You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ماہِ محرم کی رسومات کا تحقیقی جائزہ
******************************
از: عتیق الرحمن رضوی
نوری مشن، مالیگاؤں
.............................
پاکیزہ اور صالح معاشرہ قوم کی ترقی کا ضامن ہے۔ وہ جماعت یا قوم ترقی کیسے کر سکتی ہے جس کے یہاں حرام، اور بدعات کا ارتکاب ہو۔
ہمارے معاشرے میں محرام الحرام کی آمد کے ساتھ ہی کچھ ایسی رسومات کا رواج شروع ہو جاتا ہے جس کی اصل تو دور جائز ہونے میں بھی سوالات قائم ہوتے ہیں۔........ اور طرہ یہ کہ ان قبیح افعال کو علماے حق کی طرف منسوب کرکے رفض کافروغ اور علماے ذوی الاحترام کی شان اقدس میں بہتان تراشی کا کام انجام دیا جاتا ہے۔..... بعض مراسم محرم اور اُن کے جواز و عدم جواز پر ذیل میں مختصراً روشنی ڈالی جارہی ہے۔
ماہِ محرم میں کیے جانے والے خلاف شرع کام:
*************************************
شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی مجددی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’ڈھول تاشہ بجانا،
تعزیوں کو ماتم کرتے ہوئے گلی گلی پھرانا،
سینے کو ہاتھوں یا زنجیروں یا چھریوں سے پیٹ پیٹ کر اور مار مار اُچھلتے کودتے ہوئے ماتم کرنا،
تعزیوں کی تعظیم کے لیے تعزیوں کے سامنے سجدہ کرنا،
تعزیوں کے نیچے دُھول اُٹھا اُٹھا کر بہ طورِ تبرک چہروں، سروں اور سینوں پر ملنا،
اپنے بچوں کو محرم کا فقیر بناکر محرم کی نیاز کے لیے بھیک منگوانا،
سوگ منانے کے لیے خاص قسم کے کالے کپڑے پہن کر ننگے سر ننگے پاؤں گریبان کھولے ہوئے یا گریبان پھاڑ پھاڑ کر گلی گلی بھاگے پھرنا وغیرہ وغیرہ قسم کی لغویات اور خرافات کی رسمیں جو مسلمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں یہ سب ممنوع و ناجائز ہیں اور سب زمانہ جاہلیت اور رافضیوں(شیعوں) کی نکالی ہوئی رسمیں ہیں جن سے توبہ کرکے خود بھی ان حرام رسموں سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ہرمسلمان پر لازم ہے
اسی طرح تعزیوں کا جلوس دیکھنے کے لیے عورتوں کے بے پردہ گھروں سے نکلنا اور مردوں کے مجمع میں جانا اور تعزیوں کو جھک جھک کر سلام کرنا، یہ سب کام بھی شریعت میں منع اور گُناہ ہیں۔ ‘‘
تعزیہ کی اصل:
***************
عاشقِ اہلِ بیتِ اطہار امام احمد رضاعلیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ تعزیہ داری کا کیا حکم ہے؟
ارشاد فرمایا:
’’تعزیہ کی اصل اس قدر تھی کہ روضۂ پر نور شہزادۂ گلگوں قبا حسین شہید ظلم وجفا صلوٰت اﷲ تعالیٰ و سلامہ علی جد الکریم علیہ کی صحیح نقل بنا کر بہ نیت تبرک ’’مکان‘‘میں رکھنا اس میں شرعاً کوئی حرج نہ تھا۔ کہ تصویرِ مکانات وغیرہا غیر جان دار کی بنانا، رکھنا، سب جائز ہے اور ایسی چیزیں کہ معظمان دین کی طرف منسوب ہو کر عظمت پیدا کریں ان کی تمثال بہ نیت تبرک پاس رکھنا قطعاً جائز جیسے صدہا سال سے طبقۃً فطبقۃً ائمۂ دین و علماے متقدمین نعلین حضور سیدالکونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نقشے بناتے اور ان کے فوائد جلیلہ و منافع جزیلہ میں مستقل رسالے تصنیف فرماتے ہیں.. جسے اشباہ ہو وہ امام علامہ تلمسانی کی فتح المتال وغیرہ مطالعہ کرسکتے ہیں۔
