You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
باسمہ تعالیٰ
اسلام اور حقوق انسانی
رضاءالحق
ریسرچ اسکالر البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ
علی گڑھ
Email: [email protected]
Mob: 7275709094
===================
اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کا شور مچا ہوا ہے اور دنیا میں مختلف تنظیمیں اور این جی اوز اس بات کا دعوی کر رہی ہیں کہ ہم نے دنیا کو حقوق انسانی سے روشناس کرایا۔ حالانکہ آج سے چودہ سوسال پہلے پیغمبراسلام ﷺ نے مختلف قدغنوں اور پابندیوں میں گرفتار دنیا کو انسانی حقوق سے آشنائی اور نہیں انسانیت کی قدروقیمت سے آگاہ فرمایا۔
اسلام میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات کے حقیقی تصور و اعتقاد کیساتھ اس کے بندوں سے برادرانہ تعلقات اور ان کے حقوق کا پاس و لحاظ بنیادی نوعیت کے حامل ہیں۔ مختصر لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام حق اللہ اور حقوق العبادکی ادائیگی کا نام ہے ۔گویا اسلام دو ستون پہ کھڑا ہے، ایک اللہ تبارک و تعالیٰ کے حق کی رعایت اور دوسرے بندوں کے حقوق کی حفاظت۔ اسی لئے قرآن کریم میں کئی مقامات پرحقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے ارشاد ربّانی ہے:
﴿ وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙ۳۶﴾﴾ ۱
ترجمہ:اور اللہ کی بندگی کرو اوراس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو۔اور رشتہ داروں،اوریتیموں،اورمحتاجوں،اور پاس کے ہمسائے، اور دور کے ہمسائے، اور کروٹ کے ساتھی، اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے۔ بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا ۔۲
اس آیت کریمہ کی تفسیرکرتے ہوئے علامہ ابن کثیر(متوفی ۷۷۴ ھ) فرماتے ہیں:
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنی طاعت و بندگی کا حکم فرمایا پھر والدین اور دوسرے بندوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا۔۳
اس سے حقوق العباد کی اہمیت واضح ہوگئی۔نیز حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ اس بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے شرک کو ناقابل معافی قرار دیا اوراس کے علاوہ گناہ کو اپنی مشیت پر موقوف رکھا مگر بندوں کے حق میں بندوں کیجانب سے کئے گئے ظلم و تعدی کو مظلوم بندوں کے عفو و درگذر یا بدلہ لینے پر معلق فرمادیا۔
اسلام پوری انسانیت کیلئے رحمت بن کر آیا ہے ۔ اس لئے پیغمبراسلام ﷺنے انسانیت کو اسلام کا آفاقی تعلیمات عطاکرکے ہر نوع کی غلامی اور جبر واستحصال سے آزاد کردیا۔ اور ہر شخص کو انفرادی و اجتماعی حقوق سے روشناس کرایا۔ اور ہر ایک کے حقوق ادا کرنے کی ہدایت فرمائی۔
انفرادی سطح پر اسلام نے ہر فردکو وہ فطری حقوق عطاکئے جن کا شعور انسانیت آج کر رہی ہے۔ پیغمبراسلام ﷺ کے عطا کردہ کچھ نمایاں حقوق یہ ہیں:
۱۔ زندگی کے تحفظ کا حق
۲۔ رحم مادر میں جنین کا حق
۳ ۔انسانی جان کی حرمت کا حق
۴ ۔عزت نفس کاحق
۵ ۔عزت کی حفاظت کا حق
۶ ۔نجی زندگی کے تحفظ کا حق
۷ ۔شخصی آزادی کا حق
۸ ۔سلامتی کا حق
۹ ۔سماجی مساوات کا حق
۱۰ ۔قانونی مساوات کا حق
۱۱ ۔حصول انصاف کا حق
۱۲ ۔آزادانہ سماعت کا حق
۱۳ ۔دوسروں کے جرائم سے برأت کا حق
۱۴ ۔صفائی پیش کرنے کا حق
۱۵ ۔آزادی کا حق
۱۶ ۔شخصی راز داری کا حق
۱۷ ۔مذہبی آزادی حق
۱۸ ۔اظہاررائے کی آزادی کا حق
۱۹ ۔مریض کا حق
۲۰ ۔طبی سہولیات کا حق
۲۱ ۔بنیادی ضروریات کی کفالت کا حق
۲۲ ۔معاہدہ کرنے کا حق
۲۳ ۔ازدواجی زندگی گذارنے کا حق
۲۴ ۔خاندان کے قیام کا حق
۲۵ ۔ملکیت کا حق
۲۶ ۔تعلیم کا حق
۲۷ ۔میت کا حق
اس مختصر سی تحریر میں ان سارے حقوق کی تشریح و توضیح نہیں کی جا سکتی اس لئے صرف بنیادی حقوق کو حیطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کرونگا۔
اسلام اور انسان کے بنیادی حقوق:
--------------------------------------
بنیادی طور پر حقوق انسانی کے سلسلے میں اسلام کا موقف بنی نوع انسان کی زندگی،عزت ووقار اور مساوات پر مبنی ہے ۔
زندگی کے تحفظ کا حق:
---------------------------
