You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
جائے ولادت کا انہدام یا اسلامی ورثے کی پامالی ۔ ۔ ۔ ۔
جائے ولادت کی مسماری کا شرمناک سعودی منصوبہ ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر:۔محمداحمد ترازی
[email protected]
قومیں اپنے اسلاف اور اکابرین سے وابستہ نشانیوں کی حفاظت کرتی ہیں اوراِن تاریخی نوادرات اور ورثوں کوحوادث زمانہ سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرتی ہیں،آج دنیا میں بے شمارتاریخی عمارات،نوادرات و کھنڈرات اور انبیاءو صلحاءسے منسوب مقابر جومصر،عراق،فلسطین،شام اوراردن وغیرہ میں زیارت گاہ عام بنے ہوئے ہیں،اِس کی عملی مثال ہیں،مگر افسوس کہ سرزمین نجدوحجاز پر قبضے کے بعد سعودی حکومت نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم،امہات المومنین اور صحابہ کرام سے منسوب اُن تمام تاریخی مقابر اور عمارات کے نام و نشان تک مٹادیئے،جن سے مسلمانوں کو اپنے قلب میں ایمان کی ڈھرکنیں سنائی دیتی تھیں،جبکہ اِن تاریخی مقامات کی حفاظت اور نئے سرے سے تزئین وآرائش کرکے محفوظ بنانے کیلئے سلطنت عثمانیہ نے بڑی محنت کی تھی۔تاریخ بتاتی ہے کہ ترکوں نے اپنے دور حکومت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے وابستہ ہر جسمانی،روحانی،تاریخی اور جمالیاتی کیفیت کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے کی بھر پور کوشش کی،حالانکہ یہ کام غیر شعوری طور پر عہد نبوی سے جاری تھا،مگر ترکوں نے اِس کام کو شعوری رنگ دے کر عملی شکل دی،انہوں نے یہ کام جنون کی حد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور انسانی حواس کی حدود تک نفاست اورقلبی و ایمانی سچائی سے انجام دیا۔
اُن کو علم تھا کہ جس خطہ زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نزول ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا قدم پڑا،جس کی آب و ہوا کا پہلا سانس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر جذب ہوا،جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لہجے کا گداز پہلی بار برداشت کیا اور سمجھا کہ یہ قدآورگوشے،خوشبو سے معطر لمحے اور کفر کو لرزابراندام کرنے والی صدا کے نقش اوّل محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نہیں بلکہ رہتی دنیا تک ہر کلمہ گو مسلمان کیلئے ازلی اور آبائی نشان ہیں،ترکوں کو اِس بات کا مکمل ادراک تھا،سو انہوں نے اِس کام کا آغازمدینہ منورہ میں اُس میدان کے تعین سے کیا،جہاںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ حالات بخار میں اپنے گھر سے دور اپنی اہلیہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کوحالت حمل میں بے سہارا چھوڑ کر ملک عدم کا سفر اختیار کیا تھا۔ترکوں نے ایک پہاڑ کی کوکھ میں اُس چھوٹے سے گھر اور اُس میں واقع اُس شمالی کمرے کا بھی تعین کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنم لیا،انہوں نے اُس پگڈنڈی کو بھی متعین کیا،جو بیت اللہ کی جانب جاتی تھی، جس پر چل کرآپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے نوزائیدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھاکریہ دعا کی تھی کہ ”اے خالق کائنات اِس بچے پر رحم فرما،اِس واسطے کہ یہ بے آسرا اور یتیم ہے۔“ترکوں نے اِس شمالی کمرے ،پگڈنڈی اور اِس دعا کے مقام کا بھی تعین کرکے نشان چھوڑا۔ترکوں نے اُس مقام کا بھی تعین کرکے محفوظ کیا،جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ سال کی عمر میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ اپنے والد ماجد کی قبر مبارک سے واپسی پر ایک رات قیام فرمایا اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم والدہ ماجدہ کے سائے سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوئے،ترکوں نے اُس راستے کا بھی تعین کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کے وصال کے تین سال بعد اپنے دادا کے جسد خاکی کے ہمراہ رنجیدہ حالت میں سفر فرمایا تھا۔
