You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
مفتی اعظم ہند اصلاحِ معاشرہ اور ردِبدعات و منکرات
(عرس مفتی اعظم پر خصوصی تحریر)
مفتی اعظم ہند شہزادۂ اعلیٰ حضرت علامہ مفتی شاہ محمد مصطفی رضا نوری بریلوی (م۱۴۰۲ھ؛۱۹۸۱ئ)عالم اسلام کا مرجع فتاویٰ تھے ۔آپ نے مسلمانوں کی اصلاح اور ایمان و عقیدے کی حفاظت کے لئے انتھک جدوجہد کی۔آپ کا دور بڑا لرزا خیز تھاافق ہند پر کئی لا دینی مذہبی اور سیاسی تحریکا ت سرگرم عمل تھیں جن کا نشانہ صرف مسلمان تھے ،مشرکین کی کوشش یہ تھی کہ مسلمان شرکیہ رنگ میں رنگ جائیں اور اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں!مفتی اعظم ہند نے ایسی تحریکات کا سد باب قرطاس وقلم اور تبلیغ وارشاد سے کیا،جس کے اثرات پورے بر صغیر پر اب تک محسوس کئے جاتے ہیں۔آپ نے جن تحریکات کو انجام سے دوچار کیا اور ان کی سازشوں کو واشگاف کیا ان میں ’’شدھی تحریک،خاکسار تحریک،کمیونزم(اشتراکیت)،بالشویک،نس بندی‘‘قابل ذکر ہیں بالخصوص شدھی تحریک کے فتنۂ ارتداد کو ختم کر کے ہزاروں مرتد ہو جانے والے افراد کو مسلمان کرنا ایک تاریخی کارنامہ ہے جسے ہندوستان کی تاریخ کا زریں باب ہے ۔ان سطور میں راقم اصلاح معاشرہ کے موضوع پر مفتی اعظم ہند کی فکر کا اجمالی جائزہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرے گا،
رد بدعات :
مفتی اعظم ہندنے معاشرتی اصلاح کے لئے بدعا ت ومنکرات کا رد فرمایا ،بر صغیر کے عظیم اسلامی محقق ونقاد ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی رقم طراز ہیں:’’حضور مفتی اعظم نے عورتوں کی بے پردگی کی سخت مذمت کی ہے ۔ انہیں مزارات پرجانے سے منع کیا ہے ۔ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے میلے ٹھیلے ، تقریبات میں شرکت، غیر مسلم کے لئے ایصال ثواب وغیرہ کی سختی سے تردید کی ہے ۔ لہوولعب ، غیر اسلامی رسوم وغیرہ کی بھی تردید فرمائی ہے ۔ غرضیکہ ہر غیر اسلامی رسم و رواج سے مسلمانوں کو روکا ہے ۔‘‘
سجدہ :
مفتی اعظم ہند سے دریافت کیا گیا کہ زید کہتا ہے کہ ہندو بتوں کو سجدہ کرتے ہیں اور ہم کعبہ میں جاکر پتھر کو سجدہ کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے فرمایا :’’ یہ شخص جلد توبہ کرے ۔ کوئی مسلمان کعبہ کو سجدہ نہیں کرتا جہت کعبہ سجدہ خدا کو کرتا ہے ۔ کافر بتوں کو سجدہ کرتا ہے ۔ ان کی پرستش و بندگی و عبادت کرتا ہے۔ کعبہ جاکر پتھر کو سجدہ کرنا مسلمانوں پر محض افترا ہے جیسے کعبہ سے دور سمت قبلہ سجدہ ہوتا یوں ہی وہاں جا کر عین قبلہ کا استقبال کیا جاتا ہے ۔ سجدہ یہاں وہاں سب جگہ خدا ہی کے لئے ہوتا ہے ۔ ‘‘ (۱)
مسلمان کو کافر کہنا:
دریافت کیا گیا کہ مسلمان کو کافر کہنا کیسا ہے؟ تو ارشاد فرمایا :’’ مسلمانوں کو کافر کہنا بہت سخت شدید جرم عظیم ہے ۔ خود اپنے اوپر بے وجہ کی تکفیر عود کرتی ہے ۔ ‘‘ (۲)
اللہ عزوجل کو ’’ خدا‘‘ کہنا:
دریافت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو خدا کہنا درست ہے یا نہیں ؟ تو فرمایا :’’ اللہ عزوجل پر ہی خدا کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ اور سلف سے لے کر خلف تک ہر قرن میں تمام مسلمانوں میں بلا نکیر اطلاق ہوتا ہے ۔ اور وہ اصل میں خود آہے جس کے معنی ہیں وہ جو خود موجود ہو کسی اور کے موجود کئے موجود نہ ہوا ہو۔ اور وہ نہیں مگر اللہ عزوجل ہمارا سچا خدا۔ ‘‘(۳)
اللہ عزوجل کو ’’ اللہ میاں ‘‘ کہنا :
اس مسئلے میں کہ اللہ عزوجل کو اللہ میاں کہنا درست ہے یا نہیں ؟ حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے تحریر فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ ، اللہ عزوجل ، اللہ عزجلالہ ، اللہ سبحانہ، اللہ عزشانہ ، یا جل شانہ وغیرہ کہنا چاہئے ۔ عوام میں یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس سے انھیں احترازکرنا چاہئے۔ تفصیل کے لئے احکام شریعت دیکھیں ۔ اس میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے مفصل تحریر فرمایا ہے ۔ گناہ نہیں مگر یہ لفظ اس کی جناب میں بولنا برا ہے ۔ اس کی شان و عزت کے لائق نہیں ۔ ‘‘ (۴)آج کل جاہل تو جاہل اہل علم کہے جانے والے افراد بھی اس میں مبتلا ہیں کہ اللہ عزوجل کو ’’اللہ میاں ‘‘ کہتے ہیں ۔ ضروری ہے کہ احتیاط برتا جائے ۔
کفار کے میلوں میں شرکت :
اس مسئلہ میں کہ ہنود کے میلوں میں جہاں مراسم کفریہ و شرکیہ کے علاوہ ہر قسم کے ناچ تماشے اور دیگر لہو و لعب ہوتے ہیں ، مسلمانوں کا بحیثیت تماشائی یا بغرض خرید و فروخت شریک ہونا کیسا ہے؟…حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے تحریر فرمایا :’’ ایسے میلوں میں بحیثیت تماشائی جانا حرام حرام اشد حرام بہت اخبث نہایت ہی اشنع کا م بحکم فقہاے کرام معاذ اللہ کفر انجام ہے ۔ حدیث کا ارشاد ہے من کثر سواد قو م فھو منھم‘‘ آگے مزید لکھتے ہیں:’’ ان لوگوں پر توبہ تجدید ایمان نکاح لازم ۔ جو لوگ تجارت کے لئے جاتے ہیں انھیں مجمع کفار سے علیٰحدہ قیام چاہئے ۔ اول تو جانا ہی نہ چاہئے اور جائیں تو وہاں سے دور رہیں اس قدر دور کہ ان سے ان کے مجمع میں اضافہ ہو کر اس کی شوکت نہ ہو۔ ان کی دوکانوں سے اس کی زینت نہ ہو۔ ان کے آگے اعلان کفر نہ ہو۔ مجمع کفار محل لعنت ہے خصوصاً ایسا مجمع جو اظہار و اعلان کفر کا ہو ۔ محل لعنت سے یوں بھی تو بچنا ضرور ہے اگرچہ اس وقت اظہار کفر نہ ہو ۔ تجارت کے لئے اگر جاتے ہیں مجمع کفار سے بالکل علیٰحدہ جہاں سے ان کی کفری باتیں دیکھ سن نہ سکیں راہ میں رہیں مقصد تجارت یوں بھی حاصل ہو گا اگر وہ لوگ خدیدنا چاہیںگے راہ میں خریدیں گے نہ خریدنا چاہیں گے وہاں بھی نہ خریدیں گے ۔ آج کل تو یہ نری ہوس خام ہے ۔‘‘(۵)
ٹائی باندھنا :