دنیا میں انسان کا سب سے مقدم اور اہم حق یہ ہے کہ وہ زندہ رہے اور اسکی جان ہر اعتبار سے محفوظ رہو۔ اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ اسکی زندگی مطمئن و پرسکون ہو ۔ اور وہ خود ہر طرح بے خوف،خش حال اور فارغ البال ہو۔ کیوں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ عظیم نعمت ہے اور کسی بھی معاشرہ اور ریاست کی طرف سے فرد کو دیئے جانے والے جملہ حقوق اسکی زندگی کی بقا ہی پر موقوف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام مین زندگی کے تحفظ کا حق بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔ اور اسلام نے انسانی زندگی کے تقدس پر بہت زور دیا ہے۔اور قرآن حکیم میں بے شمار مقامات پر انسانی زندگی کی اہمیت اور تقدس کو بیان کیا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
﴿مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ ﴾ ۴
ترجمہ: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کریا۔ اور جس نے ایک جان کو جلا لیا اس نے گویا سب کو جلا لیا۔۵
اس آیت کریمہ میں انسانی زندگی کی قدر و قیمت بیان کی گئی ہے۔اسلام کے نزدیک انسانی زندگی کے تقدس کا یہ عالم ہے کہ ایک آدمی کا قتل پوری انسانیت کے قتل اور ایک فرد کی زندگی کا تحفظ پوری انسانیت کے تحفظ کے مترادف ہے۔
نیز پیغمبر اسلام ﷺ نے حجۃ الودع کے موقع پر اپنے آخری خطبہ میں تحفظ نفس کے سلسلے میں اسلام کا ابدی پیغام ان الفاظ میں دیا:
فان دمائکم و امواکم واعراضکم علیکم حرام کحرمۃ یومکم ہذا فی شہرکم ہذا فی بلدکم ہذا۔۶
ترجمہ: بے شک تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری عزت ایک دوسرے کیلئے ایسے ہی قابل احترامہیں جیسے آج کے دن کی حرمت اس محترم مہینے میں اس محترم شہر میں۔
اسلام کو انسان کی جان اس قدر عزیز ہے کہ اس نے ہر شخص کو نہ صرف یہ کہ دوسروں کی جان لینے سے منع کیا ہے، بلکہ خود اسے بھی اس بات کی تاکید کی ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کرے۔عبادت و ریاضت کی کثرت سے اگر اپنی جان کو مشقت و تکلیف دیتا ہے تویہ بھی اسلام کو پسند نہیں۔ چنانچہ محسن انسانیت،پیغمبر اسلام ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فان لجسدک علیک حقا ۔۷
ترجمہ: بیشک تمہارے اوپر تمہارے جسم کا حق ہے
عزت نفس اور اسکی حفاظت کا حق:
اسلام کے قائم کردہ معاشرے کی اہم خصوصیت باہمی اکرام واحترام ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو عزت نفس اور احترام کا حق عطا کیا ہے۔ چنانچہ قرآن مقدس میں انسانی عظمت و کرامت اور ساری مخلوقات پر انسان کی فضیلت و برتری ان لفظوں میں بیان کی گئی:
﴿وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلۡنَا لَکُمۡ فِیۡہَا مَعَایِشَ ؕ ﴾ ۸
ترجمہ: اور بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ان کو خشکی اور تری میں سوارکیا۔۹
انسان کو اسی عظمت و فضیلت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مسجود ملائک اور زمین میں اپنا نائب بنایا۔ انسان کی اسی عظمت و فضیلت کی وجہ سے اسے امانت الٰہی کا وہ بار گراں سپرد کیا گیا جس کے تحمل سے کائنات کی ساری چیزوں نے انکار کردیا تھا۔
اسلام نے نہ صرف عزت نفس کا حق عطا فرمایا ہے بلکہ اس کے تحفظ کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے کسی شخص کی عزت و وقار مجروح ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ ﴾ ۱۰
ترجمہ: اے ایمان والو! نہ مرد مرد سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں۔۱۱
نیز دوسری جگہ ارشاد ہوا:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ ﴾ ۱۲
ترجمہ: اے ایمان والو! بہت گمان سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔۱۳
قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیات کریمہ یہ تعلیم دے رہی ہیں کہ مسلم معاشرے کا کوئی بھی فرد کسی دوسرے کا مذاق نہ اڑائے اور نہ ہی بے عزتی کرے ۔ یونہی غیبت اور شخصی رازداری میں مداخلت کو بھی گناہ اور جرم قرار دیاگیا۔
مال و دولت اور اس کے تحفظ کا حق:
------------------------------------------
اسلام نے محض انسانی جان اور عزت و آبرو کی تحفظ پر ہی زور نہیں دیا ہے، بلکہ ہر شخص کو دنیا میں ترقی کرنے اور خوش حال زندگی بسر کرنے کا موقع بھی دیا ہے، وہ ہر شخص کیلئے ایسے اسباب و وسائل فراہم کرتا جن کے ذریعے وہ خود کو راحت بھی پہنچا سکتا ہے، اور تعمیر و ترقی اور فلاح و کامرانی کے سامان بھی۔ خدائے وحدہ لاشریک نے پوری زمین میں انسانوں کی معیشت کا ساز و سامان پھیلا دیا ہے جس سے سب ہی استفادہ کر سکتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلۡنَا لَکُمۡ فِیۡہَا مَعَایِشَ ؕ ﴾ ۱۴
