You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اسلام نے عورتوںکو مردوں کی جوتیوں سے اُٹھاکراتنابلند کیاکہ سرکاتاج بنادیا
مسلم سماج میں بچیوں کی تربیت کے تئیں والدین کی غفلت ایک لمحۂ فکریہ
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،(MA,B.ED,MH-SET)مالیگائوں
اسلام سے پہلے سہماسہماوجود اور دبی کچلی ذات کانام’ ’عورت‘ ‘ تھا،ظلم وزیادتی سہناجس کامقدر اور مردوں کے لیے سامانِ نشاط بنناجس کانصیبہ،کبھی وہ گِروی رکھی جاتی تھی،کبھی جوئے میں ہاری جاتی تھی اور کبھی بازار میں بیچی جاتی تھی۔کائنات کی سب سے بدترین چیزکانام عورت تھا۔نہ اس کی کوئی مرضی تھی اور نہ وہ کسی چیز کی مالک۔سماج میں نہ کوئی اس کی عزت تھی اور نہ ہی کوئی مقام۔شقاوت وبدبختی اس عروج پر تھی کہ لڑکی کی نگہداشت و کفالت باعث ندامت وشرمندگی تھی۔لڑکی کاوجود نحوست کی علامت اور قباحت کانشان تھا ۔ مگرپیغمبراسلامﷺنے سماج میں پنپتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کے بھید بھائو کوختم کیا ۔ دونوں کو مساوی حقوق عطافرمائے۔جو لڑکی کل تک باپ کی آنکھوں کاکنکر تھی اسے دل کانگینہ بنا دیا ، جس کی جگہ مردوں کی جوتیوں میں تھی اس کے مقام کواتنابلند کیاکہ سرکاتاج بنادیا ، کل تک جو ذلّت کی علامت تھی اسے عزت وعفت اور عظمت کانمونہ بنادیا۔غرضیکہ فرش کی پستی سے اُٹھاکر عرش کی بلندی تک پہنچادیا۔ان کی پرورش اورصالح تربیت پر والدین کوجنت جیسی لازوال نعمت کا مژدۂ جانفزا عطافرمایااور فضیلت میں اتنابڑھادیاکہ ہادیِ اعظمﷺنے ارشاد فرمایا:’’اپنی اولاد کوبرابردو ،اگرمیں کسی کوفضیلت دیتا تو لڑکیوں کوفضیلت دیتا۔‘‘ (طبرانی)
اسلام میں عورت کی عفّت اورپاکدامنی کوبھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔اگر کوئی اس کی طرف غلط نگاہ ڈالے تو وہ عنداللہ معتوب ہوگا۔اور کوئی اس کی عصمت کے تعلق سے غلط الزام لگائے تو ایسے شخص کواَسّی کوڑے لگائے جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے شرعی عدالت میں اس کی گواہی مردوداور باطل قرار دے دی جائے گی۔عورتوں پر اسلام کے یہ وہ احسانات ہیں جنھیں دنیاکبھی فراموش نہیں کرسکتی۔مگر افسوس صد افسوس !جس پستی سے اسلام نے عورت کو نکالا تھا،اسلامی تعلیمات سے بغاوت کرتے ہوئے آج عورت پھر اسی ڈَگر کی طرف چل پڑی ہے،جسے وہ آزادی سمجھ رہی ہے۔ درحقیقت یہ اس کی سوچ کافریب ہے، یہ آزادی نہیں بلکہ آوارگی ہے۔مسلم معاشرے میں آج جس طرح کی وارداتیں ہورہی ہیں اسے سننے کے بعد ایک حسّاس مسلمان کا دل جہاں دَرد سے کراہ اُٹھتاہے وہیں سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ آئے دن ایسے واقعات سامنے آرہے ہیںجن پر روک لگانا شہر کے بااثر افراد کی اولین ذمہ داری ہے۔لڑکے لڑکیوں کااختلاط ، مسلم خواتین کاغیر مسلموں سے ناجائز تعلقات وغیرہ ۔ شہر کے مضافات ،ہوٹل،بس اسٹاپ حتی کہ تعلیم گاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ہر جگہ گناہوں کا ماحول عروج پرہے۔ایسا نہیں ہے کہ پوراماحول ہی پراگندہ ہوچکاہے مگر جو کچھ اور جتنا ہو رہا ہے وہ بھی قابل برداشت نہیں۔کہاوت مشہور ہے ایک خراب مچھلی سارے تالاب کوگندہ کرتی ہے۔جو بیٹی باپ کی عزت ہے آج وہی بیٹی جانتے سمجھتے ہوئے باپ کی عزت کاجنازہ نکال رہی ہے۔
