You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
آج کل کچھ لوگ قرآن پاک کا ترجمہ کرنے کی ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو دعوت دے رہے ہیں کہ ہم سے چند آیات کا ترجمہ سیکھ لو تو پور ے قرآن کا ترجمہ کرنے کے قابل ہو جاۓ گے۔
کیا یہ لوگ سہی کہہ رہے ہیں؟
کیا یہ ممکن ہے ؟
اس سوال کا جواب حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ نے اپنی کتاب علم القرآن لترجمۃ الفرقان میں عطا کیا ہے۔ وہ اس کتاب کے شروع میں فرماتے ہیں کہ
قرآن شریف عربی زبان میں اتر ا ،عربی زبان نہایت گہر ی زبان ہے ۔
اولاً توعربی زبان میں ایک لفظ کے کئی معنے آتے ہیں جیسے
لفظ ولی کہ اس کے معنی ہیں دو ست، قریب،مددگار،معبود،ہادی،وارث، والی،اورقرآن میں یہ لفظ ہر معنے میں استعمال ہوا ہے ۔
اب اگر ایک مقام کے معنی دوسرے مقام پر جڑ دیئے جائیں تو بہت جگہ کفر لازم آجاوے گا
پھر ایک ہی لفظ ایک معنی میں مختلف لفظوں کے ساتھ ملکر مختلف مضامین پیدا کرتا ہے
مثلاً شہادت بمعنی گواہی اگر عَلٰی کے ساتھ آئے تو خلاف گواہی بتاتا ہے اور اگر لام کے ساتھ آئے توموافق گواہی کے معنی دیتا ہے ۔
لفظقَالَ بمعنی کہا ۔ اگر لام کے ساتھ آوے تو معنی ہوں گے اس سے کہا۔ اگر فِیْ کے ساتھ آوے تو معنی ہوں گے اس کے بارے میں کہا ۔ اگر مِنْ کے ساتھ آوے تو معنی ہوں گے اس کی طر ف سے کہا ،
ایسے ہی دعا کہ قرآن میں اس کے معنی پکارنا ، بلانا ، مانگنا اور پوجنا ہیں۔جب مانگنے او ر دعا کرنے کے معنی میں ہو تو اگر لام کے ساتھ آوے گا تو اس کے معنی ہوں گے اسے دعا دی اور جب عَلٰی کے ساتھ آوے تو معنی ہونگے اسے بد دعا دی ۔
ا سی طر ح عربی میں لام ،مِنْ ، عَنْ ، ب ، سب کے معنی ہیں سے لیکن ان کے موقع استعمال علیحدہ ہیں اگر اس کا فر ق نہ کیا جائے تو معنی فاسد ہوجاتے ہیں پھر محاورہ عرب، فصاحت وبلاغت وغیرہ سب کا لحا ظ رکھنا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ علم کا مل کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا اور جب عوام کے ہاتھ یہ کام پہنچ جائے تو جو کچھ ترجمہ کا
حشر ہوگا وہ ظاہر ہے۔ اس لئے آج اس ترجمہ کی بر کت سے مسلمانوں میں بہت فرقے بن گئے ہیں ۔
یہ مترجم حضرات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ جو ان کے کیے ہوئے ترجمہ کو نہ مانے ، اسے مشرک مرتد ، کافر کہہ دیتے ہیں ۔ تمام علما ء وصلحاء کو کافر سمجھ کر اسلام کو صرف اپنے میں محدود سمجھنے لگے ہیں ،
چنانچہ مولوی غلام اللہ خاں صاحب نے اپنی کتاب جواہر القرآن کے صفحہ ۱۴۱ ، ۱۴۳ پر لکھا کہ جو کوئی نبی ، ولی ، پیر ، فقیر کو مصیبتوں میں پکارے وہ کافر، مشرک ہے۔ اس کا کوئی نکاح نہیں اور صفحہ ۱۵۲ پر تحریر فرمایا ہے کہ اس قسم کی نذر نیاز شرک ہے۔ اس کا کھانا خنزیر کی طر ح حرام ہے ۔ اس فتویٰ سے سارے مسلمان بلکہ خود دیوبندوں کے اکابر مشرک ہوگئے بلکہ خود مصنف صاحب کی بھی خیر نہیں وہ بھی اس کی زد سے نہیں بچے چنانچہ یہاں گجرات سے ایک صاحب نے تحریری استفتاء مولوی غلام اللہ خاں صاحب کی خدمت میں بذریعہ جوابی ڈاک بھیجا جس میں سوال کیا کہ آپ نے اپنی کتاب جواہر القرآن کے صفحات مذکورہ پر لکھا ہے کہ پیرو ں کے پکارنے والے کا نکاح کوئی نہیں اور نذر نیاز کا کھانا خنزیر کی طر ح حرام ہے آپ کے محترم دوست اور دیوبندیوں کے مقتداء عالم عنایت اللہ شاہ صاحب گجراتی کے والد مولوی جلال شاہ صاحب ساکن دو لتا نگر ضلع گجرات ، اور سنا گیا ہے کہ آپ کے والدین بھی گیارہویں کھاتے تھے اور کھلاتے تھے ختم غوثیہ پڑھتے تھے جس میں یہ شعر موجود ہے ؎
امدادکن امدادکن از بحر غم آزادکن
در دین و دنیاشاد کن یا شیخ عبدالقادر
جلال شاہ کے عینی گواہ ایک نہیں دو نہیں بہت زیادہ موجود ہیں فرمایا جاوے کہ ان کا نکاح ٹوٹا تھایا نہیں او راگر نکاح ٹوٹ گیا تھا تو آپ۔۔۔۔۔۔ کے کیسے ہوئے