ترجمہ: اور بیشک ہم نے تمہیں زمین میں جماؤ دیا اور تمہارے لئے اس میں زندگی کے اسباب بنائے۔۱۵
دوسری جگہ ارشاد ہوا:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ ﴾ ۱۶
ترجمہ: اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے۔۱۷
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم فرماتا ہے میں نے جو مال اپنے بندوں کو دیا ہے، اسے ان کیلئے حلال کردیا ہے۔ میں نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا مگر شیطان نے اس دین حنیف سے انہیں ہٹادیا۔اور میری حلال کردہ چیزوں کو ان پر حرام کردیا۔۱۸
نیز اسی آیت کریمہ کی تفسیر میں حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خاں نعیمی علیہ الرحمہ(المتوفی۱۹۷۱) فرماتے ہیں:
نماز، روزے کی طرح کھانابھی فرض ہے بلکہ اہم فرض کہ اس سے بقائے جان ہے اور جان سے سارے اعمال ہو تے ہیں۔ پھر جب کھانا فرض ہوا تو کمانا بھی فرض ، کیونکہ فرض کا موقوف علیہ موقوف ہوتا ہے جیسے نماز کیلئے وضو فرض۔۱۹
مال کے تحفظ کا حق:
----------------------
اسلام جس طرح انسان کی جان کو معزز و محترم اور بیش قیمت سمجھتا ہے، اسی طرح مال کو بھی محترم قرار دیتا ہے، وہ کسی بھی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے کے مال پر زبردستی اور نا جائز طور پر قبضہ کرلے۔ اسلام نے ان تمام ناجائز طریقوں کا سد باب کیا ہے جن سے لوگ دوسروں کا مال ہضم کرلیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے ایک مختصر سی آیت میں حرام خوری کی تمام شکلوں کی ممانعت و مذمت کردی، فرمایا:
﴿وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ ﴾ ۲۰
ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو۔۲۱
اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر(متوفی ۷۷۴ ھ) فرماتے ہیں
یہ آیت کریمہ اس امر پر دلیل ہے کہ حاکم کا حکم کسی معاملہ کی حقیقت کو شریعت کے نزدیک بدلتا نہیں، فی الواقع بھی واقع کے مطابق ہو تو خیر ورنہ حاکم کو تو اجر ملیگا لیکن اس فیصکہ کی بنا پر ناحق کو حق بنا لینے والا اللہ کا مجرم ٹھہریگا اور اس پر وبال باقی رہیگا۔ جس کا آیت مندرجہ بالا گواہ ہے کہ تم اپنے دعوے کو باطل ہونے کا علم رکھتے ہوئے لوگوں کے مال مار کھانے کیلئے جھوٹے گواہ گذار کر ناجائز طریقوں سے حکام کو غلطی کھلا کر اپنے دعوؤں کو ثابت نہ کیا کرو۔۲۲
نیز پیغمبر اسلام ﷺ نے ارشاد رمایا:
و اموالکم حرام علیکم۔۲۳
ترجمہ: اور تمہارا مال ایک دوسرے کیلئے قابل احترام ہیں ۔
الحاصل ناجائز طور سے جو بھی دوسروں کا مال لیا جائے یا جس کسی کے مال کو نقصان پہنچایا جائے اسلام اسے حرام قرار دیتا ہے۔اور مال کی حفاظت کو حکومت، عام لوگوں اور خود صاحب مال کی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔
تحفظ دین اور مذہبی آزادی کا حق:
----------------------------------------
کسی بھی معاشرے میں مذہبی آزادی اور اپنے ضمیر کے مطابق عمل کرنے کی سہولت ہی ایمان اور عبادت کی آزادی کی بنیادہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے شعور اور ضمیر کے مطابق مذہب اختیار کرنے کا حق رکھتا ہے۔اسلام زور زبردستی کے ساتھ تبدیلئ مذہب کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر نور اسلام اتنا واضح اور روشن ہو چکا ہے کہ حقیقت پسند اورمنصف شخص نظام کائنات میں ذرا سی غور و فکر کے بعد اسلام سے اپنا رشتہ استوار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اسلامی ریاست میں کوئی بھی شخص اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے اور اپنے مذہب کے مطابق عبادت بجالانے کا قانونی حق رکھتا ہے۔ اسلامی ریاست کسی بھی شخص کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اسلام نے ہر فرد کو مذہبی فرائض و رسومات کی ادائیگی کا پورا حق عطا کیا ہے۔اور اختیار مذہب میں کسی بھی نوعیت کے جبر واکراہ کو روا نہیں رکھا۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ﴾ ۲۴
تر جمہ : کچھ زبردستی نہیں دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے۔۲۵
اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابو الفداء عمادالدین اسماعیل بن عمر بن کثیر (المتوفی ۷۷۴ ھ)فرماتے ہیں کہ
یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ کسی کو جبرا اسلام میں داخل نہ کرو، اسلام کی حقانیت واضح ور وشن ہو چکی ہیں، اس کے دلائل و براہین بیان ہو چکے ہیں۔پھر کسی پر جبر اور زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جسے اللہ رب العزت چاہے ہدایت دیگا ، جس کا سینہ کھلا ہوگا، دل روشن اور آنکھیں بینا ہونگی، وہ تو خود بخود اس کا والا و شیدا ہو جائیگا، ہاں اندھے دل والے ، بہرے کان والے، پھوٹی آنکھوں والے اس سے دور رہیں گے ۔۲۶
نیز ارشاد ہوا
﴿اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۹۹﴾ ﴾ ۲۷
ترجمہ: تو کیا تم لوگوں کو زبردستی کروگے یہاں تک کہ مسلمان ہو جائیں۔۲۸
اعلان نبوت کے تیرہ سال بعد پیغمبر اسلام ﷺ نے مدینہ منورہ کے قبائل اوس و خزرج کے ساتھاایک باضابطہ تحریری معاہدہ کیا جو دنیا کا پہلا تحریری دستوری آئینی معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ اگرچہ بنیادی طور پر انصار کے دونوں بڑے قبائل اوس اور خزرج کے ساتھ تھا مگر اس میں مدینہ منورہ کے یہودیوں اور ان کے تین بڑے قبائل بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع کو بھی شامل کیا گیا۔ یہ دستور مسلم ریاست میں غیرمسلموں کے حقوق و اختیارات اور فرائض و واجبات کی اساس و بنیاد ہے۔اس دستور کے ذریعے پیغمبر اسلام ﷺ نے یہودیوں کو اپنے مذہب کے مطابق عمل سے تعرض نہیں فرمایا۔ چنانچہ اس معاہدہ کے ایک آرٹکل میں مذکور ہے
‘‘و ان یہود بنی عوف امۃ مع المؤمنین ، للیہود دینہم، و للمسلمین دینہم،موالیہم و انفسہم’’۲۹
ترجمہ: یہودبنی عوف اور ان کے حلفا و موالی سب مل کر مسلمانوں کے ساتھ ایک جماعت متصور ہونگے۔ یہودی اپنے دین پر رہنے کے مجاز ہونگے اور مومن اپنے دین پر کار بند رہینگے ‘‘۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ اور میثاق مدینہ کے اس آرٹکل سے یہ واضح ہوگیا کہ اسلام اپنی ریاست اور حدود ریاست میں کسی کو اپنے مذہب پر عمل سے روکتا اور خلل انداز نہیں ہوتا ۔ اور اسلام قبول کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ کیوں کہ ایمان تمام ضروریات دین کا زبان سے اقرار کرنے اور دل سے تسلیم کرنے کا نام ہے، جو اکراہ کی صورت میں مفقود ہے۔
مساوات اور انصاف کا حق:
ترازو کے دو پلڑے ہوتے ہیں اور انصاف کا تقاضہ ہے کہ ناپ تول میں دونوں برابر ہوں ، ان میں کمی بیشی نہ کی جائے، جس کا جو حق ہے اسے پورا پورا دیا جائے، چھوٹے بڑے، کمزور اور طاقتور کی تمیز و تفریق نہ کی جائے۔ حقوق کی ادائیگی میں امیر و غریب کے درمیان امتیاز نہ ہو، اصول کی تعمیل اور قوانین کے نفاذ بلا رعایت مکمل مساوات پر مبنی ہو۔یہی دنیائے انسانیت کو ہر زمانے اور مقام میں اسلام کا پیغام ہے۔
رنگ و نسل، عہدہ و دولت، قوم و قبیلہ، اور فرقہ وطبقہ کے تمام فطری اور بنیادی اختلافات کے درمیان اسلامی نظریۂ حیات نے انسانی برادری و برابری کا وہ آفاقی معیار پیش کیا جس سے بہتر عدل و مساوات کا کوئی تصور کبھی تجویز نہ کیا گیا اور نہ مستقبل میں کبھی کیا جا سکتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ ﴾ ۳۰
ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا تاکہ آپس میں پہچان رکھو۔بیشک اللہ کے یہاں تم میں عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔۳۱
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام حافظ عماد الدین ابوفداء اسمٰعیل بن کثیر دمشقی ( المتوفی ۷۷۴ ھ) فرماتے ہیں :
فجمیع الناس فی الشرف با النسبۃ الطینیۃ الیٰ آدم وحواء علیہما السلام سواء۔۳۲
ترجمہ: تمام لوگ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کی جانب خاکی نسبت کرتے ہوئے شرافت و کرامت میں برابر ہیں۔
نیز اسی آیت کی تفسیر میں حضرت علامہ شیخ اسمٰعیل حقی( المتوفی ۱۱۲۷ ھ) فرماتے ہیں:
اے لوگو! بیشک ہم نے تمہیں مرد اور عورت یعنی آدم و حوا علیٰ نبیناعلیہ السلام سے یا ہم نے تمہیں تمہارے ماں باپ سے پیدا کیا۔ (لھٰذا ) نسبت انسانیت میں تم سب برابر ہو مرد اور عورت کے ہونے کے لحاظ سے تو پھر نسب پر فخر کرنے سے کیا فائدہ؟۳۳
اور پیغمبر اسلام ﷺ نے خطبۂ حجۃ الودع کے موقع پر دنیا سے رنگ و نسل کے تفاخر ، عرب و عجم اور گورے و کالے کے درمیان امتیاز کے خاتمے کا اعلان اور عدل و انصاف کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
الا ان ربکم واحد و اباکم واحد الا لا فضل لعربی علیٰ عجمی ولا لعجمی علی عربی ولالاحمر علیٰ اسود ولا لاسود علیٰ احمر الا بالتقویٰ۔۳۴
