمان والوں نے کامیابی حاصل کرلی کہ وہ اپنی نمازوں میں عاجز ی اور نیازمندی سے کام لیتے ہیں۔
" قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى* وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى"
کامیاب ہوگئے وہ جنہوں نے پاکی اختیار کی اور اپنے پروردگار کے ناموں کا ذکرکیا اور نماز ادا کی۔
"وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ" اور نماز قایم کرو کہ بلا شبہ نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔"وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ"
اور زادِ راہ جمع کرلو بے شک بہترین زادِ راہ پرہیز گاری ہے اور ائے اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو۔
"وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ"
اور تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور تعدّی میں ہرگز تعاون نہ کرنا۔
اور پھر بندہء مومن جب اپنے نفس کی اصلاح کے ذریعہ اپنے رب کی جانب راغب ہوتا ہےتو وہ اپنے نفس میں سعادت و فرح محسوس کرنے لگتا ہے اور یہ بھی منجانب اللہ ہوتی ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
"إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ "
کہ بلا شبہ جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا پروردگار ہے اور اسی پر قایم رہے تو ان پر فرشتے یہ کہتے ہوئے اترتے ہیں کہ نہ خوف کرو اور نہ غم کرو اور خوشخبری ہے تمہارے لئے اس بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ پھر اس سے بڑا انعام کیا ہوگا کہ وہ کہتےہیں کہ
"نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ "
ہم حیاتِ دنیوی اور اخروی میں تمہارے دوست ہیں اور اس جنت میں تمہارے لئے ہر وہ چیز موجود ہے جس کی تم خواہش رکھتے ہو اور ہر وہ شئی ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔
"نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ "
اور یہ سب اس پروردگار کی تمہارے لئے مہمان نوازی ہے جو بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
یہ سب اس تزکیہء نفس کے برکات ہوتے ہیں کہ جس کے سبب انسان اپنے نفسِ امّارہ کو نفسِ مطمئنّہ بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس ارشادِ باری کا مستحق قرار پاتا ہے کہ
"يا أيتها النفس المطمئنة ارجعي إلى ربك راضية مرضية فادخلي في عبادي وادخلي جنتی"
کہ ائے نفسِ مطمئنّہ اپنے پروردگار کی طرف اس حال میں لوٹ جا کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے راضی رہے۔ تو میرے ممتاز بندوں میں شامل ہو کر میری جنت میں داخل ہوجا۔
ہم اپنے اس مضمون کو حضور نبیء کریم علیہ افضل الصلوٰۃ و التسلیم کی اس دعا پر ختم کرتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر کرتے تھے کہ
اللَّهُمَّ آتِ نُفُوسَنَا تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا، أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلاَهَا
اے ہمارے پروردگار ہمارے نفوس کو پرہیزگاری عطا فرما دیجئے انہیں پاک فرمادیجئے کہ آپ ہی انہیں بہتر پاک فرمانے والے ہیں ۔ آپ ہی ان کے حامی و ناصر ہیں۔
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا وهب لنا من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب
و آخر دعوانا ان الحمد للہ ربِّ العالمین
و صلی اللہ علی سیدنا محمدٍ و علی آله و صحبه و بارک و سلم
*******
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.