You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم امابعد
امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ دیوبندی اکابرین کی نظر میں
تحریر: ابو محمدشان ِرضاقادری برکاتی عفی عنہ
[email protected]
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ!
محترم قارئین کرام آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج کل کچھ دیوبندی حضرات اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلویعلیہ رحمہ پر تبرا بازی کرتے نظر آتے ہیںاور اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ کو معاذاللہ کافر و گستاخ کہتے ہیں حالانکہ یہ نظریہ ان کے اکابر علماء کا نہیں ،جن میںمولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی طیب قاسمی دیوبندی(مہتمم دارالعلوم دیوبند)،مولوی انور شاہ کشمیری، ضیاء الرحمن فاروقی(سرپرست اعلیٰ سپاہ صحابہ) ،مولوی ادریس ہوشیار پوری ،مولوی اسحق دیوبندی ،مولوی یوسف لدھیانوی (علامہ بنوری ٹائون کراچی)،مفتی عبدالستار دیوبندی (جامعہ خیرالمدارس )، مولوی محمد شفیع،وغیرہم ہیں ،
ان سب حضرات ِ دیوبندکے نزدیک اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ اور ان کے ماننے والے سنی ہیں۔
محترم قارئین کرا م !آپ حیرت میں ہونگے کہ اتنے بڑے بڑے دیوبندی علماء اگر اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ کے بارے میں اچھا نظریہ رکھتے ہیں تو پھر موجودہ شر پسند دیوبندی علماء اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ کو کافر و گستاخ کیوں کہتے ہیں؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ انگریز کے پیسوں پر پلنے والے کچھ مولویوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کیں۔جن پر علماء اہل سنت و جماعت نے ان کا خوب رد کیا جن میں سر فہرست اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ کی شخصیت ہے ۔اپنے اکابر سے اندھی عقیدت رکھنے والے ان دیوبندی حضرات سے اپنے علماء کی گستاخیوں کی صحیح تاویل تو نہ ہو سکی البتہ انہوں نے ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘کی مثل ہم اہل سنت و جماعت کو الٹا گستاخ کہنا شروع کر دیا ۔اس کارنامہ کو سرانجام دینے کے لئے ان حضرات نے علماء اہل سنت و جماعت اور بالخصوص اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ کی کتب میں درج عبارات کو کتروبرید کے ساتھ غلط رنگ دیتے ہوئے گستاخانہ و کفریہ قرار دیا ۔ان کی اس حرکت سے الحمد للہ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ اور دیگر علماء اہل سنت و جماعت کی شان میں تو کچھ فرق نہ آیا البتہ لوگوں پر ان حضرات دیوبند کے مزید دجل و فریب آشکار ہوگئے۔علماء اہل سنت و جماعت نے اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ اور دیگر علماء پر ہونے والے اعتراضات کے مدلل جوابات ارقام فرمائیں جو کسی بھی حقیقت پسند شخص کے لئے اطمینان کا باعث ہوں گے ۔لیکن میں نے دفاع اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ کے لئے دوسرے طریقہ پر لکھنے کا سوچا کہ کیوںنہ دیوبندی مذہب کے جید اکابر علماء سے اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ کی توثیق بیان کی جائے اور دیوبندی مذہب کے اکابرین(بڑوں) ہی کے قلم سے ان دیوبندی اصاغرین(چھوٹوں) کا رد کیا جائے جو معاذ اللہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ کو کافر و گستاخ کہتے وقت ذرا بھی خوف خدا محسوس نہیں کرتے۔