ترجمہ: بیشک تمہارا رب ایک ہے، اور تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی ، اور نہ ہی سرخ کو کالے پر اور نہ کالے کو سرخ پر کوئی فضیلت ہے سوائے تقوی کے۔
قرآن و احادیث کی ان تصریحات سے یہ واضح ہوگیا کہ اسلام میں کسی کو ذت پات، رنگ و نسل کی بنا پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔
اسلام میں اجتماعی حقوق کا نظام:
----------------------------------------
انسان کے کچھ حقوق تو بنیادی نوعیت کے ہیں، جو تمام طبقات کے درمیان مشترک ہیں، کچھ حقوق وہ ہیں جو کسی خاص طبقہ یا خاص صورت حال سے متعلق افراد کیلئے ہیں۔چونکہ ہر انسان انس اور محبت کا دلدادہ ہوتا ہے جس کیلئے گھر، خاندان اور معاشرہ کی ضرورت پیش آتی ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ انسیت اور تعلق کی زندگی گذارنے کی اپنی فطری خواہش اور جذبے کی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔
اسلام نے انسان کی اجتماعی زندگی کو خوش حال بنانے کیلئے جو حقوق عطاکئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں
۱ ۔والد ین کے حقوق
۲ ۔اولاد کے حقوق
۳ ۔بیوی کے حقوق
۴ ۔بیوہ کے حقوق
۵ ۔ورثاء کے حقوق
۶ ۔مختلف افراد کا ایک دوسرے پر حق
۷ ۔رشتہ داروں کا حق
۸ ۔ہمسائے کا حق
۹ ۔یتیم کا حق
۱۰ ۔بے سہاروں کا حق
۱۱ ۔مقروض کا حق
۱۲ ۔مسافر کا حق
۱۳ ۔بیمار کا حق
۱۴ ۔مہمان کا حق
۱۵ ۔سیاسی حقوق
۱۶ ۔اقتصادی حقوق
۱۷۔غلام کے حقوق
۱۸ ۔قیدیوں کے حقوق
حقوق والدین:
-----------------
رشتے اور قرابت کے لحاظ سے جو حقوق انسان کو حاصل ہیں ان میں اسلام نے حقوق والدین کو مقدم رکھا ہے۔ حقوق والدین اس اعتبار سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے نہ صرف نسل انسانی بلکہ ہمارے گھر، سماج اور معاشرے کا آغاز ہوتا ہے۔اس لئے اسلام نے ہر شخص کیلئے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نرمی ، بردباری اور حسن سلوک سے پیش آئے۔ معاشرے میں انسان کو سب سے زیادہ والدین سے مدد ملتی ہے، والدین اپنی راحت اولاد کی راحت پر، اپنی خوشی اولاد کی خوشی پر، اپنی خواہش اولاد کی خواہش پر قربان کر دیتے ہیں۔علاوہ ازیں انکی شفقت اولاد کیلئے رحمت باری کا وہ سائبان ثابت ہوتی ہے جو اسے حوادث زمانہ سے پچا کر پرورش کرتی اور پروان چڑھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے دوامی طور پر ان کا ادب واحترام، تعظیم و توقیراور حسن سلوک کو واجب قرار دیا ۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾ ﴾ ۳۵
ترجمہ: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو ۔اور ماں باپ کیساتھ اچھا سلوک کرو ،اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔اور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں نے مجھے جھپٹن میں پالا۔۳۶
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
تاکیدی حکم الٰہی یہی ہے کہ عبادت اللہ ہی کی ہو اور والدین کی اطاعت میں سر مو فرق نہ آئے۔ یہ دونوں حکم ایک ساتھ جیسے یہاں ہیں ایسے ہی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہیں۔ جیسے فرمان ہے (اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ)۔ میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا احسان مند رہ۔خصوصاََ ان کے بڑھاپے کے زمانے میں ان کا پورا ادب کرنا،کوئی بری بات زبان سے نہ نکالنا یہاں تک کہ ان کے سامنے اف بھی نہ کرنا جو انہیں برا معلوم ہو، اپنا ہاتھ انکی طرف بے ادبی سے نہ بڑھانا بلکہ ادب، عزت اور احترام کے ساتھ ان سے بات چیت کرنا، نرمی اور تہذیب سے گفتگو کرنا، انکی رضا مندی کا کام کرنا، دکھ نہ دینا، ستانا نہیں، ان کے سامنے تواضع،عاجزی،فروتنی اور خاکساری سے رہنا،ان کے لئے ان کے بڑھاپے میں، ان کے انتقال کے بعد دعائیں کرتے رہنا، خصوصاََ یہ دعا کہ الٰہی ان پر رحم کر جیسے انہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی۔ ہاں ایمانداروں کو کافروں کے لئے دعا کرنا منع ہو گئی ہے گو وہ باپ ہی کیوں نہ ہوں۔۳۷
قرآنی آیات کے علاوہ بہت سی احادیث کریمہ میں پیغمبر اسلام ﷺ نے بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سألت النبی ﷺ ای العمل احب الی اللہ قال الصلوۃ علیٰ اوقاتہا قال ثم ای قال ثم بر الوالدین قال ثم ای قال الجہاد۔۳۸
