You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضر ت سید نا اسد بن حارثہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سید نا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دس صحابہ کرام علیہم الرضوان پر مشتمل ایک قافلہ کسی محاذ پر روانہ فرمایااور حضرت سید نا عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان پر امیرمقرر فرمایا،
جب یہ حضرات عسفان اور مکہ مکرمہ کے درمیان واقع ایک وادی میں پہنچے تو قبیلہ ہذیل کے کچھ لوگوں کو ان کی خبر ملی ،
لہٰذا سوتیر اندازوں نے ان کا تعاقب شروع کر دیا،
ایک جگہ صحابہ کرام علیہم الر ضوان کا یہ قافلہ کھانے کے لئے ٹھہرااور وہاں کھجوریں وغیرہ تناول فرمائیں،پھر آگے روانہ ہو گئے۔
جب یہ لوگ پیچھاکرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے اور وہاں کھجورو ں کی گٹھلیا ں دیکھیں توآپس میں کہنے لگے :
یہ تو مکہ مکرمہ کی کھجورو ں کی گٹھلیاں ہیں ،انہیں ڈھونڈو، وہ ضرور کہیں آس پاس ہی موجود ہوں گے،
جب حضرت سیدناعاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محسوس فرمایاکہ ہمارا پیچھا کیاجارہاہے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کولے کر ایک میدان میں آگئے جیسے ہی یہ میدان میں آئے تو دشمنو ں نے انہیں گھیر لیا اور کہاـ:
تم سب اپنے آپ کوہمارے حوالے کر دو، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔
حضرت سیدنا عاصم بن ثابت رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا:
میں ہرگزکسی کافرکے وعدہ کااعتبارنہیں کروں گا،ہم اپنے آپ کو تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔
جب دشمنوں نے یہ سنا تو ان پر تیروں کی بارش کر دی۔
حضرت سیدناعاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعاکے لئے ہاتھ اٹھادیئے اور عرض کی:
اے میرے پروردگار عزوجل !ہماری اس حالت کی خبر رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعا لیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو پہنچا دے۔
ابھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصروفِ دعا ہی تھے کہ ان ظالموں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیرمار مار کرشہید کر دیااور اسی طرح اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی شہید کرتے رہے جب آخر میں صرف حضرت سید نا خبیب ، حضرت سید نا زید بن ثابت اور ایک اور صحابی رضی اللہ تعا لیٰ عنہم باقی رہ گئے،
تو انہوں نے اپنے آپ کوان کے حوالے کر دیا۔کفار نے یہ دیکھ کر فوراًان سے تلواریں چھین لیں اور انہیں گھیرے میں لے لیااور زدوکوب کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر ان میں سے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
خدا عزوجل کی قسم! یہ تمہاری پہلی بد عہدی ہے، اب میں ہر گز تمہارے وعدے پر اعتبار نہ کروں گااور تمہارے ساتھ نہ جاؤں گا،یہ سن کر کفار نے انہیں گھسیٹناشروع کر دیا انہوں نے مزاحمت کی اور ان کے ساتھ جانے سے انکار کیاتو ظالموں نے انہیں بھی شہید کر دیا، پھر وہ حضرت سید نا خبیب اور حضرت سید نا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو مکہ مکر مہ لے گئے اورانہیں وہا ں فروخت کر دیا۔
یہ واقعہ غزوہ بدر کے بعد پیش آیا۔غزوہ بدر میں حضرت سید ناخبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حارث بن عامرکوقتل کیاتھا،چنانچہ بنوحارث نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خریدلیا اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرنے کے لئے ایک دن مقرر کیا تا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر کے حارث بن عامرکے قتل کابدلہ لے سکیں۔
پھرآپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو قید میں ڈال دیا گیا ۔ ایک دن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حارث کی لڑکی سے استرا مانگاتاکہ بال وغیرہ کاٹنے کے لئے اسے تیز کریں ۔لڑکی نے استرا دے دیا۔
تھوڑی دیر بعد اس لڑکی کاایک چھوٹاسابچہ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں بیٹھ گیا،اس لڑکی کو یہ بات معلوم نہ تھی۔