میری ان تمام دیوبندی حضرات سے گزارش ہے کہ وہ دیوبندیت کی عینک اتاڑ کر اگر میرے اس مضمون کو پڑھیں گے تو ان شاء اللہ ان کے لئے یہ مضمون ہدایت کا سامان ہوگا اور انہیں اپنے غلط نظریہ سے رجوع پر ہمت فراہم کرے گا اور اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ کی بے ادبی و گستاخی سے بچنے کی توفیق بھی ملے گی۔
ملاحظہ ہو کتاب ـــــــ’’ خطبات حکیم الاسلام جلد ۷‘‘از مولوی ادریس ہوشیارپوری( صدر مدرس مدرسہ تحفیظ القرآن الکریم)اس کتاب میں دیوبندی بیمار امت کے حکیم مولوی طیب قاسمی کے خطبات ہیں ۔اس کتاب کو کتب خانہ مجیدیہ ملتان نے شائع کیا ہے اور یہ دیوبندیوں کی مستند کتاب ہے اس پر کئی دیوبندی مولویوں کا تبصرہ (تائید)موجود ہے۔
جس میں پہلی تقریظ ـ’’ مفتی عبدالستا ر دیوبندی( رئیس دارالافتا جامعہ خیرالمدارس) کی ہے ۔ان صاحب نے اپنی تقریظ میں اس کتاب کی اور مولوی طیب قاسمی کی تعریف بھی کی ہے،اور اس کتاب کو مرتب کرنے والے مولوی ادریس کو خوب سراہا ہے،اسی طرح دوسری تقریظ مولوی یوسف لدھیانوی کی ہے اس نے بھی اس کتاب کو سراہا ہے،اور دیگر دیوبندی مولویوں کی تائید بھی موجود ہے جن میں مولوی فتح محمد ،مولوی اسحق ، اور مولوی شفیع دیوبندی کا تصدیق نامہ (صفحہ ۴۳)بھی ہے جس میں لکھا ہے کہ
’’الحمدللہ بندہ نے شروع سے آخر تک تمام مسودہ بنظر عمیق دیکھا اور متعدد مقامات پر برائے اصلاح نشاندہی کی ‘‘
اس عبارت سے پتہ چلا کے ان خطبات کو شائع کرنے میں بہت احتیاط برتی گئی اور اس کی اشاعت کے لئے بڑے بڑے دیوبندی مولویوں سے رابطہ کیا گیا ۔اور خوب گہری نظر سے پڑھنے کے بعد جو کچھ غلط نظر آیا اس کی اصلاح کردی جو کچھ صحیح تھا اسے شائع کر دیا ۔
اب یہ تو تھا اس کتاب کا تعارف کے یہ ایک مستند کتاب ہے ۔اس میں لکھا کیا ہے؟وہ آپ اب ملاحظہ فرمائیں ،
اس کتاب میں تین جگہوں پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمہ کو رحمۃ اللہ علیہ کہا گیا ہے
۱۔صفحہ ۲۵ فہرست میں عنوان نمبر ۱۱۹ میں لکھا ہے
’’ مولانا احمد رضا خان ؒ دیوبند کے فیض یافتہ ہیں‘‘
نوٹ: اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ کو دیوبند کا فیض یافتہ کہنے کا دعوی بے بنیادوبلا دلیل ہے۔
۲۔یہی عبارت صفحہ ۴۴۸ پر بھی لکھی ہے اور اسی صفحہ پرعنوان ’’اپنے کام سے کام‘‘ کے تحت لکھا ہے
’’ہم تو یہ کہتے ہیںکہ(ہم جمع کے لئے آتا ہے مولوی طیب قاسمی صاحب بتانا چاہتے ہیں کہ یہ موقف میرا ہی نہیں بلکہ ہمارا اہل دیوبند کا یہ موقف ہے :از ناقل)نہ ہم مولانا احمد رضا خان ؒ کو کوئی برا بھلا کہنا جائز سمجھتے ہیں نہ کبھی کہا ۔
اب کیافرماتے ہیںشر پسنددیوبندی اپنے اکابرعلما ء کے بارے میں جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمہ کو ناصرف مسلمان بلکہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے دعائیہ کلمات سے یاد کر رہے ہیں اور اعلیٰ حضرت کی توہین کو نا جائز کہتے ہیں(تعجب ہے ان دیوبندیوں پر جواعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃکی توہین کر کے بقول ان کے مفتی کے ناجائز کام کر رہے ہیں)
دیوبندیو! ابھی یہی نہیں مزید حوالہ دیکھو اور اپنے اس غلط موقف سے توبہ کرو۔