ترجمہ: میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ خدا کے نزدیک کون سا کام زیادہ پسندیدہ ہے؟ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا ۔ میں نے پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا: والدین کے ساتھ بھلائی کرنا۔ میں نے کہا پہر کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔
اس حدیث پاک میں والدین کے ساتھ حسن سلوک دو عظیم اعمال کے درمیان مذکور ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ نے والدین کو کتنا عظیم اور معزز مقام عطا فرمایا ہے۔
حقوق اولاد:
---------------
نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿۷۴﴾﴾ ۳۹
ترجمہ: اور وہ جو عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دے ہماری بیبیوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔۴۰
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس آیۃ کریمہ میں بزرگ بندوں کی ایک دعا بیان ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں کہ ان کی اولادیں بھی ان کی طرح رب کی فرماں بردار، عبادت گزار، موحد اور غیر مشرک ہوں تاکہ دنیا میں بھی اس نیک اولاد سے ان کا دل ٹھنڈا رہے اور آخرت میں بھی یہ انہیں اچھی حالت میں دیکھ کر خوش ہوں۔ اس دعا سے ان کی غرض خوبصورتی اور جمال کی نہیں بلکہ نیکی و خوش خلقی کی ہے۔۴۱
اس آیت کریمہ میں حصول اولاد کیلئے اللہ کے حضور التجا کا طریقہ بتایا گیا ہے۔
اسلام نے جس طرح ماں باپ کو حقوق والدین سے نوازا ہے یونہی ان پہ اولاد کے حقوق بھی عائد کئے ہیں ۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے اولاد سے محبت و شفقت کو مومن کے کردار کا حصہ قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے بچوں کو جنت کا گلدستہ قرار دیا ہے۔ ایک مرتبہ اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے پیار کرتے دیکھا تو کہنے لگے میرے دس بیٹے ہیں مینے تو آج تک ان سے پیار نہیں کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :
من لا یرحم لا یرحم۔۴۲
ترجمہ: جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
اسلام نے نہ صرف اولاد سے محبت وشفقت اور حسن تربیت کی تعلیم دی بلکہ اولاد کو وہ سماجی اور معاشرتی حقوق عطاکئے جن کا بچوں کو زندہ درگور کرنے والے عرب معاشرے میں تصور بھی نا ممکن تھا۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اولاد کے حقوق کا یوں تذکرہ کیا ہے:
﴿وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ وَ عَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَ کِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ لَا تُکَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِہَا وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ﴾ ۴۳
ترجمہ: اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس، اس کیلئے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہے اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا ، پہننا ہے ۔ حسب دستور کسی جان پر بوجھ نہ رکھا جائیگا مگر اس کے مقدور بھر۔ ماں کو ضرر نہ دیا جائے اس کے بچے سے اور نہ اولاد والے کواسکی اولاد سے۔۴۴
نیز پیغمبر اسلام ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من لہ ولد فلیحسن اسمہ وادبہ، فاذا بلغ فلیزوجہ فان بلغ ولم یزوج فاصاب اثما فانما اثمہ علی ابیہ۔۴۵
ترجمہ: جس کے یہاں بچہ پیدا ہو تو چاہیئے کہ وہ اسکا اچھا نام رکھے اور اسے مؤدب بنائے، پس جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کردے۔ اگر بچہ بالغ ہو گیااور اسکی شادی نہ کی اور گناہ میں ملوث ہو گیا تو باپ بھی اس گناہ میں شریک ہوگا۔
ان آیات مقدسہ اور احادیث نبویہ سے معلوم ہوا کہ اولاد کی صحیح پرورش کرنا ، اچھی تعلیم و تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔
رشتے داروں کے حقوق:
--------------------------
پیغمبر اسلام ﷺ نے قرابت داروں سے حسن سلوک اور صلہ رحمی کی تعلیم دی ہے۔ رشتہ داری کے خاص حقوق متعین فرمائے ہیں۔قرآن کریم میں رشتہ داروں سے حسن سلوک کی کئی مقامات پر تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی ﴾ ۴۶
ترجمہ: ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں سے۔۴۷
نیز فرمایا:
﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی﴾ ۴۸
ترجمہ: بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی کا اور رشتہ داروں کے دینے کا۔۴۹
نیز فرمایا:
﴿وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ ﴾ ۵۰
ترجمہ: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے۔۵۱
نیز پیغمبر اسلام ﷺ رشتہ داروں سے حسن سلوک کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
من سرہ ان یبسط لہ رزقہ و ان ینسا لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ۔۵۲
ترجمہ : جو شخص اپنے فراخئ رزق اور درازئ عمر کا خواستگار ہے اسے صلہ رحمی کرنی چاہیئے۔
ان آیات کریمہ اور حدیث نبوی سے معلوم ہوا کہ اسلام رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔
پڑوسی کے حقوق:
---------------------
انسانیت کے تمدن کی بنیاد اشتراک عمل ، تعاون اور موالات پر قائم ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں ہر انسان ، دوسرے انسان کی مدد کا محتاج اور خواہاں ہے۔ اگر کوئی شخص بھوکا ہے تو انسیت اور فطرت کا تقاضہ یہ ہے کہ دوسرا شخص جو اس کے قریب ہے اسے اپنے کھانے میں شریک کرے، اگر بیمار ہے تو تیمارداری کرے۔ الغرض اسلامی تعلیم کے مطابق معاشرہ کے استحکام اور ترقی کا دار و مدار اس پر ہے کہ معاشرے کا ہر فرد خیر اور بھلائی کیامور میں ایک دوسرے کا مددگار بنے، اور ان کے باہمی روابط ہمدردی ،ایثارا ور قربانی پر مبنی ہوں۔ چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد ہے:
﴿وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ ﴾ ۵۳
ترجمہ: اور ماں باپ سے بھلائی کرو،اور رشتہ داروں، اور یتیموں ، اور محتاجوں، اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی سے۔۵۴
نیز پیغمبر اسلام ﷺ نے اسی جذبے اور روایت کیلئے ہمسائے کے حقوق متعین فرمائے اور ان کے حقوق کی اتنی زیادہ اہمیت بیان فرمائی کہ وہ ادائیگی کے لحاظ سے قرابت دارکی منزل میں پہنچ گیا۔ ارشاد فرمایا:
مازال جبرئیل یوصینی بالجار حتی ظننت انہ سیورثہ۔۵۵
ترجمہ: جبرئیل مجھے ہمسائے کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال آنے لگا کہ شاید اسے وارث بنادیا جائیگا۔
ایک دوسری حدیث پاک میں پڑوسی سے حسن سلوک اورب اچھا برتاؤ کو ایمان کی علامات میں سے ایک علامت قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ پیغمبر اسلام ﷺ کا فرمان ہے:
من کان یؤمن باللہ و الیوم الآخرفلا یؤذ جارہ۔۵۶
ترجمہ:جو شخص اللہ اور یوم آخرت پہ ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔
اس سے بڑھ کرپڑوسی کا حق اور کیا ہوسکتا ہے؟
دائرہ ہمسایہ:
------------------
میرے خیال سے یہاں حدود ِہمسایہ کاذکر افادہ سے خالی نہیں۔ جس طرح پڑوسی اور پڑوس کا اعتبار کسی شخص کے گھر کے ارد گرد سے ہوتا ہے ، یونہی اس کا اعتبار ہر اس جگہ پر بھی ہوگا جہاں جہاں اس شخص کا وجود ہوگا۔ مثلا آفس، کارخانہ،بازار وغیرہ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام میں پڑوسی کے حقوق کا دائرہ اس سے بھی وسیع ہے ۔مثلا ایک گاؤں دوسرے قریبی گاؤں کا پڑوسی ہے،ایک ریاست دوسری ریاست کا اور ایک ملک دوسرے ملک کا پڑوسی ہے۔ گویا اسلام نے پوری دنیا کو فلسفۂ پڑوسی کے مضبوط دھاگے میں پرو دیا ہے، تاکہ پڑوسی کا حق بجا لاتے ہوئے نہ صرف ایک فرد بلکہ عالمی پیمانے پر ہر شخص کی زندگی ایک خوشگوار ماحول میں ڈھل جائے۔
اسلام آفاقی مذہب ہونے کی حیثیت سے ہر عقیدے اور رنگ و نسل کے لوگوں کو جس انداز میں حقوق سے نوازا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اسلام نے جو انسانی حقوق کا مربوط نظام پیش کیا ہے وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات و رجحانات اور اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری،ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اور معاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو حقوق کسی فرد یا طبقہ کو لازماملنے چاہیئے اسلام وہ تمام ھقوق فراہم کرتا ہے اور انسان کے فطری تقاضوں کی بہتر انداز میں تکمیل کرتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ دنیا ہی کی کامیابی کا نہیں، آخرت کی فوز و فلاح کا بھی ضامن ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے دونوں جہاں کی کامیابی کیلئے کسی دستور اور کسی ضابطہ حیات کی چنداں ضرورت نہیں۔
====================
========================
مصادر و مراجع
=======
۱ ۔القرآن الکریم سورۃالنساء آیت ۳۶
۲ ۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۳ ۔تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر زیر تفسیر آیت ۳۶سورۃ النساء
