You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
.............................................................
محدثِ اعظمِ ہند…شخصیت اور نعتیہ شاعری
**********************************
از قلم : ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی
---------------------------------------------
حضرت محدثِ اعظمِ ہند ابوالمحامد سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی نور اللہ مرقدہٗ دلِ درد مند رکھنے والے، ملت کے سچے بہی خواہ و ہم درد اورتحریک آفریں قائد تھے۔ حق پسند و حق جو اور حق شناس طبیعت کے حامل حضرت سید محمد اشرفی کچھوچھوی بہ یک وقت کئی خوبیوں اور محاسن کا حسین سنگم تھے۔ محدث و مفسر، مترجم و شارح، مفکر و مدبر، خطیب و ادیب، بے باک صحافی اور بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ کردار و گفتار میں آپ اپنے اسلاف کے پر تَو تھے۔ سیاسیات اور سماجیات کا بھی گہرا شعور رکھتے تھے ۔ شریعت و طریقت اور تصوف و معرفت کے بھی کوہِ گراں تھے۔ امام احمدرضا محدثِ بریلوی (م ۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ئ) کے چمنستانِ علمی کے ایک خوشہ چین اور آپ کے شاگردِ رشید اور خلیفۂ اجل تھے۔
حضرت محدث اعظمِ ہند کی ولادت ۱۵؍ ذولقعدہ ۱۳۱۱ھ / ۱۸۹۴ء کو نمازِ فجر سے قبل جائس ضلع راے بریلی (یو۔ پی۔) میں ہوئی اور ۱۶؍ رجب المرجب ۱۳۸۱ھ / ۲۵؍ دسمبر ۱۹۶۱ء کو لکھنو میں وصال فرمایا اور آپ کی تدفین کچھوچھہ، ضلع فیض آباد(یو۔ پی۔ ) میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام حکیم سید نذر اشرف تھا۔ جوعابد و زاہد اور اپنے عہد کے بہترین طبیب تھے۔ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان و ادب پر ملکہ رکھتے تھے اور زود گو وخوش گو شاعر بھی تھے۔
حضرت محدثِ اعظمِ ہند نے ابتدائی تعلیم والدِ ماجد سے حاصل کی۔ بعدہٗ مدرسۂ نظامیہ لکھنو جاکر مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے درس میں شریک ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا لطف اللہ علی گڑھی ، مولانا مطیع الرسول محمد عبدالمقتدر بدایونی اور مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہم الرحمۃ جیسے جلیل القدر حضرات کا شمار ہوتا ہے۔حضرت محدثِ سورتی سے آپ نے علمِ حدیث و اصولِ حدیث کا درس لیا۔ علاوہ ازیں امام احمدرضا محدثِ بریلوی کے حلقۂ درس میں بھی آپ نے شرکت کی اور امام احمدرضا سے فقہ اور اس کے جملہ متعلقات ، افتا نویسی وغیرہ فنون میں مہارتِ تامہ حاصل کی۔ وطنِ عزیز ہندوستان کے آپ منفرد اورمایۂ ناز عالمِ حدیث مانے جاتے تھے۔ ہزارہا احادیث اسناد کے ساتھ آپ کو حفظ تھیں؛ یہی وجہ ہے کہ آپ کو علماے کرام کی ایک بڑی جماعت نے ’’محدثِ اعظمِ ہند‘‘ جیسے عظیم الشان لقب سے نوازا۔
آپ نے حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں قدس سرہٗ (م ۱۳۵۵ھ) سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ امام احمدرضا محدثِ بریلوی نے اپنی خلافت و اجازت سے نوازا، اسی طرح خلیفۂ اعلا حضرت مولانا سید احمد اشرف صاحب کچھوچھوی(م ۱۳۴۳ھ) نے بھی اپنی خلافت و اجازت عطا کی؛ واضح ہوکہ حضرت سید احمد اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ ،حضرت محدثِ اعظمِ ہند کے ماموں تھے۔