کیونکہ آپ اس ٹوٹے ہوئے نکاح کی اولاد ہیں نیز گیارہویں کا کھانا جب خنزیر کی طرح حرام ہوا تو جو کوئی اسے حلال جانے وہ مرتد ہوا او رمرتد کا نکاح فوراً ٹوٹ جاتا ہے تو آپ دونوں بزرگو ں کے والد صاحبان اسے حلال جان کر کھاتے کھلاتے تھے ۔ اب آپ کے۔۔۔۔۔۔ ہونے کی کیا صورت ہے بصورت دیگر آپ دونوں بزرگو ں کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب ابھی تک نہیں ملا اور امید بھی نہیں کہ ملے کیونکہ عربی کا مقولہ ہے :
مَنْ حَفَرَ لِاَخِیْہِ وَقَعَ فِیْہِ
جو دو سرے کے گر نے کو گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے
دو سرے مسلمانوں کے نکاح تو بعد میں ٹوٹیں گے پہلے اپنے والدین کے نکاح کی خبر لیں ۔ کوئی صاحب ان بزرگوں سے اس معمہ کو حل کرادیں اور اس کا جواب دلوادیں ہم مشکور ہوں گے ۔
غرض کہ بے دھڑک ترجمے بڑی خرابیوں کی جڑ ہیں اس سے قادیانی، نیچر ی، چکڑالوی،غیرمقلد،وہابی،دیوبندی،مودودی،بابی،بہائی وغیرہ فرقے بنے۔ان سب فرقوں کی جڑ خود ساختہ ترجمے ہیں اس بد تر حالت کو دیکھتے ہوئے میرے محترم دوست حضرت سید الحاج محمد معصوم شاہ صاحب قبلہ قادری جیلانی نے بار ہا فرمائش کی کہ کوئی ایسی کتاب لکھی جائے جو موجودہ ترجمہ قرآن پڑھنے والوں کے لئے رہبر کا کام دے جس میں ایسے قواعد واصطلاحات اور مسائل بیان کردیئے جائیں جن کے مطالعہ سے ترجمہ پڑھنے والا دھو کا نہ کھائے چونکہ یہ کام بڑا تھا او ر میں کثر ت مشاغل کی وجہ سے بالکل فارغ نہ تھا اس لیے اس کام میں دیر لگتی رہی ۔ اتفاقًا اس ماہ رمضان المبارک میں میرے محترم دو ست قبلہ قاری الحاج احمد حسن صاحب خطیب عید گاہ گجرات میرے پاس جواہر القرآن لائے اور فرمایا کہ آپ لوگ آرام کر رہے ہیں اور ملحد ین اس طرح مسلمانوں کو ترجمے دکھا کر گمراہ کر رہے ہیں ،تب میرے دل میں خیال پیدا ہوا
کہ میں نے بارگاہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ٹکڑے کھائے ہیں ، انہی کے نام پر پلا ہوں ان کے دروازے کا ادنیٰ چوکیدار ہوں اگر چوکیدار چور کو آتے دیکھ کر غفلت سے کام لے تو مجرم ہے اس وقت میرا خاموش رہنا واقعی جرم ہے ، اللہ تعالیٰ کے کرم اور حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت پر بھروسا کر کے اس طر ف توجہ کی ۔ اس کتاب کے تین باب ہوں گے ۔ پہلے باب میں قرآن کریم کی اصطلاحات بیان ہوں گی جس میں بتایا جاوے گا کہ قرآن کریم میں کون کون سالفظ کس کس جگہ کس کس معنی میں آیا ہے ۔ دوسرے باب میں قواعد قرآنیہ بیان ہوں گے جس میں ترجمہ قرآن کرنے کے قاعدے عرض کیے جاویں گے جس سے ترجمہ میں غلطی نہ ہو ۔ تیسرے باب میں کل مسائل قرآنیہ ۔ اس باب میں وہ مسائل بھی بیان ہوں گے جو آج کل مختلف فیہ ہیں جن مسائل کی وجہ سے دیوبندی ، وہابی ، عام مسلمین کو مشرک وکافر کہتے ہیں انہیں صریح آیات سے ثابت کیا جاویگا تا کہ پتالگے کہ یہ مسائل قرآن میں صراحۃً موجود ہیں اور مخالفین غلط ترجمہ سے لوگو ں کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ اس کتاب کانام علم القرآن لترجمۃ الفرقان رکھتا ہوں۔ اپنے رب کریم سے امید قبولیت ہے جو کوئی اس کتاب سے فائدہ اٹھائے وہ مجھ گنہگار کے لئے دعا کرے کہ رب تعالیٰ اسے میرے گناہوں کا کفار ہ اور تو شہ آخرت بنائے ۔
وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ
حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی اشرفی
سر پر ست : مدرسہ غوثیہ نعیمیہ گجرات (پاکستا ن)
۲۲رمضان المبارک،۱۳۷۱ھ،دوشنبہ مبارک
=======================
اس کتاب" علم القرآن لترجمۃ الفرقان"کا مطالعہ قارئین کے لیے بہت ذیادہ فائدہ مند ثابت ہو گا۔(نفس اسلام ٹیم)
===========================
علم القرآن کے کچھ اسباق آپ اس لنک سے بھی پڑھ سکتے ہیں
http://www.nafseislam.com/articles-author/ilm_ul_quraan
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.