غرض کہ ترکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت سے لے کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے گھر،بنوارقم کی بیٹھک،ورقہ بن نوفل کی دہلیز،حضرت اُم ہانی کے آنگن اورمکہ و مدینہ میں واقع اُس قبرستان جس میں خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشتر افراد اور صحابہ کرام مدفن تھے،سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر،مسجد قبا،مسجد نبوی اوربنونجار کی کچی بستی سے لے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری تک تمام منسوب مقامات مقدسہ کوآنے والی نسلوں کیلئے محفوظ بنانے کا فریضہ بہ احسن وخوبی انجام دیا۔اِس تمام کاروائی میں ترکوں کا طریقہ بہت ہی موثر اورجداگانہ تھا،جس کی ایک مثال خانہ کعبہ کے سامنے پہاڑ پر واقع اُس چھوٹی سی مسجد بلال کی ہے،جو زمانہ کی غفلت کی وجہ سے مٹی اور پتھر کا ڈھیر بن چکی تھی،اِس چھوٹی سی مسجد کو اُس کے اصلی خطوط پر دوبارہ تعمیر کرنے کیلئے ترکوں نے پہلے تمام مٹی، چونے اور اصلی پتھروں کو الگ کیا،اُس کے بعد مٹی اور چونے کو باریک چھلنیوں سے چھانا،بجے ہوئے چونے کا کیمیائی تجزیہ کرکے اُس کے اجزاءمعلوم کیے،پھر اِن اجزاءکے اصلی ماخذ دریافت کرکے نئے اور پرانے چونے کو چنائی کیلئے استعمال کیا،اسی طرح پتھروں کو بھی اُس کی تراش،خراش اور ساخت کے مطابق اُسی جگہ نصب کیا گیا جیسا پہلی مرتبہ عہدنبوی میں تھا،اِس طرح وہی مٹی،وہی گارا،وہی چونا اور وہی پتھربالکل اُسی طرح استعمال ہوا جیسا کہ مسجد کی تعمیر اوّل کے وقت تھا،یوں مسجد نئی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اصلی خدوخال اور اوّل خطوط پر قائم ہوگئی۔
اِس کام کیلئے ترکوں نے پورے عالم اسلام سے عمارت سازی کے سینکڑوں ماہرین جو اعلیٰ معمار،بہترین نقشہ نویس،منفرد سنگ تراش،ماہر خطاط،تجربہ کار کیمیا گر،انوکھے شیشہ گر اور یگانہ روزگار رنگ سازوں کو جمع کیا،یہ لوگ صرف دو باتوں یعنی ایک تعمیرکے لمحہ اوّل سے لے کر تکمیل تک باوضو رہنے اور دوسرے اِس دوران ہر لمحہ تلاوت قرآن کرتے رہیں گے، کے پابند تھے،سلطنت عثمانیہ کی زیر نگرانی اِن ماہر ین فن نے کئی عشروں کی محنت کے بعد یہ کام مکمل کیا،درحقیقت مقامات مقدسہ کی تزئین وآرائش اور انہیں محفوظ بنانے کیلئے ترکوں کی یہ کوشش عالم اسلام پر سب سے بڑا احسان تھی۔مگر1918ءمیں پہلی جنگ عظیم میںانگریز،فرانسیسی اور اطالوی طاقتوں کے ہاتھوں ترک جرمن اتحاد کی شکست نے جرمنی کے دو ٹکڑے کرنے کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کی وسیع و عریض حدود کو بھی بکھیر کر رکھدیا اور1921ءمیں نجد کے قبیلہ سعود نے فاتح طاقتوں کی ایماءپر نجد میں اپنی عملداری کا اعلان کردیا،یہ عملداری 1926ءتک مکہ،مدینہ اور جدے پر قبضے کے بعد نجد وحجاز کی بادشاہت میں تبدیل ہو گئی ۔
