You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ان شاء اللہ کو انشاء اللہ کے طرز میں لکھنا کیسا ہے؟ اور ان دو طرز کتابت سے معنی میں کوئی فرق آتا ہے؟۔ بینوا توجروا (عبد اللہ قادری، کراچی)
الجواب بعون الملك الوھاب اللهم هدایة الحق و الصواب أقول و بالله التوفیق
من خلال قراء اتی للعدید من الموضوعات فی المنتدیات وكذلك تحادثی مع العدید من الزملاء فی برنامج الماسنجر وجدت أن اكثر الأخوان یقعون فی خطأ فادح وخطأ یدخل فی شيء من خصائص الله فكان لزاما علیّ أن أبین هذا الخطأ ألا وهو كتابة ” إن شاء الله ” و ” إنشاء الله ” فأیهما أصح وأیهما أوجب للكتابة ومعنی كل جملة منهما .
فقد جاء فی كتاب شذور الذهب لابن هشام أن معنی الفعل إنشاء أی إیجاد ومنه قوله تعالی ” إِنَّآ أَنشَأنَہُنَّ إِنشَآء ً ” سورة الواقعة 35 أی أوجدناها إیجادا . فمن هذا لو كبتنا ” إنشاء الله ” یعنی كأننا نقول أننا أوجدنا الله تعالی شأنه عز وجل وهذا غیر صحیح كما عرفنا ..
أما الصحیح هو أن نكتب ” إن شاء الله ” فإننا بهذا اللفظ نحقق هنا إرادة الله عز وجل فقد جاء فی معجم لسان العرب معنی الفعل شاء ، أی أراد ..فالمشیئة هی الإرادة فعندما نكتب إن شاء الله كأننا نقول بإرادة الله نفعل كذا..
ومنه قول تعالی ” وَمَا تَشَآء ُونَ إِلا أَنْ یَشَآء َ اللہُ ” سورة الإنسان 30 أی ما نرید شیئا إلا إن أراد الله عز وجل .
فهناك فرق بین الفعلین أنشأ أی أوجد والفعل شاء أی أراد فیجب علینا كتابة إن شاء الله وتجنب كتابة إنشاء الله للأسباب السابقة الذكر.وشكرا وتحیاتی للجمیع .
یہ کلمات ہم نے عربی میں کہہ کر دنیائے عرب و عجم کے عربی داں حضرات کو پیغام دے دیا اب ہم پاکستان و ہندستان اور وہ مسلمانان عالم جو اردو زبان جانتے ہیں انہیں سادہ انداز میں سمجھانے کی کوشش کریں گے۔
ان شاء اللہ یہ جملہ تین کلمات پر مشتمل ہے او ر تینوں کلمے الگ الگ علم نحو میں اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں (1) ان شرطیہ ہے (2) شاء فعل ماضی معروف کا صیغہ ہے (3) اللہ اسم جلالت شاء فعل کا ترکیب نحوی کے لحاظ سے فاعل ہے۔ اور ان تین کلمات کو الگ الگ ہی لکھا جاتا ہے ان شرطیہ کو فعل کے ساتھ ملا کر عرب و عجم میں کہیں بھی نہیں لکھا جاتا تھا۔ قرآن و احادیث اور عربی زبان میں تحریر (14) سو سالہ کتابوں میں الگ الگ ہی لکھا گیا ہے۔ لیکن اب عرب و عجم میں یہ ان شرطیہ کو شاء فعل کے ساتھ ملا کر لکھنے کی خطا بہت عام ہو گئی ہے۔ عرب ممالک کی ویب سائٹ اور غیر محتاط طرز کتابت کا یہ عنصر عجم میں خصوصا پاکستان و ہندستان میں بہت پھیل گیا ہے۔ درست رسم الخط ان شاء اللہ ہی ہے۔ انشاء اللہ لکھنا ہرگز ہرگز درست نہیں ہے۔ ایسا لکھنے سے اجتناب کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے کیونکہ اس طرز کتابت سے جو معنی بنتے ہیں وہ کفر ہیں۔
قرآن کریم کی آیات:
1. وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللَّہُ لَمُہْتَدُونَ (البقرۃ 2/70)
2. وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ آَمِنِینَ (یوسف 12/99)
3. قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّہُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِی لَکَ أَمْرًا (الکہف 18/69)
4. سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّہُ مِنَ الصَّالِحِینَ (القصص 28/27)
5. سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ (الصافات 37/102)
6. لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ آَمِنِینَ (الفتح 48/27)
ان مندرجہ بالا آیات سے واضح ہوا کہ قرآن کریم میں ان شرطیہ کو شاء ماضی کے صیغہ سے الگ کر کے لکھا گیا ہے۔
احادیث شریف میں ان شاء اللہ کا رسم الخط:
1. فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ إِنْ شَاء َ اللَّہُ (صحیح البخاری 407)
2. لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ یَدْعُوہَا فَأَنَا أُرِیدُ إِنْ شَاء َ اللَّہُ أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (صحیح مسلم 295)
3. إِنَّہَا لَرُؤْیَا حَقٌّ إِنْ شَاء َ اللَّہُ (سنن ابی داؤد 421)
4. أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ فَقَالَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ فَلَا حِنْثَ عَلَیْہِ (الجامع للترمذی 1451)
5. أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَی الْمَقْبُرَۃِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللَّہُ بِکُمْ لَاحِقُونَ (سنن النسائی 150)
6. اجْتَمَعَ عِیدَانِ فِی یَوْمِکُمْ ہَذَا فَمَنْ شَاء َ أَجْزَأَہُ مِنْ الْجُمُعَۃِ وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ (سنن ابن ماجۃ 1301)
وضاحت معنی (انشاء اللہ) :
ان کو جب شاء سے ملا کر لکھیں تو اس کی شکل (انشاء) ہو جاتی ہے جو کہ باب افعال کا مصدر ہے جس کا معنی ہے پیدا کرنا ، ایجاد کرنا۔ اس کا ماضی اور مضارع (انشأ ینشیٔ) ہے ۔ جس کا معنی ہے پیدا کرنا ایجاد کرنا ، ایسی اختراع جس کی سابق میں کوئی مثال نہ ہو۔ اللہ کریم فرماتا ہے۔
1. وَہُوَ الَّذِی أَنْشَأَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیلًا مَا تَشْکُرُونَ (المؤمنون 78)
2. قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّہُ یُنْشِئُ النَّشْأَۃَ الْآَخِرَۃَ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ (العنکبوت 20)
3. إِنَّا أَنْشَأْنَاہُنَّ إِنْشَاء ً (الواقعۃ 35)
ان تین آیات میں انشاء مصدر باب افعال اور انشأ ماضی معروف ینشء فعل مضارع آیا ہے جس کے معنی ہیں پیدا کرنا۔ اب تیسری آیت کو پیش نظر رکہیں جس میں کہ انشاء مصدر موجود ہے اس مصدر کی ہیئت اور انشاء اللہ لکھنے میں انشاء کی ہیئت ایک ہے۔ اب ہم ان شرطیہ کو جب شاء فعل سے ملا کر لکھیں گے تو معنی کفر کی طرف چلے جائیں گے اور ان شاء اللہ کہنے کا مقصد فوت ہو جائے گا بجائے مشیئت و ارادے کہ اس کا معنی کچھ اس طرح ہوجائے گا۔ انشاء اللہ ای کاننا نقول اننا اوجدنا اللہ (العیاذ باللہ) یعنی ہم نے اللہ کو ایجاد کیا پیدا کیا۔ ان شاء کا معنی مشیئت الہی اور ارادہ ہے جب کہ انشاء کا معنی پیدا کرنا ایجاد کرنا ہے۔ ان کو شاء کہ ساتھ ملا کر لکھنے میں اتنے سخت قبیح معنی بنتے ہیں لہذا اس طرز کتابت سے اجتناب تمام مسلمانوں پر لازم ہے۔ اور جہاں کہیں ایسا لکھا دیکھیں فوری درست کریں۔ کسی مسلمان کہ دل میں اس معنی کا خیال تک نہیں گزرتا ہوگا یہ ہمارا حسن ظن ہے لیکن لکھنے میں انشاء کے بجائے ان شاء الگ الگ کر کے لکھا جائے جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں لکھا ہے۔ تاکہ ملا کر لکھنے سے جو معنوی قباحت کا شائبہ ہے وہ پیدا نہ ہو۔ ہم یہاں نحوی بحث نہیں چھیڑنا چاہتے ورنہ بات طول اختیار کر جائے گی۔ ورنہ انشاء مصدر کو مضاف اور اسم جلالت کو مضاف الیہ کہہ کر ایک نئی بحث کا آغاز کیا جا سکتا ہے البتہ اس کا یہاں کوئی محل نہیں ہے۔ ہمیں عوام کو سمجھانا مقصود ہے علماء کرام اور دینی علوم حاصل کرنے والوں سے التماس ہے کہ وہ اس مسئلہ سے عوام اہلسنت کو آگاہ فرمائیں۔
انشاء مضاف اور اسم جلالت مضاف الیہ:
تفسیر طبری میں ہے: (إن عجبتم من إنشاء اللہ إیاکم ) ایک دوسرے مقام پر ہے: (إنّ فی إنشاء اللہ السحاب) ان دو عبارات میں انشاء موجود ہے اور دونوں میں معنی ہے پیدا کرنا۔ ان دونوں عبارات میں انشاء مصدر اسم جلالت فاعل کی طرف مضاف ہے اور معنی ہے اللہ کریم کا تم کو پیدا کرنا اور اللہ کریم کا بادل کو پیدا کرنا۔ ہمارا مقصد اس بات کو بیان کرنے سے یہ ہے کہ انشاء کو اگر مضاف بھی مان لیا جائے تب بھی ان شاء اللہ کہنے کا جو مقصد ہے وہ فوت ہو جاتا ہے کیونکہ ہم جب ان شاء اللہ کہتے ہیں تو گویا اپنے کام کو اللہ کی مشیئت اور ارادے پر معلق کرتے اور مدد طلب کرتے ہیں۔ جب کہ انشاء اللہ لکھ کر مضاف مضاف الیہ کا معنی کریں تو معنی ہوا اللہ کا پیدا کرنا جو کہ ہمارا مقصد نہیں ہے۔ جب ہم کسی بھی نیک کام کا ارادا کرتے ہیں تو ان شاء اللہ کہتے ہیں یہ ایک اسلامی طریقہ ہے سنت ہے۔ ہم اپنے ارادے کو اللہ کی مشیئت کے تابع کرتے ہیں یہاں ہمارا مقصد اللہ کریم کا خالق و باری ہونا بیان کرنا نہیں ہوتا۔
حضرت مفتی سید ابن مسعود شجاعت علی قادری علیہ الرحمہ کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے (انشاء العربیۃ) اس کا معنی ہے عربی زبان میں مہارت پیدا کرنا۔ جس طرح انشاء العربیہ میں انشاء لکھا جاتا ہے اگر یہی طرز انشاء اسم جلالت کے ساتھ لکھ دیں گے تو ہمارا مطلوب حاصل نہیں ہوگا ۔ مشیئت و ارادے سے پیدا کرنے ایجاد کرنے کی طرف معنی چلا جائے گا۔
قصیدہ بردہ شریف میں ہے: الحمد للہ المنشی الخلق من عدم
اس میں (المنشی) اسم فاعل کا صیغہ ہے انشاء سے جس کا معنی ہے پیدا کرنا۔ ترجمہ ہوگا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو خلق کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے۔ منشی کا معنی پیدا کرنے والا عدم سے وجود میں لانے والا۔ جوفرق نشأ اور انشأ میں ہے اتنا ہی فرق ان شاء اللہ اور انشاء اللہ لکھنے میں ہے۔ اس قدر وضاحت کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ عوام اہل سنت سمجھ گئے ہوں گے کہ آئندہ ان شاء اللہ ہی لکھنا ہے ۔ اور ہر اس لفظ سے اجتناب کرنا ہے جس میں لفظی یا معنوی خلل ہو خصوصا جب شان الوہیت و رسالت کا مسئلہ ہو تو بہت احتیاط چاہیئے۔ آخر میں ایک بات اور عرض کروں گا کہ موبائل یا ای میل کے ذریعہ جو پیغامات ارسال کیے جاتے ہیں ان میں ان شاء اللہ ہی لکھیں اور اگر انگریزی میں لکھیں تو (insha ALLAH) نہ لکھیں اور نہ ہی ملا کر (inshaAllah) لکھیں بلکہ اس طرح لکھیں: ان شاء اللہ (in sha Allah)
— — —
کتبه: ابو الفضل محمد نعمان شیراز القادری العراقی
الجمعة، 21 ذو الحجة، 1432 ھجری
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.