۳۔اسی کتاب کے صفحہ ۴۴۷ پر عنوان ’’بریلوی عالم کی توہین بھی درست نہیں‘‘ کے تحت لکھا ہے
اب مولانا احمد رضا خان صاحب ہیں ۔۔۔۔۔۔ایک دن حضرت تھانوی (تھانوی کے نام کے ساتھ دعائیہ کلمہ کو حذف کر دیا ہے گستاخ اس کلمہ کے قابل نہیں :از ناقل )کی مجلس میں ۔۔۔۔۔غالباََ خواجہ عزیزالحسن مجذوب صاحب نے یا کسی اور نے یہ لفظ کہا کہ :۔۔۔
’’ احمد رضا یوں کہتا ہے ‘‘۔
بس حضرت (یعنی اشرفعلی تھانوی )بگڑ گئے ،فرمایا۔عالم تو ہیں ہمیں توہین کرنے کا کیا حق ہے؟کیوں نہیں تم نے مولانا کا لفظ کہا ۔۔۔؟؟؟
غر ض بہت ڈانٹا ڈپٹا ۔۔۔۔بہرحال (اب مولوی طیب قاسمی صاحب اس واقعہ سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ) ہم تو اس طریق پر ہیں کہ قطعاََان(یعنی امام احمد رضا خان )کی بے حرمتی جائز نہیں سمجھتے ،کافر و فاسق کہنا تو بڑی چیز ہے ۔
موجودہ دیوبندیوں کو خاص کر ان عام سادہ لوح دیوبندیوں کو جو موجودہ شر پسند دیوبندی مولویوں کی باتوں میں آکر امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمہ کو برا بھلا کہتے ہیں ۔سمجھ جانا چاہئے کہ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ کو برا بھلا کہنا ان کو کافر کہنا صحیح نہیں۔ اور ان کو توبہ کرنی چاہئے اور اس مسئلہ میں اپنے اکابرین کا موقف اختیار کرنا چاہئے کہ مولوی اشرف علی تھانوی نے صرف امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ کے نام کے ساتھ مولانا نہ کہنے کی وجہ سے اپنے خلیفہ کو خوب ڈانٹا اگر کوئی اس کے سامنے اعلیٰ حضرت کو کافر کہہ دیتا تو ۔۔۔۔۔۔؟؟
۴۔اور اب ایک اور حوالہ اسی کتاب سے ملاحظہ ہو صفحہ ۴۶۷ پر عنوان
’’افراط و تفریط فرقہ واریت کی بنیاد ہے ‘‘
کہ تحت لکھا ہے کہ
’’ مولانا احمد رضا خان اور بریلویت کے بارے میں جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو آج تک کہیں ان کی تکفیر نہیں کی گئی بہر حال وہ مسلمان ہیں‘‘ ۔
اللہ اللہ! دیوبندیوں کے حکیم الاسلام نے تو ڈگری جاری کردی کے بریلوی یعنی سنی بھی مسلمان اور امام احمد رضا خان علیہ رحمہ بھی مسلمان ،اسے کہتے ہیں
’’جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے ‘‘
دیوبندیو! توبہ کرو ان کے خلاف بھونکتے ہو جن کی توہین کرنا تمہارے اکابرین کے نزدیک جائز نہیں۔’’میں کہتا ہوں اے دیوبندی میری نہ مان اپنے بڑے کی تو مان ‘‘
مولوی طیب قاسمی کے بارے میں دیوبندی امیر شریعت مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری کہتا تھا
’’مولانا طیب نہیں ان میں مولانا قاسم نانوتوئی کی روح بولتی ہے‘‘
گویا یہ بات بھی دیوبندیوں کے نزدیک مولوی طیب قاسمی کی اپنی نہیں بلکہ مولوی قاسم کی روح نے کہی ہے اب تو دیوبندیوں کو اپنے بانی دیوبندیت مولوی قاسم کی بات مان لینی چاہیے اور اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ کو کافر و گستاخ کہنے سے توبہ کرنی چاہئے ۔
۵۔اسی طرح دیوبندیوں کے ماہنامہ ’’الرشید‘‘ جلد ۱۱ ،شمارہ نمبر ۶ ،اپریل ۱۹۸۳ صفحہ ۱۱ ملاحظہ ہو:
’’کسی نے مولانا احمدرضاخاں مرحوم کے انتقال کی خبر مولانا تھانوی ۔۔کو سنائی آپ نے انتقال کی خبر سن کر فرمایا ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔مولانانے میرے اورمیرے بعض بزرگوں کے بارے میں کفر کا فتوی دیا لیکن میں الحمدللہ ان کے متعلق سوئے ظن نہیں رکھتاان کو جن عبارات پر اعتراض تھا ان کو ان عبارات کا مطلب نیک نیتی سے قابل اعتراض نظر آیااور ہم نیک نیتی کے ساتھ اس مفہوم کا انکار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائیں ۔‘‘