حجاز پر قبضے کے بعد سعودیوں نے حسب سابق سب سے پہلا کام یہ کیا کہ خانہ کعبہ،مسجد نبوی اور جہاں جہاں جس جس عمارت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کندہ نظر آیا، اُس کو نہایت بھونڈے طریقے سے مٹادیا،کہیں خطاطی اور فنون لطیفہ کے اِن نادر نمونوں پر تار کول اورپلستر تھوپ کر چھپادیا گیا،یا پھر چھینی اور ہتھوڑے کا استعمال کرکے اکھیڑنے کی جسارت کی گئی،اِس شرمناک گستاخی کے نشانات آج بھی حجاز کے طول وعرض اور خاص کر خانہ کعبہ کی پرانی مسجد اور مسجد نبوی کے درودیوار پر نظر آتے ہیں،سعودیوں نے صرف اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہر تاریخی،ر وحانی اورمعاشرتی علامت کو اپنے خود ساختہ عقیدہ توحید کا ہدف بنایا۔جنت الاولیٰ اور جنت البقیع کے تاریخی قبرستانوں جن میں حضرت عبدالمطلب،ابوطالب،ورقہ بن نوفل، حضرت خدیجہ ، خاتون جنت،حضرت عباس،حضرت حلیمہ سعدیہ،کئی امہات المومنین،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے اور صاحبزادیاں اور خانوادہ رسول کے دیگر اصحاب آرام فرما تھے ،پر بلڈوزر چلاکر چٹیل میدان میں تبدیل کردیا، جنت البقیع کے سامنے قائم شہیدا کے مزارات سڑک کی نذر کردیئے،خاتون جنت سے منسوب مسجد فاطمہ مسمار کردی گئی،یوں نہ ابوطالب کا محلہ رہا،نہ ورقہ بن نوفل کی دہلیز،نہ اُم ہانی کا آنگن رہا اور نہ ہی بنوارقم کی بیٹھک۔آج ابوطالب کے محلے پر جدید عمارت کھڑی ہے،ورقہ بن نوفل کا مکان کپڑے کے بازار کی لپیٹ میں آچکا ہے،دارلارقم موٹر گاڑیوں کا اڈا بنا ہوا ہے،اُم ہانی کا گھر توسیع حرم کی نذر ہوچکا ہے،ہجرت کے راستے کا نام ونشان مٹ چکا ہے،مسجد قبا کا قدیم کنواں پتھر کی سل سے بند کیا جاچکا ہے،مسجد فاطمہ آل سعود سے منسوب پارک میں تبدیل ہوچکی ہے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت کے آثار پر ایک لائبریری قائم ہوچکی ہے،جس کے حوالے سے سعودی حکام کہتے ہیں کہ یہ جگہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت نہیں ہے،اسی وجہ سے انہوں نے دوسال قبل اِس لائبریری کو عوام الناس کیلئے بند کردیا اور وہاں ایسے بورڈ آویزاں کردیئے ہیں جن پر زائرین کو وہاں جانے سے منع کیا جاتا ہے۔
آج یہ جائے ولادت بھی جس پر لائبریری قائم ہے مکہ میں تعمیراتی منصوبوں کے باعث تباہی کے خطرے سے دوچار ہے،ایک برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ نے اپنی حالیہ اشاعت میں خبر دی ہے کہ مکہ میں تعمیر نو کے نئے منصوبوں کے تحت ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت پر نئی عمارتیں بنادی جائیں،تعمیراتی منصوبے کی انچارج سعودی کمپنی بن لادن گروپ نے بھی حکومت کو یہی تجویز دی ہے کہ اونچی بنیاد پر قائم لائبریری اور اُس کے نیچے واقع عمارت کو مسمار کر کے امامِ کعبہ کی رہائش گاہ اور ساتھ واقع شاہی محل کیلئے راستہ نکالا جائے،اسی طرح ایک سعودی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر عرفان العلاوی نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی حکومت مسجد الحرام کے ساتھ واقع اِس مقام مولد پر قائم لائبریری کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے،وہ سعودی حکومت کے اِس موقف کہ” یہ جگہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت نہیں ہے“ کی نفی کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ صدیوں پرانے نقشے اور دستاویزات اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ہے۔
قارئین محترم ! ہرصاحب ایمان کے نزدیک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے نسبت اور حوالہ محبت واحترام کا درجہ رکھتا ہے اور تقاضہ کرتا ہے اِس مقام مولد کی پوری پوری حفاظت کی جائے اور اُسے قائم رکھا جائے،مگر افسوس کہ گیارھویں صدی کی آغوش میں پرورش پانے والی نجدیت جب بارھویں صدی میں قدم رکھتی ہے تو ایک ایسے عقیدے کو جنم دیتی ہے جس میں فتنہ وفساد اورفسق وفجورکے علاوہ اور کچھ نہیں،انہوں نے مسلمانوں کے ادب واحترام اور عقیدت و محبت کو ختم کرنے اور مٹانے کیلئے کفرو شرک کے فتووں کا سہارا لیا،چنانچہ کسی کو کعبہ یا جالی مبارک کا بوسہ دیتے