You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایک زمین کو پسند فرمایا جہاں خاندان عمرو بن عوف کی کھجوریں سکھائی جاتی تھیں اسی جگہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے مقدس ہاتھوں سے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی۔ یہی وہ مسجد ہے جو آج بھی ” مسجد قباء ” کے نام سے مشہور ہے اور جس کی شان میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔
لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْه ط فِيْه رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهرُوْا ط وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُطَّهرِيْنَ (توبه)
یقینا وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے پرہیزگاری پر رکھی ہوئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اس (مسجد) میں ایسے لوگ ہیں جن کو پاکی بہت پسند ہے اور اﷲ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
اس مبارک مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ ساتھ خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی بہ نفس نفیس اپنے دست مبارک سے اتنے بڑے بڑے پتھر اُٹھاتے تھے کہ ان کے بوجھ سے جسم نازک خم ہو جاتا تھا اور اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے جاں نثار اصحاب میں سے کوئی عرض کرتا یا رسول اﷲ ! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر ہمارے ماں باپ قربان ہو جائیں آپ چھوڑ دیجیے ہم اٹھائیں گے، تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس کی دلجوئی کے لیے چھوڑ دیتے مگر پھر اسی وزن کا دوسرا پتھر اٹھا لیتے اور خود ہی اس کو لاکر عمارت میں لگاتے اور تعمیری کام میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ آواز ملا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے کہ
اَفْلَحَ مَنْ يُّعَالِجُ الْمَسْجِدَا
وَيَقْرَئُ الْقُرْاٰنَ قَائِمًا وَّقَاعِدًا
وَلَا يَبِيْتُ اللَّيْلَ عَنْه رَاقِدًا
وہ کامیاب ہے جو مسجد تعمیر کرتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے اور سوتے ہوئے رات نہیں گزارتا۔(وفاء الوفاء ج۱ ص۱۸۰)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.