ہم یہاں چند باتوں کوان خرابیوں سے بچنے کے لیے ہدایۃًپیش کرتے ہیں تاکہ ان پر خاطرخواہ توجہ دی جائے۔اول تو لڑکیوں کوموبائل فون نہ دیاجائے ،اور اگر واقعی والدین کو لگتاہے کہ ہماری بچی کے پاس فون کاہونا ضروری ہے تو سادہ ہینڈ سیٹ دے دیں۔ اونچایا اینڈرائیڈ فون ضروری نہیں۔اگر والدین کومحسوس ہوتاہے کہ انٹرنیٹ کااستعمال تعلیم کے لیے مفید ہے تو گھر میں انٹرنیٹ کنیکشن کا اہتمام کریں،یہ احتیاط اس لیے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے آج کچھ خواتین اپناقیمتی وقت بھی ضائع کررہی ہیں اور اپنی عصمت سے بھی ہاتھ دھو رہی ہیں۔کیا ہم ایسے واقعات نہیں جانتے کہ سوشل میڈیاکے ذریعے لڑکا اور لڑکی عشق و معاشقے کی باتیں کررہے ہیں مگرجب ملاقات ہوئی تو وہ دونوں آپس میں بھائی بہن نکلے یا باپ بیٹی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بچیوں کے ریچارج خود کروائیں،بہت سے ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ جب مسلم لڑکیاں غیروں کی موبائل شاپ سے ریچارج کرواتی ہیں، دوکاندار کے پاس نمبر جانے کے سبب بعد میں وہ یا اس کے دوست لڑکی کو پریشان کرتے ہیں ۔والدین کوچاہیے کہ اسکول اورکالج کے ذریعے نکلنے والی ٹرپ میں شمولیت سے بھی اپنی بچیوں کوروکیں۔روزآنہ اسکول اورکالج کے گیٹ تک گھرکاکوئی بھی ذمہ دار شخص انھیں پہنچانے جائے اور واپسی میں اپنے ساتھ لائے۔یہی کام کوچنگ کلاسیس جاتے وقت بھی کریں بلکہ ممکن ہوتو کوچنگ کلاس کے باہر ہی کھڑے رہیں اور اختتام پر ساتھ لائیں،یہ اس لیے ممکن ہے کہ کالج کی بہ نسبت کوچنگ کلاس کاوقت کم ہوتاہے۔حتی الامکان کوشش کریں کہ مسلم علاقوں ہی میں ٹیوشن کے لیے بھیجیں،غیر مسلم علاقوں میں جوکوچنگ کلاسیس ہوں اگرچہ وہاں مسلم اساتذہ پڑھاتے ہوںمگر پھر بھی احتیاط کریں۔اس عمل کی حکمت اہل دانش سے مخفی نہیں ۔ اکسٹرا کلاسیس اور سہیلیوں کے گھر کی کسی بھی قسم کی تقریب میں بھیجنے سے پہلے تحقیق وتفتیش کر لیں۔کالج میں منعقد ہونے والی گیدرنگ میںبھی شامل ہونے سے روکیں کیونکہ اب گیدرنگ میں فلمی گانوں پر ڈانس کرنا ایک عام بات ہے۔حیرت ہوتی ہے ہمیں قوم کے معماروں(اساتذہ)پرجو بچوں کے لیے ایسے پروگرامات کاانعقاد کرتے ہیں جو بچوں کی اخلاقی گراوٹ کاسبب بنتے ہیں۔والدین کوچاہیے کہ احتیاطی تدابیر کااستعمال انتہائی حکمت عملی سے کریں کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارے ہی بچے ہماری نظروں میں مشکوک ہوجائیں یاہم ان کااعتماد کھوبیٹھیں۔اس لیے کہ ہر بچہ ایسی راہ کامسافر نہیں ہوتا۔اختصاراً ہم نے ان باتوں کو پیش کردیا ،اور بھی ایسی بہت سی خرابیاں ہیں جو ناسور کی طرح امت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں مگر انھیں نہ بیان کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی تحریر۔مگران اشاروں سے ان کی ہولناکیوں کااندازہ ضرور لگایاجاسکتاہے۔
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، ایم ایچ سیٹ،جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.