مگر جہال بے خرد نے اس اصل جائز کو بالکل نیست و نابود کرکے صد ہا خرافات وہ تراشیں کہ شریعت مطہرہ سے الاماں الاماں کی صدائیں آئیں، اول تو نفس تعزیہ میں روضہ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی، ہر جگہ نئی تراش نئی گھڑت جسے اس نقل سے کچھ علاقہ نہ نسبت، پھر کسی میں پریاں، کسی میں براق، کسی میں بے ہودہ طمطراق، پھر کوچہ بہ کوچہ و دشت بہ دشت، اشاعت غم کے لیے ان کا گشت، اور ان کے گرد سینہ زنی، اور ماتم سازشی کی سور افگنی کوئی ان تصویروں کو جھک جھک کر سلام کر رہا ہے، کوئی مشغول طواف، کوئی سجدہ میں گرا ہے،کوئی ان مایہ بدعات کو معاذاﷲ معاذاﷲ جلوہ گاہِ امام علیٰ جدہ و علیہ الصلوٰۃ والسلام سمجھ کر اس ابرک پٹّی سے مرادیں مانگتا، منتیں مانتا ہے، حاجت روا جانتا ہے ، پھر باقی تماشے، باجے، تاشے مردوں عورتوں کا راتوں کا میل، اور طرح طرح کے بے ہودہ کھیل ان سب پر طرہ ہیں۔
غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت و محل عبادت ٹھہرا ہوا تھا، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کردیا پھر وبال ابتداع کا جوش ہوا کہ خیرات کو بھی بہ طورِ خیرات نہ رکھا، ریا، و تفاخر علانیہ ہوتا ہے پھر وہ بھی یہ نہیں کہ سیدھی طرح محتاجوں کو دیں بلکہ چھتوں پر بیٹھ کر پھینکیں گے روٹیاں زمین پر گر رہی ہیں رزقِ الٰہی کی بے ادبی ہوتی ہے پیسے ریتے میں گر کر غائب ہوتے ہیں، مال کی اضاعت ہو رہی ہے۔ مگر نام تو ہو گیا کہ فلاں صاحب لنگر لُٹا رہے ہیں،
اب بہارِ عشرہ کے پھول کھلے، تاشے باجے بجتے چلے، طرح طرح کے کھیلوں کی دھوم، بازاری عورتوں کا ہر طرف ہجوم، شہوانی میلوں کی پوری رسوم، جشن یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا یہ ساختہ تصویریں بعینہاحضرات شہدارضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں، کچھ نوچ اتار باقی توڑ تاڑ دفن کر دیے۔
یہ ہر سال اضاعتِ مال کے جرم و وبال جدا گانہ رہے۔ ﷲ تعالیٰ صدقہ حضرات شہداے کربلا علیہم الرضوان والثناء کا ہمارے بھائیوں کو نیکیوں کی توفیق بخشے اور بُری باتوں سے توبہ عطا فرمائے، آمین۔
اب کہ تعزیہ داری اس طریقۂ نا مرضیہ کا نام ہے قطعاً بدعت و ناجائز و حرام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اگر اہلِ اسلام جائز طور پر حضرات شہداے کرام علیہم الرضوان کی ارواح کو ایصال ثواب کی سعادت پر اقتصار کرتے ہیں تو کس قدر خوب و محبوب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر نظر شوق و محبت میں نقل روضہ انور کی حاجت تھی تو اسی قدر جائز قناعت کرتے کہ صحیح نقل بغرض تبرک و زیارت اپنے مکانوں میں رکھتے اور اشاعت غم و تصنع الم و نوحہ زنی و ماتم کنی و دیگر امور شنیعہ و بدعات قطعیہ سے بچتے ۔۔۔۔۔اس قدر میں بھی حرج نہ تھا مگر اب اس میں نقل بھی اہلِ بدعت سے ایک مشابہت اور تعزیہ داری کی تہمت کا خدشہ اور آئندہ اپنی اولاد یا اہلِ اعتقاد کے لیے ابتلاے بدعات کا اندیشہ ہے۔۔۔۔۔ اور حدیث پاک میں
اتقوا مواضع التھم
(تہمت کے مواقع سے بچو۔)
اور وارد ہوا۔
من کان مؤمن باللّٰہِ والیوم الآخر فلایقفن موافق التھم۔
(جو شخص اﷲ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ ہر گز تہمت کے مواقع میں ٹھہرے۔