۴ ۔القرآن الکریم سورۃالمائدہ آیت ۳۲
۵ ۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۶ ۔المجلد الاول من صحیح البخاری باب الخطبۃ ایام منی۔ ص ۲۳۴ ۔ مجلس البرکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
۷ ۔المجلد الاول من صحیح البخاری باب حق الجسم فی الصوم۔ص ۲۶۵ ۔ مجلس البرکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
۸ ۔القرآن الکریم سورۃ بنی اسرآئیل آیت ۷۰
۹۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۱۰ ۔القرآن الکریم سورۃالحجرات آیت۱۱
۱۱ ۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۱۲ ۔القرآن الکریم سورۃالحجرات آیت۱۲
۱۳ ۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۱۴ ۔القرآن الکریم سورۃالاعراف آیت ۱۰
۱۵ ۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۱۶۔القرآن الکریم سورہ البقرہ آیت۱۶۸
۱۷۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۱۸ ۔تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر زیر تفسیر آیت۱۶۸سورہ البقرہ
۱۹ ۔تفسیر نعیمی زیر تفسیر آیت۱۶۸سورہ البقرہ
۲۰ ۔القرآن الکریم سورۃالبقرۃآیت۱۸۸
۲۱ ۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۲۲ ۔تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر زیر تفسیر آیت۱۸۸سورہ البقرہ
۲۳ ۔المجلد الاول من صحیح المسلم باب حجۃ النبی ﷺ ص ۳۹۷، مجلس البرکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور
۲۴۔ا لقرآن الکریم سورۃالبقرۃآیت۲۵۶
۲۵ ۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۲۶ ۔تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر زیر تفسیر آیت ۲۵۶ سورۃالبقرۃ
۲۷ ۔القرآن الکریم سورۃ یونس آیت ۹۹
۲۸۔ کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۲۹ ۔مختصر سیرۃ ابن ہشام لابی محمد عبد الملک بن ہشام (المتوفی ۲۱۳ ھ) ج ۱۔ص ۳۱۵ القاہرہ
۳۰ ۔القرآن الکریم سورۃ الحجرات آیت ۱۳
۳۱ ۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۳۲ ۔تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر زیر تفسیر آیت ۱۳ سورۃ الحجرات
۳۳ ۔تفسیر روح البیان زیر تفسیر آیت ۱۳ سورۃ الحجرات
۳۴۔ مسند احمد جلد ۵ حیث نمبر ۲۲۳۹۱
۳۵۔القرآن الکریم سورۃ بنی اسرآئیل آیت۲۳
۳۶۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۳۷۔تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر زیر تفسیر آیت۲۳ سورۃ بنی اسرآئیل
۳۸۔المجلد الاول من صحیح البخاری باب قولہ ووصینا الانسان بوالدیہ۔ ص۸۸۲ ۔ مجلس البرکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
۳۹۔القرآن الکریم سورۃالفرقان آیت۷۴
۴۰۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۴۱۔تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر زیر تفسیر آیت ۷۴سورۃ الفرقان
۴۲۔المجلد الثانی من صحیح البخاری باب رحمۃ الولد و تقبیلہ ومعانقتیہ۔ ص۸۸۷ ۔ مجلس البرکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ۴۳۔القرآن الکریم سورۃالنساء آیت۳۶
۴۴۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۴۵۔القرآن الکریم سورۃالبقرۃآیت۲۳۳
۴۶۔ کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۴۵۔شعب الایمان لابی بکر البیہقی حدیث ۸۶۶۶
۴۶۔القرآن الکریم سورۃ النساء آیت۳۶
۴۷۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۴۸۔القرآن الکریم سورۃالنحل آیت۹۰
۴۹۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۵۰۔القرآن الکریم سورہ بنی اسرآئیل آیت۲۶
۵۱۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۵۲۔المجلد الثانی من صحیح البخاری باب من بسط لہ فی الرزق لصلۃ الرحم۔ ص۸۸۵ ۔ مجلس البرکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
۵۳۔القرآن الکریم سورہ النساء آیت۳۶
۵۴۔کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن از امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی
۵۵۔المجلد الثانی من صحیح البخاری باب الوصایۃ بالجار۔ ص۸۸۹ ۔ مجلس البرکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
۵۶۔المجلد الثانی من صحیح البخاری باب من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلایؤذ جارہ۔ ص۸۸۹ ۔ مجلس البرکات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.