’’ ٹائی لگانا اشد حرام ہے وہ شعار کفار بدا نجام ہے نہایت بدکام ہے وہ کھلارد فرمان خدا وند ذوالجلال والا کرام ہے ۔ ٹائی نصاریٰ کے یہاں ان کے عقیدہ باطلہ میں یاد گار ہے حضرت سیدنا مسیح علیہ الصلاۃ و السلام کے سولی دیے جانے اور سارے نصاریٰ کا فدیہ ہوجانے کی ۔ والعیاذ باللّٰہ تعالیٰ ہر نصرانی یوں ٹائی اپنے گلے میں ڈالے رہتا ہے ہر ٹوپ میں نشان صلیب رکھتا ہے جسے کراس مارک کہتا ہے ۔ ٹائی کی طرح یہ کراس مارک بھی رد قرآن ہے ۔ والعیاذ باللّٰہ تعالیٰ ۔ کہ قرآن فرماتا ہے ۔ مَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ یہود نے نہ عیسیٰ مسیح کو قتل کیا نہ سولی دی ۔ ‘‘(۶)
مر دکو مہندی لگانا:
دولہا کو مہندی لگانا کیسا ہے، اس سوال کے جواب میں فرمایا :’’ مرد کوہاتھ پائوں میں مہندی لگانا ناجائز ہے ۔ ‘‘ (۷)
مرد کے لئے انگوٹھی کی مقدار:
حضور مفتی اعظم قدس سرہ تحریرفرماتے ہیں:’’ سونے کی انگشتری مرد کے لئے جائز نہیں چاندی کی انگشتری ایک نگ کی ۔ نگ جس قدر بھی قیمتی ہو ساڑھے چار ماشہ سے کم کی مرد کو پہننی جائز ہے ۔ ‘‘(۸)
میت کا کھانا:
اس سوال پر کہ بعض کہتے ہیں تیجے یعنی سوئم کے چنے چبا نے سے قلب سیاہ ہوجاتا ہے اور میت کی فاتحہ کا کھانا کھانے سے قلب سیاہ ہو جاتا ہے ، ارشاد فرمایا … غلط ہے ۔ ہاں اغنیاکو کھانا نہیں چاہئے کہ قلب میں اس سے قساوت پیدا ہوتی ہے ۔ (۹)میت کا کھانا محتاج ، مسکین اور غربا کے لیے ہے ۔ فی زمانہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اصحاب ثروت بھی میت کے کھانے میں شریک ہوجاتے ہیںاور جن کا اس پر حق ہے انھیں پوچھا نہیں جاتا ۔اس بارے میں توجہ درکار ہے کہ حق حقدارکو ملے ۔
پیر سے پردہ:موجودہ دور میں بہت سے پیر ایسے ملیں گے جو بے پردہ عورتوں کو مرید بناتے ہیں اور عورتیں بھی پردے کا اہتمام نہیں کرتیں۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہ فرماتے ہیں :’’ عورت پرغیر محرم سے پردہ فرض ہے ۔ پیر استاد محرم نہیں ہوتا محض اجنبی ہے جو بزرگان دین ہیں وہ پردہ کو لازم ہی جانتے ہیں ۔ شرعاً اجانب ( غیر محرم ) سے پردہ لازم ۔ ملاعلی قاری کی مسلک متقسط میں ہے۔ فرماتے ہیں سترالوجہ عن الا جانب واجب علی المرأۃ جو عورتیںخود بے پردہ پھرتی ہیں ان کو ہدایت کرنا پیر کاکام ہے اگر وہ پردہ نہ کریں خود سامنے آئیں اور ان کی طرف دوسری نگاہ قصدی نہ ڈالی جائے تو اس پر الزام نہیں۔ بزرگان دین عورت کی آواز کو بھی عورت بتاتے ہیں اور اس کی آواز بھی سننا جائز نہیں ۔ ‘‘ (۱۰)ایک مقام پر فرماتے ہیں :’’ بیشک پیر مریدہ کا محرم نہیں ہوجاتا ، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر امت کا پیر کون ہوگا وہ یقینا ابوالروح ہوتا ہے ۔ اگر پیر ہونے سے آدمی محرم ہو جایاکرتا تو چاہئے تھا کہ نبی سے اس کی امت سے کسی عورت کا نکاح نہ ہوسکتا۔‘‘ (۱۱)
سجدۂ تعظیمی اور قوالی مع مزامیر:
سجدۂ تعظیمی اور مزامیر کے ساتھ قوالی کے متعلق حضور مفتی اعظم قدس سرہ تحریرفرماتے ہیں :’’قوالی مع مزامیر ہمارے نزدیک ضرور حرام و ناجائز و گناہ ہے اور سجدۂ تعظیمی بھی ایساہی ۔ ان دونوں مسئلوں میں بعض صاحبوں نے اختلاف کیا ہے اگرچہ وہ لائق التفات نہیں ۔ ‘‘ (۱۲) سوال کیا گیاکہ زید کہتا ہے کہ صوفیوں کو مزامیر کے ساتھ قوالی سننا جائز ہے اور بکر اعلیٰ حضرت مجد د دین و ملت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ کی کتاب احکام شریعت حصہ اول کے حوالے سے مزامیر کے ساتھ قوالی کو ہر شخص کے لئے ناجائزکہتا ہے ۔ حضور مفتی اعظم نے جواب عنایت فرمایا کہ بکر کا قول صواب و صحیح ہے اور قول زید محض باطل و قبیح و فضیح ۔ (۱۳)
غلط روایات کی تردید:
روایاتِ میلاد کے حوالے سے حضور مفتی اعظم قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں :’’ وہ لوگ جو من گڑھت موضوعات بکتے ہیں اگر چہ وہ اپنے آپ کوعالم بتائیں ہر گز منبر کے مستحق نہیں نہ وہ ان کی روایاتِ کا ذبہ ذکرنہ ان کا سننا جائز… وہ ذاکرین جو سنی صحیح العقیدہ غیر فاسق معلن ہوں اور کتب معتبرہ مستندہ سے روایات صحیحہ مقبولہ و معتمدہ پڑھیں وہ علما کے اس وقت نائب ہیں انھیں منبر پر بیٹھا نے میں حرج نہیں ذکر پاک کے آداب کے خلاف کوئی امرنہ کرنا چاہئے ۔‘‘ (۱۴)دریافت کیا گیا کہ شہادت نامہ ، جنگ نامہ ، نورنامہ ، داستان امیر حمزہ پڑھنا درست ہے یا نہیں تو حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے فرمایا :’’ شہادت نامہ جس میں تمام ترصحیح صحیح روایات ہوں اس کا پڑھنا اچھاہے جیسے آئینۂ قیامت اور جو غلط و باطل روایات پر مشتمل ہو اس کا پڑھنا سخت برا اور ناجائز ہے ۔ جنگ نامہ ، نورنامہ دیکھا نہیں وہ اگر غلط روایات پر مشتمل ہو ں تو ان کا حکم یہی ہے کہ ان کا پڑھنا جائز نہیں ۔داستان امیر حمزہ از سر تاپا کذب و بہتان افترا و طوفان محض دروغ بے فروغ ہے اور اتنا ہی نہیںچوں کہ اس کا مصنف رافضی تھا اس میںجابجا صحابۂ کرام پر تبرا ہے اس کا پڑھنا حرام حرام حرام ہے ۔ ‘‘ (۱۵)
منت کی چوٹی:
اس مسئلہ میں کہ زید منت مانتا ہے کہ میرا لڑکا آٹھ سال کا ہو گیا تو فلاں بزرگ کا مرغا چڑھائوں گا اب منت کی تاریخ سے بچے کے سرپرچوٹی رکھتا ہے… اس پر حضور مفتی اعظم نے ارشاد فرمایا :’’ چوٹی لڑکے کے سرپر رکھنا ناجائز ہے ۔‘‘(۱۶)
تصویر کشی :
ایک سوال کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں:جاندار کا فوٹو کھینچنا کھینچوانا حرام ہے… تصویر کشی بے شک ناجائز ہے…(۱۷)اس نوع کے مضامین تحقیق کئے جائیں تو بکثرت ملیں گے لیکن اختصار کے پیش نظر اتنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے،ضرورت ان پر عمل کی ہے۔
مصادر:
(۱)محمدمصطفی رضاخاں، مفتی اعظم:فتاویٰ مصطفویہ،طبع رضا اکیڈمی ممبئی،ص۵۳۴(۲)ایضاً ص۳۱(۳)ایضاً ص۳۱(۴)ایضاً ص۳۱۔۳۲(۵)ایضاً ص۹۶۔۹۷(۶)ایضاً ص۵۲۶(۷)ایضاً ص۴۵۲(۸)ایضاً ص۴۵۲(۹)ایضاً ص۴۵۳(۱۰)ایضاً ص۴۹۰(۱۱)ایضاً ص۶۳۶(۱۲)ایضاً ص۴۵۶(۱۳)ایضاً ص۶۳۱(۱۴)ایضاً ص۴۳۷(۱۵)ایضاً ص۵۲۶(۱۶)ایضاً ص۴۶۷(۱۷)ایضاً ص۴۴۹۔۴۸۴
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.