جب وہ دوبارہ اس طرف آئی اور اس نے دیکھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں استرا ہے اور بچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں بیٹھا ہوا ہے تو وہ بہت خوفزدہ ہوئی کہ کہیں یہ میرے بچے کوقتل نہ کر دے ،جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے خوفزدہ دیکھاتو فرمایا،کیاتو اس بات سے خوفزدہ ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا؟
اس نے کہا:
ہاں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
خداعزو جل کی قسم! میں ہرگز ایسانہیں کر وں گا،پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بچے کواس کی طرف بھیج دیا۔
وہ لڑکی کہاکرتی تھی:
خدا عز وجل کی قسم! میں نے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔
میں نے ایک دن دیکھا:
حضرت سید نا خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں انگور کاایک خوشہ تھااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں سے تناول فرمارہے تھے حالانکہ ان دنوں مکہ مکرمہ میں کہیں بھی انگور نہ تھے، یہ رزق اللہ تعالیٰ نے انہیں عطافرمایا تھا،اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کوایسی ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے کہ جہاں کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔
جب حضرت سید نا خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوشہید کرنے کے لئے حدودِ حرم سے باہرلایاگیا تو اس مرد مجاہد کوکفار مکہ نے چاروں طرف سے گھیر لیااور تماشائی بن کر ایک سچے عاشق رسول اور ربُّ العٰلَمِین کی وحدانیت کاعلی الاعلان اظہار کرنے والے مردِ مؤمن کے گرد جمع ہوگئے ،
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بالکل نہ گھبرائے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پایہ استقلال میں ذر ہ برابربھی کمی نہ آئی بلکہ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں جلتی ہوئی ایمان کی شمع مزید روشن ہوگئی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کفارِ بد اطوار سے فرمایا:
مجھے دورکعت اداکر لینے دو تاکہ میں اپنے اس ر بِّ حقیقی عزوجل کی بارگاہ میں آخری بار سجدہ ریزہوسکوں جس کے نام پر مجھے شہادت مل رہی ہے ،انہوں نے اجازت دے دی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیڑیاں کھول دیں ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبلہ رو ہو کر نمازشروع فرمادی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے اطمینان سے نمازاداکی پھر کفار سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا:
اگرمجھے اس بات کااحساس نہ ہوتاکہ میری طویل نمازسے شاید تم یہ سمجھنے لگو گے کہ میں موت کے خوف سے نماز طویل کر رہاہوں تو میں بہت خشوع خضوع سے نمازپڑھتااور اپنے ربّ عزوجل کی بارگاہ میں خوب طویل سجدے کرتا۔
پھر ان ظالموں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکھجور کے ایک تنے کے ساتھ باندھ دیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں استغاثہ پیش کیااور یامحمداہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم یامحمداہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی صدائیں بلند کیں،
پھر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس طرح دعاکی:
اے پروردگار عزوجل! تو ا ن سب کو چن چن کر تباہ وبرباد کر دے اور ان میں سے کسی کو بھی باقی نہ رکھ۔
اس کے بعد ابوسروعہ بن عقبہ بن حارث آگے بڑھااور اس ظالم نے ایک سچے عاشق رسول کو بڑی ہی بے دردی سے شہید کر دیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ غلامانِ محمد ا جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سرکٹ جائے یا رہ جائے کچھ پرواہ نہیں کرتے
(اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے !
ا س مرد مجاہد نے جان تو دے دی لیکن شمعِ ایمان کو کفر وشرک کی آندھیوں سے محفوظ رکھا،ان کی شہادت ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے، انہوں نے وقتِ شہادت بھی نماز نہ چھوڑی، بس دل میں یہی آرزو مچل رہی تھی کہ وقتِ رخصت بھی اپنے ربّ عزوجل کی بارگاہ میں سر جھکا لوں اور اس کی عبادت کر لوں۔
اللہ عزوجل ہمیں بھی ان کے صدقے صبر واستقامت عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.