لہٰذا روضۂ اقدس حضور سیدالشہدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایسی تصویر بھی نہ بنائے بلکہ صرف کاغذ کے صحیح نقشے پر قناعت کرے اور اسے بقصد تبرک بے آمیزش منہیات اپنے پاس رکھے جس طرح حرمین محترمین سے کعبہ معظمہ اور روضۂ عالیہ کے نقشے آتے ہیں یا دلائل الخیرات شریف میں قبور پر نور کے نقشے لکھے ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ: امام احمدرضاقادری،ج:24،ص511-514، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بعض افراد اس فتوے کے کچھ حصے سے استدلال کرکے امام اہلِ سنّت کی طرف تعزیہ داری کی حمایت کا بہتان لگاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جو جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔ انہیں چاہیے کہ امام احمد رضا کے پورے فتوے کا بہ غور مطالعہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر فیصلہ کریں کہ امام احمد رضا نے تعزیہ بناکر نمائش میں لگانے کا حکم دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا تغرے جیسے خانۂ کعبہ، مدینۂ منورہ، بغدادِ معلی، اجمیر مقدس، کلیر شریف و کچھوچھہ شریف کے فریم بناکر بہ طورِ برکت و تبرک گھروں میں رکھے جاتے ہیں۔
ازالۂ فریب:
بعض افراد مختلف بزرگانِ دین سے متعلق غلط روایات کو بیان کرتے ہیں کہ :
’’محرم کی دس تاریخ تھی فلاں بزرگ ایک تعزیے کے ساتھ ہو لیے اور مصنوعی کربلا میں دفن کردیے، کچھ دنوں بعد آپ سے دریافت کیا گیا تو فرمایا مجھے تعزیے سے کچھ غرض نہیں ہم نے تو امام عالی مقام کو دیکھا تو ساتھ ہو لیے کہ اُن کے ساتھ اولیاے کرام کا مجمع تھا۔
اسی طرح ایک دن مسجد میں بیٹھے وضو فرما رہے تھے تو اچانک فصیل پر ہی ٹوپی چھوڑ کر تعزیے کے ساتھ برہنہ سر چلے گئے، اس بار جب دریافت کیا گیا تو بتایا کہ حضرت سیدۃ النساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا تشریف فرما تھیں۔‘‘
ان واقعات کی صحت سے متعلق عاشقِ اہلِ بیت کرام امام احمد رضا سے استفسار ہوا، آپ نے فرمایا:
’’دونوں حکایتیں محض غلط و بے اصل ہیں، تعزیہ داروں کو نہ کوئی دلیل شرعی ملتی ہے نہ کسی معتمد کا قول۔ مجبورانہ حکایت بناتے ہیں۔ اسی ساخت کی حکایت کوئی شاہ عبدالعزیز صاحب سے نقل کرتا ہے، کوئی مولانا شاہ عبدالمجید صاحب سے، کوئی حضرت مولانا فضل رسول بدایونی صاحب سے، کوئی مولوی فضل الرحمن سے، کوئی میرے جد امجد رحمۃ اﷲ علیہم سے ، اور سب باطل و مصنوع ہیں۔ میں تو ابھی زندہ ہوں میری نسبت کہہ دیا کہ ہم نے اسے تعزیہ، شاید عَلَم بتائے کہ ان کے ساتھ ہو لیے تھے کہ ان کے ساتھ اولیاے کرام کا مجمع تھا۔
سُبحان اﷲ ! جب تعزیے ایسے معظم ومقبول ومحبوب بارگاہ ہیں کہ خود حضور پر نور امام علیٰ جدہ الکریم ثم علیہ الصلوٰۃ والسلام بہ نفسِ نفیس ان کی مشایعت فرماتے ہیں، ان کے ساتھ چلتے ہیں تو ان سے کچھ مطلب نہ ہونا اﷲ عزوجل کے محبوب و معظم سے مطلب نہ ہونا ہے جو ولی تو ولی کسی مسلمان کی شان نہیں۔۔۔۔۔۔ پھر آگے تتمہ کلام ملاحظہ ہو کہ’’اُن کے ساتھ اولیاے کرام کا مجمع تھا‘‘ یہ کاف بیانیہ تو ہو نہیں سکتا ضرور تعلیلیہ ہے، یعنی حضرت امام کے ساتھ ہونے پر بھی کچھ توجہ نہ ہوتی مگر کیا کیجیے ان کے ساتھ مجمع اولیا تھا لہٰذا شامل ہونا پڑا۔
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں خوب یاد آیا 3؍ جمادی الآخرہ 1327ھ کو تلسر سے ایک سوال آیا تھا کہ تو نے تعزیہ داری کو جائز کردیا ہے اس خبر کی کیا حقیقت ہے؟