حضرت محدثِ اعظمِ ہند نے تعلیم و تربیت سے فراغت کے بعد دہلی میں ’’مدرسۃ الحدیث‘‘ کے نام سے ایک درس گاہ ِ حدیث قائم فرمائی۔ جہاں ایک کامیاب مدرس اور مشفق استاذ کی حیثیت سے طلبہ کو علومِ حدیث سے سرفراز کرتے رہے۔ آپ حسنِ باطنی اور حسنِ ظاہری دونوں کا حسین و جمیل مجموعہ تھے۔ آپ کا سراپا پُرکشش اور وجیہ و شکیل تھا ، ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتا، نظر ہٹانے کو دل نہیں چاہتا۔ علاوہ ان خوبیوں کے آپ ایک بے باک صحافی بھی تھے ؛ ۱۹۲۲ء میں کچھوچھہ سے ایک ماہ نامہ’’اشرفی‘‘ جاری فرمایا۔ جس کی فائلوں کے مطالعہ سے آپ کی پاکیزہ صحافتی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔ آپ کی بے باک قائدانہ صلاحیتوں کے برِ صغیر ہندو پاک کے ممتاز علما و مشائخ قدرداں تھے۔امام احمدرضا بریلوی کی قائم کردہ آل انڈیا جماعت رضاے مصطفیٰ کے مرکزی عہدۂ صدارت پر آپ تاحیات متمکن رہے۔ متعدد اداروں اور مدارس کی سرپرستی بھی فرماتے رہے۔ آل انڈیا سنی کانفرنس اور آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء سے بھی آپ گہری وابستگی اور محبت و انسیت رکھتے تھے۔
آپ نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس(۲۷؍ تا ۳۰ ؍ اپریل ۱۹۴۶ئ) ، سنی کانفرنس بمبئی((۱۳؍ تا ۱۵؍ محرم الحرام ۱۳۷۷ھ / ۱۹۵۸ئ) ، سنی کانفرنس مالیگاوں،ناسک( ۲۲؍ تا ۲۴؍ مئی ۱۹۶۰ء )، جماعت رضاے مصطفیٰ کانفرنس گجرات( ۲۷؍ تا ۲۹؍ اپریل ۱۹۶۰ئ)، آل انڈیا سنی کانفرنس اجمیر( ۷، ۸ ؍ جون ۱۹۶۴ئ) ، جشنِ یومِ رضا ناگ پور ( ماہِ شوال المکرم ۱۳۷۹ھ ) ، جیسی تاریخ ساز اور یادگار کانفرنسیس کی صدارت بھی فرمائی اور ان اجلاس میں جو تاریخی خطبۂ صدارت پیش فرمایا وہ آپ کی بالغ نظری اور دور اندیشی کے ساتھ ساتھ ملتِ اسلامیہ کے تئیں گہرے درد وکسک اور مسلکِ اعلا حضرت کی ترویج و اشاعت کے سچے جوش و ولولے اور امنگ کے آئینہ دار ہیں۔
حضرت محدثِ اعظمِ ہند درس و تدریس ، خطابت و نظامت اور تبلیغ و ارشاد کے ساتھ ساتھ میدانِ فن اور ادب کے بھی شہ سوار تھے ۔ آپ کے والد حکیم سید نذر اشرف بھی ایک عمدہ شاعرتھے ۔ حضرت محدثِ اعظمِ ہند کو شاعری ورثے میں ملی ، بچپن ہی سے شعر و سخن سے لگاو اور شغف تھا۔ گھریلو ماحول کی برکتیں اس پر مستزاد… آپ کا قلم نثر و نظم دونوں ہی میں یک ساں چلتا تھا ۔ کئی نثری کتابیں آپ کی علمی یادگاریں ہیں۔ آپ نے بہاریہ شاعری بھی کی اور تقدیسی شاعری بھی… حمد و نعت ، مناقب و سلام اور غزلیات و رباعیات پر مشتمل آپ کا خوب صورت او رد ل کش دیوان ’’فرش پر عرش‘‘ کے نام سے رضوی کتاب گھر دہلی سے شائع ہوکر داد و تحسین کی خراج وصول کرچکا ہے۔
