You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
مکہ مکرمہ کے تاریخی مقاما ت کا مختصر تعارف وتبصرہ
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
==================================
مسجد حرام :
بیت اللہ شریف مسجد حرام کے بیچ میں واقع ہے۔مسجد حرام ایک وسیع احاطہ ہے جس میں چاروں طرف سے وسیع دالان ہیں،جو خوبصورت اور مضبوط ستونوں پر قائم ہیں۔ دالان کے بعد ہر طرف سے کھلا ہوا وسیع صحن ہے اس کے بعد طواف کرنے کی جگہ ہے جس کے بیچ میں خانۂ کعبہ کی عمارت ہے۔ پرانی اور نئی تعمیر کا مجموعی رقبہ ایک لاکھ بیس ہزار مربع میٹر ہے۔ مسجد حرام کے پورے احاطہ میں پانچ لاکھ آدمی بیک وقت نماز پڑھ سکتے ہیں۔ نئی تعمیر میں سات مینار بنائے گئے ہیں۔ ہر مینارہ کی بلند ۲۹ میٹر یعنی تقریباً ۳۰۰؍فٹ ہے۔
مطاف :
خانۂ کعبہ کے ارد گرد جو طواف کرنے کی جگہ ہے اس کو مطاف کہتے ہیں۔ یہ سفید سنگ مر مر کا بنا ہوا ہے جو سورج کی تپش سے گرم نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ کے ظاہری زمانہ میں مسجد حرام اسی قدر تھی۔
بابْ السّلام :
باب السلام اس دروازہ کو کہتے ہیں جہاں سے عہد نبوی میں لوگ مسجد حرام میں داخل ہوتے تھے۔ اب باب السّلام کسی دروازے کی صورت میں ہیں ہے البتہ اس جگہ پر سنگ مرمر کی کالی لکیر کھینچ دی گئی ہے۔ عمرہ کے طواف کے لئے اسی جگہ سے مطاف میں داخل ہونا افضل ہے۔ موجودہ وقت میں باب السلام کے نام سے جو دروازہ ہے وہ قدیم باب السلام کے مقابل ہے۔
مقام ابراہیم :
دروازۂ کعبہ کے سامنے ایک قبہ میں پتھر رکھا ہوا ہے اسے مقام ابراہیم کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی پتھر پر کھڑے ہوکر خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ جب دیواریں اونچی ہونے لگیں تو حضرت جبریل علیہ السلام خدائے تعالیٰ کے حکم سے یہ پتھر جنت سے لائے۔ جیسے جیسے دیواریں اونچی ہوتی جاتیں یہ پتھر بھی اونچا ہوتا جاتا تھا۔ اس طرح پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مبارک قدم کے نشان پیدا ہوگئے جو اب تک موجود ہیں۔ قرآن کریم میں مقام ابراہیم کا ذکر دو جگہ آیا ہے۔
زم زم :
مقام ابراہیم سے متصل دکھن جانب زم زم کا کنواں واقع ہے ۔مقام ابراہیم کی طرح زم زم بھی مطاف میں تھا۔ بھیڑ کی وجہ سے چند سال پہلے اْسے نچلے حصے میں لے جایا گیا۔ الیکٹرک کے ذریعہ اس کا پانی کھینچ کر باہر بنے ہوئے نلوں میں پہنچایا جاتا ہے جس سے آب زم زم کے حصول میں بڑی سہولت پیدا ہوگئی ہے۔ حدیث شریف میں آبِ زمزم کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ زم زم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ حاصل ہوتا ہے ( ابن ماجہ ) اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ زم زم کا پانی خوراک ہے، شکم سیری کے لئے اور شفا ہے بیماری کے لئے ۔چنانچہ ایک مصری ڈاکٹر کی تحقیقات کی رو سے آب زم زم میں مندرجہ ذیل معدنی اجزاء پائے جاتے ہیںجو طرح طرح کی بیماریوں کے لئے مفید ہیں۔ میگنیشیم ، سوڈیم سلفیٹ ، سوڈیم کلورائیڈ ، کیلشیم کاربونیٹ ، پوٹاشیم نائٹریٹ ، ہائیڈروجن اور گندھک۔
رْکن:
کعبہ شریف کے گوشہ یعنی کونا کو’رکن‘ کہتے ہیں۔ جنوب مغرب کا گوشہ جو یمن کی طرف ہے اْسے رکن یمانی کہتے ہیں۔ شمال مغرب کا گوشہ جو ملک شام کی طرف ہے اْسے رکن شامی کہتے ہیں۔ شمال مشرق کا گوشہ جو عراق کی طرف ہے اسے رْکن عراقی کہتے ہیں اور جنوب مشرقی کونا جس میں حجر اسود ہے اْسے رْکن اسود کہتے ہیں۔
حجر اسود:
یہ مبارک پتھر جنت کے یاقوتوں میں سے ایک یاقوت ہے جو کعبہ شریف کی دیوار کے ایک کونے میں زمین سے چار فٹ کے اوپر نصب ہے اور بیضوی شکل میں چاندی کے حلقے سے گھرا ہوا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ حجر اسود جب جنت سے دْنیا میں لایاگیا تو وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا پھر آدمیوں کے گناہوں کی وجہ سے کالاہوگیا۔ (احمد ، ترمذی ) اور ایک دوسری حدیث شریف میں ہے کہ سرکار اقدس ﷺ نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ حجر اسود کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اْٹھائے گا کہ اس کے دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہو گی جس سے وہ بولے گا اور اس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ جس نے اس کو حق کے ساتھ بوسہ دیا ہو۔ (ترمذی ، ابن ماجہ )
حطیم:
رکن شامی اور رکن عراقی کے درمیان مدینہ طیبہ کی جانب قوس کی شکل میں ایک جگہ ہے جو آمدورفت کا راستہ چھوڑ کر سنگ مرمر کی تقریباً پانچ فٹ بلند دیوار سے گھری ہوئی ہے اس کے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کعبہ شریف کی محراب مدینہ شریف کی طرف گر گئی ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں ؎
جس کے سجدے کو محراب کعبہ جھکی
ان بھوئوں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ میرا دِل چاہتا تھا کہ میں کعبہ شریف کے اندر جا کے نماز پڑھوں تو حضور نے میرا ہاتھ پکڑ کر حطیم میں داخل کردیا اور فرمایا کہ جب تیرا دل کعبہ میں داخل ہونے کو چاہے تو یہاں آکر نماز پڑھ لیا کر کہ یہ کعبہ ہی کا ٹکڑا ہے تیری قوم نے جب کعبہ کی تعمیر کی اس حصہ کو (خرچ کی کمی کے سبب ) کعبہ سے باہر کردیا۔ (ابودائود )
میزابِ رحمت:
کعبہ شریف کی چھت میں اْتّر طرف ایک سونے کا پرنالہ ہے اْسے میزابِ رحمت کہتے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو کعبہ شریف کی چھت کا پانی اسی پرنالہ سے حطیم کے اندر گرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص میزابِ رحمت کے نیچے دْعا کرے اْس کی دْعاقبول ہوتی ہے۔
ملتزم :
حجر اسود اور کعبہ شریف کے دروازے کے درمیان جو دیوار کا حصہ ہے اْسے ملتزم کہتے ہیں۔ ملتزم کے معنی ہیں لپٹنے کی جگہ۔ یہاں پر لوگ لپٹ لپٹ کر دْعائیں کرتے ہیں غالباً اسی وجہ سے اس کا نام ملتزم پڑا۔ حدیث شریف میں ہے کہ ملتزم ایسی جگہ ہے جہاں دْعا قبول ہوتی ہے۔ کسی بندہ نے وہاں ایسی دْعا نہیں کی جو قبول نہ ہوئی ہو۔
(حصن حصین )
مستجاب :
رکن یمانی اور رکن اسود کے درمیان جنوبی دیوار کو مستجاب کہتے ہیں۔ یہاںستّر ہزار فرشتے دْعا پر آمین کہنے کے لئے مقرر ہیں اس لئے اس کا نام مستجاب رکھا گیا۔
صفا :
کعبہ شریف کے دکھن پورب کونے پر ایک چھوٹی پہاڑی ہے جہاں سے سعی شروع کی جاتی ہے۔
مروہ :
کعبہ شریف کے اْتر پورب کونے پر ایک دوسری چھوٹی پہاڑی ہے جہاں سعی ختم کی جاتی ہے۔ صفا و مروہ کے درمیان تقریباً دو فرلانگ کا لمبا راستہ ہے جو سنگ مرمر کے ستونوں اور دیواروں پر دو منزلہ بنایا گیا ہے اور زمین پر بھی سنگ مرمر بچھا دیا گیا ہے جس سے حجاج کو سعی میں بڑی سہولت ہو گئی ہے۔
دْعا وں کی قبولیت کے مقامات:
کعبہ شریف کے اندر،
میزابِ رحمت کے نیچے ،
حطیم ،
طواف کرتے وقت مطاف میں ،
مقام ابراہیم کے پیچھے ،
ملتزم ،
کعبہ شریف کے دروازہ کے سامنے ،
حجر اسود کے پاس ،
حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان ،
زمزم کے پاس ،
صفا اور مروہ پر سعی کرتے وقت ،
میلین اخضرین یعنی دو سبز ستونوںکے درمیان ،
عرفات ، مزدلفہ ، منٰی اور جمرات کے پاس ،
یہ سب دْعائوں کی مقبولیت کے خاص مقامات ہیں۔ یہاں نہایت عاجزی کے ساتھ دْعا مانگنی چاہئیں۔
(استفادۂ خصوصی:حج وزیارت،از:مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ)
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.