دیکھاتو مشرک ہونے کا فتویٰ داغ دیا ،انبیاءعلیہ السلام اور اولیائے و صالحین کے مقابر کو تعمیروآباد اور پر ہجوم دیکھا تو شرک قرار دے دیا یا انہیں زمین بوس کردیا، آل سعود کے ہاتھوں نجد و حجاز میں اسلامی ورثہ اور شعائر اللہ کی پامالی اور انہدام سے شروع ہونے والا سلسلہ آج دنیا کے بہت سے اسلامی ممالک تک پھیل چکا ہے، آج پاکستان میں بھی مزارات اولیاءاور بزرگان دین کے مقابر پر ہونے والے بم دھماکے اسی تکفیری فکر کا شاخسانہ ہیں اور تکفیری دہشت گردی نے مساجد و امام بارگا ہوں کے ساتھ ساتھ کوچہ و بازار کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے،یہ لوگ طاقت کے زور پر اپنا نجدی فکر وفلسفہ منوانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا سے یہ مراکز محبت وعقیدت ختم کرکے مسلمانوں کے دلوں سے ادب و احترام اور محبت نکال دیا جائے ،یہی وجہ ہے کہ مقامات مقدسہ،مزارات اولیاءاور قدیم مساجد و مقامات جیسے اسلامی ورثوں کے انہدام کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
جبکہ دوسری جانب سعودی حکومت اپنے آباؤ اجداداور بادشاہوں کے آثار کو محفوظ بنانے کیلئے کروڑوں ریال خرچ کررہی ہے،یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آل سعود کے آباؤ اجداد اور مطلق العنان حکمرانوں کی آثار کو محفوظ بنانے کیلئے کروڑوں ریال کا خرچ کرنا جائز اور عین اسلام قرار پاتا ہے مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،اہل ِبیت رسول،صحابہ کرام اور اسلام کی محترم شخصیات سے نسبت و حوالہ رکھنی والے متبرک و مقدس مقامات کی حفاظت کفر وشرک کے دائرے میں لی جاتی ہے،اَمر واقعہ یہ ہے کہ جائے ولادت کی مسماری کا مجوزہ منصوبہ ایک شریعت سوز کاروائی ہونے کے ساتھ، عالم اسلام کی غیرت و حمیت پر حملہ اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کھلی دشمنی کا مظہر ہے،چنانچہ اِس دل ہلادینے والے انکشاف سے پورے عالم اسلام میں بے چینی اوراضطراب کی لہرے دوڑگئی ہے اور یہ خبرہرباضمیرعاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پربجلی بن کرگری کہ آل سعود جس کے ہاتھ پہلے ہی خانوادہ نبوت،امہات المومنین اور صحابہ کبارکے مزارات کے انہدام سے آلودہ ہیں،مکہ مکرمہ میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت کومسمارکرنے کا ارادہ رکھتی ہے،جو اہل محبت کیلئے نہایت دردناک اورقابل تشویش بات ہے۔
اِس لیے دنیا بھر کے خوش عقیدہ اور باضمیر مسلمانوں کا فرض منصبی بنتا ہے کہ وہ استعماری ایجنٹ اور حجاز مقدس کواپنی ذاتی جاگیرسمجھنے والے نفس کے غلام اُن حکمرانوں(اسلام کی نشانیوں کو ویران و تاراج کرکے اپنے محلات میں سونے چاندی کے ظروف و فانوس سے تزئین و آرائش کرتے ہیں)کے خلاف آواز بلند کرکے اِس اسلامی ورثہ کی حفاظت کیلئے اپنا دینی فریضہ ادا کریں، ہم اُن تمام این جی اوز اور سماجی تنظیموں جو افغانستان میں چند بتوں کی مسماری پر سراپا احتجاج تھیں ،سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مولود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی متوقع انہدام کے خلاف لب کشائی کرتے ہوئے میدان عمل میں آئیں،ساتھ ہی ہمارا تمام مسلم ممالک کی حکومتوں سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کا احتجاج سعودی ایوانوں تک پہنچائے اور تمام مقامات مقدسہ بالخصوص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت کے تحفظ اوراُس عزت وحرمت کویقینی بنانے کیلئے سعودی حکومت پربھرپوردباؤڈالیں،تاکہ وہ اسلام کا مقدس نام لے کر مزید شعائر اسلامی کے انہدام سے اجتناب کرے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.