حضرت محدثِ اعظمِ ہندکے دیوان میں نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ مناقب، سلام ، مشہور اردو و فارسی شعرا کے کلا م پر تضامین، رباعیات اور غزلیات شامل ہیں۔ ’’فرش پر عرش‘‘ کے نعتیہ کلام نعت کے تقدس و طہارت کے ساتھ ساتھ ادب کی حُسن کاری اور نظافت سے آراستہ و مزین ہیں ۔ مناقب اپنے ممدوح کے تئیں باہوش عقیدت و احترام کی عکاسی کرتی ہیں۔ غزلوں میں عشقِ حقیقی اور تصوف و معرفت کی روح پنہاں ہے اور بعض اشعار میں اخلاقِ حسنہ اور اصلاحِ امت کے موضوعات کی پرچھائیاں ابھرتی ہے۔ غرض یہ کہ عشق و عرفان کا ایک گنجینہ ’’فرش پر عرش‘‘ کے ورق ورق میں مسطورنظر آتا ہے۔ جذبات و احساسات کی ترجمانی میں صداقت اور سچائی ، فکر و فن کی گہرائی و گیرائی اور فصاحت و بلاغت کے جو عناصر حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کی نعتوں میں موج زن ہیں وہ انہیں نعت گو شاعروں میں ایک ممتاز حیثیت عطا کرتے ہیں ’’فرش پر عرش‘‘ سے چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
مدینے کے چرچے مدینے کی باتیں
یہی کام ہر دم کیے جارہا ہوں
وہی مہرِ صبحِ اول وہی ماہِ شامِ آخر
وہ ازل کے رازِ پنہاں وہ ابد تک آشکارا
سلطنت اس کو کہا کرتے ہیں ماشآء اللہ
ماسوا اللہ کا سلطان ہے سلطانِ عرب
مبارک تجھ کو آزادی مبارک
اسیرِ زلف و گیسوے محمد(ﷺ)
وہ اقتدار کہ بیٹھ آئے عرشِ اکبر پر
یہ شانِ فقر کہ لیٹے نہ نرم بستر پر
فلک پر کہکشاں صورت زمیں پر ضو فشاں صورت
سراپا نور ہیں گرد و غبارِ گنبدِ خضرا
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کے کلام سے جو تابندہ نقوش ذہن و دل پرثبت ہوتے ہیں وہ فکر و نظر کو پاکیزگی اور طہارت عطا کرتے ہیں ۔آپ نے اپنے کلام کے حوالے سے سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت اور تعظیم و توقیر کی ضرورت و اہمیت کاشاعرانہ اور ادیبانہ اظہار کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ طریقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا اور آقاے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت میں خود کو فنا کردینا ہی دنیوی و اخروی نجات کا سبب ہے۔ اور کائنات ِ ارضی کی جتنی بھی چیزیں ہیں سب انہیں کے دم قدم سے قائم ہیں اور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم خداے وحدہٗ لاشریک جل شانہٗ کے محبوبِ اکبر اور خلیفۂ اعظم ہیں ؎
نبی کا نام ہے ہر جا خدا کے نام کے بعد
کہیں درود کے پہلے کہیں سلام کے بعد
ان سے پڑی بِناے خلق ان کے سبب قیامِ خلق
جان ہیں وہ جہان کی جان نہیں جہاں نہیں
مکاں سے لامکاں تک سب ہے ان کا
کہاں ملتی نہیں کوے محمد(ﷺ)
خدا مل گیا پا گیا تیرا در ، جو شہنشاہ کہتے ہیں تیرے گدا کو
تری بھیک کھا کھا کے ہوتے ہیں خسرو، ترا جام پی پی کے ڈھلتے ہیں جامی
زمین و زماں کے لیے وہ ہیں رحمت ، مکین و مکاں کے لیے ہیں ہدایت
نبیّوں کے بھی ہیں نبی یہ عمومِ رسالت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کے کلام میں موضوعات کی طرح لفظیات میں بھی تنوع اور گہرائی ہے۔ آپ کا پیرایۂ بیان دل نشین ہے، طرزِ اظہار میں سلاست و روانی اور شگفتگی و شستگی پائی جاتی ہے ، لوازماتِ شعری کا برمحل استعما ل ہوا ہے، شیرینی و حلاوت اور الفاظ کے دروبست نے آپ کے کلام کو دوآتشہ بنا دیا ہے۔ عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں والہانہ وارفتگی اور حزم و احتیاط کی جو جلوا گری ’’فرش پر عرش‘‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے وہ آپ کے محتاط تخیل اور پاکیزہ تصور کی عکاسی کرتی ہے ؎