ایک رافضی بڑے فخر سے اس روایت کو نقل کرتا ہے ایضاً تیرا اور دیگر چند علماے بریلی کا فتویٰ صادر ہوا ہے کہ آیت تطہیر کے تحت میں ازواج مطہرات داخل نہیں،اس فتویٰ کی نقل اس رافضی کے پاس دیکھنے میں آئی ہے، فقط۔ اب فرمائیے اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت درکار، جب زندوں کے ساتھ یہ برتاؤ ہے تو احیائے عالم برزخ کی نسبت جو ہو کم ہے۔ وﷲ تعالیٰ اعلم (ملخصاً فتاویٰ رضویہ، جلد 24؍ مسئلہ نمبر182-183)
کیا محرم میں امام حسین رضی اﷲ عنہ کے علاوہ فاتحہ جائز نہیں؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماہِ محرم میں صرف امام حسین اور اہلِ بیت اطہار کی ہی فاتحہ دینی چاہیے، اس سلسلے میں امام احمد رضا سے سوال ہوا، آپ نے ارشاد فرمایا:’’محرم وغیرہ ہر وقت ہر زمانے میں تمام انبیاواولیاے کرام کی نیاز اور ہر مسلمان کی فاتحہ جائز ہے اگر چہ خاص عشرہ کے دن ہو۔ بکر غلط کہتا ہے اور شریعت مطہرہ پر افتراء کرتا ہے۔ (ایضاً:مسئلہ نمبر184)
تعزیہ کی منت:
کچھ لوگ تعزیے کو حاجت روا سمجھتے ہیں اور اس کی منتیں مانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بند کردیں گے یا نہ بنائیں گے تو ہمارا نقصان ہوگا۔امامِ اہلِ سنّت فرماتے ہیں:’’تعزیے کو حاجت روا یعنی ذریعۂ حاجت روا سمجھنا جہالت پر جہالت ہے اور اسے منت جاننا اور حماقت، اور نہ کرنے کو باعث نقصان خیال کرنا زنانہ وہم ہے۔ مسلمان کو ایسی حرکات و خیال سے باز آنا چاہیے۔ (ایضاً :مسئلہ نمبر185)
مرثیہ خوانی:
اس ماہِ مبارک میں کچھ لوگ مرثیہ خوانی کی مجلسوں کا انعقاد کرتے ہیں اور ان مجالس میں شیعہ شعرا کے اشعار اور مرثیوں کو پڑھتے ہیں۔ اس نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں امام احمد رضا فرماتے ہیں:’’نفسِ ذکر شریف کی مجلس جس میں ان کے فضائل و مناقب و احادیث و روایات صحیحہ و معتبرہ سے بیان کیے جائیں اور غم پروری نہ ہو مستحسن ہے اور مرثیے حرام خصوصاً رافضیوں کے کہ تبراے ملعونہ سے کَم تَر خالی ہوتے ہیں۔ اہلِ سُنّت کو ایسی مجالس میں شرکت حرام ہے۔ (ایضاً :مسئلہ نمبر189)
عاشورہ کے دن میلا:
ماہِ محرم میں روزِ عاشورہ میلوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس دن لوگ اپنی تعزیوں کو دفن کرتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں، اور بارہویں، بیسویں محرم اور بیسویں صفر کو تیجا اور دسواں، چالیسواں وغیرہ کی مجلسوں کا انعقاد بھی کرتے ہیں اس سلسلے میں امام اہلِ سنّت سے استفسار ہوا آپ نے فرمایا:’’عاشورہ کا میلا لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتا ہے نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر فاتحہ جہل و حمق و بے معنٰی ہے۔ مجلسوں اور میلوں کا حال اوپر گزرا نیز ایصال ثواب کا جوان کہ روز محمود ہے جب کہ بر وجہ جائز ہو۔ (ایضاً:مسئلہ نمبر191)
یہاں چند بے جا رسموں کا ذکراور اُن کا جواب علماے اہلِ سنّت کی تحریروں سے درج کردیا گیا ایسی اور اس قسم کی بے اصل رسمیں جو ماہِ محرم میں رواج پا گئی ہیں۔ جس کی کوئی اصل نہیں بلکہ روافض و شیعوں سے مسلمانوں میں آ رہی ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی روافض کی پیروی سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں حق کو تسلیم کرنے کی سمجھ عطا فرمائے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.