مقامِ عشق ہے قانون کی زد سے بہت بالا
یہاں ہر آنے والا عقل سے بے گانہ آتا ہے
مدینے کی زمیں بھی کیا زمیں معلوم ہوتی ہے
لیے آغوش میں خلدِ بریں معلوم ہوتی ہے
اللہ اللہ! آ پ کا دیدار ہے دیدارِ حق
آپ کا دربار ہے دربارِ باری یارسول
موت میں بھی زندگی بھر دی رسولِ پاک نے
جنّتیں لاکر بسادیں سایۂ شمشیر میں
ارے ہوش سیدِ پُر خطا ، تو جہاں ہے آج کھڑا ہوا
یہ ادب کی جا ہے ادب کی جا ، یہ حجاز ہے یہ حجاز ہے
زباں ترجمانِ کلامِ الٰہی ، تبسم کو کہیے کہ برقِ تجلی
لبوں کی خموشی میں ہے کنزِ مخفی ، جو بولے تو قرآن کے تیس پارے
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی نے اس دیوان میں حروفِ ہجائیہ کا بھر پورلحاظ رکھتے ہوئے اپنا کلام پیش کیا ہے ۔ اس التزام میں کہیں کہیں بڑی سنگلاخ اور ادق زمینیں منتخب کی ہیں ۔ ردیفوں کی سختی اور مشکل بحروں کے انتخاب کے باوجود کلام کی روانی اور شستگی متاثر نہیں ہوئی ہے ؛ جن سے آپ کی قادرالکلامی مترشح ہوتی ہے ۔ ذیل میں بہ طورِ مثال چند مطلعے نشانِ خاطر ہوں ؎
کعبۂ دل کی پاسبانی جھوٹ
بت کریں ایسی مہربانی جھوٹ
نہ رہی مجھ پہ وہی پہلی سی نظر کیا باعث
ہوگئے آپ کے انداز دگر کیا باعث
بے سبب دیتے نہیں دل کو وہ ہیں تیور آنچ
کبھی کندن نہ ہو کھا جائے نہ جب ستّر آنچ
عمل پر نہ ہے اتقا پر گھمنڈ
ہمیں ہے شہ انبیا پر گھمنڈ
خدا کی حمد ہے لیل و نہار کا تعویذ
درودِ پاک ہے روزِ شمار کا تعویذ
اے بوالہوس پہاڑ ہے یہ مرحلا پہاڑ
ہشیارباش! عشق ہے سب سے بڑا پہاڑ
مستیِ دید سے ہے لغزشِ رفتار ہنوز
شوخ ہے حشر میں بھی ان کا گنہگار ہنوز
گل بھی خاموش ہیں بلبل کا گلا بھی خاموش
دل کی خاموشی سے ہے ساری فضا بھی خاموش
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی نے اپنے کلام کے ذریعہ اصلاحِ امت اور رشدو ہدایت کاکام لیا ہے، آپ کے اخلاقِ حسنہ اور پند و نصائح سے مملو اشعار ملتِ اسلامیہ کی اصلاح و تذکیر اور تزکیہ و صفائی کے ضمن میں آپ کے مخلصانہ سوزِ دروں کو نمایاں کرتے ہیں آپ نے خوابِ غفلت میں مست قومِ مسلم کو بیدار کرنے کا انقلابی پیغام دیا ہے ؎
سونے والو! جاگو جاگو اس نیند کی دنیا سے بھاگو
جو قوم کہ سوتی رہتی ہے تقدیر بھی اس کی سوتی ہے
آج عبادت و ریاضت میں خلوص کا اعلاجوہر مفقود ہوتے جارہا ہے ، ریا کاری کی جو تباہ کاریاں ہیں وہ اہلِ فہم پر روشن ہیں ۔ جزا و سزا تو فقط رب العزت کی عطا پر منحصر ہے۔ بیش تر عبّاد و زُہّاد رضاے الٰہی کے بجاے لذّاتِ جنت کی طلب اور ہوس میں میدانِ عمل میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں ، ایسے افراد کا دل خانہ ٔ خدا نہیں بل کہ صنم کدہ ہے؛ حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کا اظہارِ صداقت دیکھیے ؎
کہاں ہے رند جو ممنونِ مدعا نہ ہوا
وہ رند ہی ہے کہ جو طالبِ جزا نہ ہو
وہ دل جو رکھتا ہے لذّاتِ خلد ہی کی ہوس
صنم کدہ تو ہوا خانۂ خدا نہ ہوا
نفسِ امّارہ کے دامِ فریب میں آنا آج اچھے اچھوں کا شیوا بنتا جارہا ہے؛ سید محمد کچھوچھوی کہتے ہیں کہ جو نفس کو کچل ڈالے وہ تو غازی اور شہید کہلانے کا مستحق ہے۔ نفسِ امّارہ کو نفسِ مطمئنہ میں بدلنا حد درجہ ضروری ہے ؎
نفس کو جس نے قتل کر ڈالا
لقب اس کا شہید و غازی ہے
دنیا بھر میں مسلمان باہم دست و گریبان ہیں جب کہ دشمنانِ اسلام الکفر ملت واحدہ بن کر اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے کمر بستہ ہی نہیں بل کہ ہر ممکن حربے استعمال کرنے میں شب و روز مصروف ہیں ایسے حالات میں ایمان و عقیدے کی سلامتی کے ساتھ مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہوجاتا ہے اور ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے محبت و انسیت اور امداد و اعانت بھی مزیدفرض ہوجاتی ہے کہ یہی درس سیرتِ طیبہ میں بھی ملتا ہے اور اسلاف کے عمل سے بھی ؎
کفر سے کفر بغل گیر نظر آتا ہے
کیوں نہیں ہوتے مسلماں بھی مسلماں کے قریب
رخِ روشن سے داغِ دل کو روشن کرکے فرمایا
خدانے فرض کی نصرت مسلماں کی مسلماں پر
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کہتے ہیں کہ پوری امتِ مسلمہ ایک جسم کے مانند ہے ہمارا حال تو یہ ہونا چاہیے کہ کہیں بھی کسی مسلمان کو تکلیف ہوتو ہمیں اس کا درد محسوس ہو اگر یہ احساس امت میں بیدار ہوجائے تو کوئی بھی قوم ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ؎
قوم کا کوئی تڑپ جائے تو تڑپے سب قوم
جیسے جب پاوں جلا آنے لگی سر پر آنچ
ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کے دل میں ملتِ اسلامیہ کا سچا درد تھا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ ایک دوٗر اندیش اور بالغ نظر سیاسی دیدہ وری کے حامل فرد تھے۔ آپ کا سیاسی نظریہ پاکیزہ اور تاب نا ک تھا ۔آپ سیاست پر مذہب کو قربان کرنے والوں میں سے نہیں تھے جیسا کہ آپ کے عہد میں کئی علما نے ایسا کیا ۔ سیاست اصولاً بُری چیز نہیں ہے بل کہ بازی گرانِ سیاست نے اسے بُرا بنا ڈلا ہے۔ افسوس! تو یہ ہے کہ عصری سیاست دانوں کی طرح بعض ناعاقبت اندیش اور خدا ناترس علما بھی اپنے مقام و منصب کی پاکیزگی اور رفعت کو فراموش کرتے ہوئے گندی سیاست کے اسیر ہوتے جارہے ہیں اور علما کی قدر و منزلت پر سوالیہ نشان لگارہے ہیں ۔ حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کا تیور قابلِ ملاحظہ ہے ؎
سیاست بھی اور مولویت بھی سیدؔ
خطرناک ہیں آج کل کے اندھیرے
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ ’’دبستانِ رضا‘‘ کے ہی ایک باکمال شاعر وادیب ہیں ، آپ کے کلام میں بھی اس تقدیسی اور ملکوتی اوصاف کے حامل شعراے نعت کی طرح جذبے کا التہاب اور تعظیم و توقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں صداقت پائی جاتی ہے۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی فیض بخش صحبت نے بھی آپ کی شاعرانہ اور ادیبانہ عظمتوں کو صیقل کیا۔ آپ کے کلام میں فکرِ رضااور استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کی شاعری کا تتبع نظر آتا ہے۔ ’’فرش پر عرش‘‘ میں جہاں دیگر شعرا کے کلام پر تضامین ہیں وہیں امام ِ نعت گویاں حضرت رضا بریلوی کی مشہورِ زمانہ نعت ’’ کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ‘‘پر تضمین بھی شامل ہے۔ امام احمدرضا کی اس لاجواب اور بے مثل نعت پر آپ نے جس خوب صورتی اور ہنر مندی سے تضمین قلم بند کی ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ تضمین پڑھنے کے بعد پیوند کاری کا شائبہ تک نہیں گذرتا، دل کش علائم، تشبیہات واستعارات اور عمدہ لفظیات کی جو رعنائی کلامِ رضا پر لکھی گئی تضمین میں نظر آتی ہے وہ ہمیں دیر تک مسحور کیے رہتی ہے اور تضمین نگار کی ادیبانہ و شاعرانہ حیثیت کا معترف بھی کرتی ہے بہ طورِ مثال دو بند نشانِ خاطر ہوں ؎
پنجۂ قدرت ہے ہر انگشت بہرِ بحر و بر
جب پھریں سورج پھرا اُٹھّیں تو دو ٹکڑے قمر
جھک رہا ہے ان کے آگے ابرِ نیساں کا بھی سر
’’انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندّیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ‘‘
غنچۂ دل کیوں کھلا کیوں رو بہ صحت ہے مزاج
داغ سب گل بن کے کیوں مہکے ، گیا کیوں اختلاج
کس کے کوچے کی ہوا نے کردیا میرا علاج
’’کیا مدینے سے صبا آئی کہ پھولوں میں ہے آج
کچھ نئی بُو بھینی بھینی پیاری پیاری واہ واہ‘‘
حضرت سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی میں بھی کامیاب طبع آزمائی فرمائی ہے ۔ ’’فرش پر عرش‘‘ میں کئی کلام عربی اور فارسی میں موجود ہیں جو آپ کے لسانی تنوع پر دال ہیں۔ کئی مشہورِ زمانہ فارسی شعرا کی غزلوں پر اردو تضمین بھی آپ کے فنّی علو کی غمازی کرتی ہیں ۔
بہ ہر کیف! حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی شعری کائنات اپنے اندر پاکیزگی اور ملکوتی اوصاف لیے ہوئے ہے۔ جذبے کی صداقت و نظافت، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار میں شعری و شرعی حُسن و طہارت، ملتِ اسلامیہ کی اصلاح و تذکیر کے لیے سچی تڑپ اور دیگر فنی محاسن آپ کی نعتوں کو ایک پُر کشش تاثیر عطا کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نعت خوانی کی محفلوں میں آپ کے نعتیہ اشعار وجد و سرور کے ساتھ پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ قابلِ مبارک باد ہیں حضرت غلام ربانی فداؔ صاحب کہ جنہوں نے حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی نعت گوئی پر یہ عمدہ گوشہ جہانِ نعت کے حوالے سے آراستہ کیا ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ربانی صاحب کی یہ مساعیِ جمیلہ شَرَفِ قبول حاصل کرے(آمین بجاہ الحبیب الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وصحبہٖ وبارک وسلم)۔
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد ؔ رضوی ،
سروے نمبر ۳۹، پلاٹ نمبر ۱۴، نیااسلام پورہ ، مالیگاؤں
423 203ضلع ناسک ، مہاراشٹر
موبائل نمبر : 9420230235
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.