قارئین کرام آپ نے یہ حوالہ بھی ملاحظہ فرمایا اس میں بھی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ کے لئے مغفرت کی دعا کرنا خود دیوبندیوں کے حکیم الامت ومجدد مولوی اشرفعلی تھانوی سے ثابت ہے۔اب اگر اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ معاذ اللہ کافر یا گستاخ تھے تو کیا کافر و گستاخ کے لئے مغفرت کی دعا کی جاتی ہے؟کافر و گستاخ کے لئے مغفرت کی دعا کرنے والا کیا کافر نہیں؟کیا دیوبندی اب اپنے مجدد مولوی اشرفعلی تھانوی کو بھی کافر کہیں گے کہ اس نے بقول شر پسند دیوبندیوں کے ایک (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)گستاخ کے لئے دعائے مغفرت کی؟
مزید اس میں مولوی اشرفعلی تھانوی نے اپنے کفر کو چھپانے کی کوشش کی ہے ۔حالانکہ اس کا کفر صریح ہے جس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں علماء اہل سنت نے ان کا خوب تعاقب کیا اور کم و بیش ۲۵۰ علماء عرب شریف و برصغیر نے ان کے کفر کا فتوی دیا۔لیکن مولوی صاحب کو توبہ کی توفیق نہ ہوئی ۔
۶۔اسی تھانوی سے کسی نے پوچھا کہ بریلی والوں کے پیچھے نماز ہو جائیگی تو تھانوی صاحب نے کہا کہ ہاں ہو جائے گی ہم انہیں کافر نہیں کہتے اصل عبارت ملاحظہ ہو:
’’ایک شخص نے پوچھاکہ ہم بریلی والوں کے پیچھے نماز پڑھیں تو نماز ہو جائیگی یا نہیں۔فرمایا۔۔۔ہاں ہم ا ن کو کافر نہیں کہتے اگرچہ وہ ہمیں کہتے ہیں‘‘
(قصص الاکابر صفحہ۲۵۲ ،المکتبہ اشرفیہ جامعہ اشرفیہ ،فیروزپور روڈ ،لاہور)
۷۔اسی طرح مولوی سید احمد رضا بجنوری دیوبندی نے دیوبندیوں کے بہت بڑے علامہ مولوی انور شاہ کشمیری کے ملفوظات جمع کئے ہیں اس میں احمد رضا بجنوری صاحب مولوی انور شاہ کشمیری کا ایک جواب نقل کرتے ہیں جو اس نے ایک قادیانی کو دیا لکھتے ہیں کہ :
’’مختار قادیانی ـ‘‘نے اعتراض کیا کہ علماء بریلوی ،علماء دیوبندپر کفر کافتوی دیتے ہیں اورعلماء دیوبند علماء بریلوی پر۔اس پر شاہ صاحب نے فرمایا:
میں بطور وکیل تمام جماعت دیوبند کی جانب سے گذارش کرتا ہوںکہ حضرات دیوبندان کی تکفیر نہیں کرتے‘‘
(ملفوظات محدث کشمیری صفحہ ۶۹ ،ادارہ تالیفات اشرفیہ بیرون بوہڑ گیٹ ملتان)
اب تو مزید دو اکابر ِدیوبند کی گواہی آگئی کہ علمائے دیوبند علماء بریلوی کو کافر نہیں کہتے۔
۸۔مولوی ضیاء الرحمن فاروقی سابق سرپرست اعلیٰ سپاہ صحابہ اپنی کتاب ’’تاریخی دستاویز‘‘ صفحہ ۶۰ پر یوں عنوان دیتے ہیں :
’’شیعہ کے بارے میں پہلے اکابرین اسلام کے فتاویٰ جات‘‘
اور پھر ان اکابرین اسلام کا تذکرہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان صاحب سے متعلق صفحہ ۶۵ یوں عنوان دیتے ہیں:
’’فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاںرحمۃ اللہ علیہ‘‘
تو پتہ چلا کہ دیوبندیوں کے اس مستند عالم کے نزدیک بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اکابر علماء اسلام میں سے ہیں ۔لیکن کیا کریں چند شر پسند عناصر کے بہکانے کی وجہ سے آج کل کے بعض دیوبندی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ کو کافر و گستاخ سمجھتے ہیں معاذ اللہ۔
قارئین کرام یہ سب لکھنے کا مقصدان دیوبندی حضرات کے سامنے حقائق بیان کرنا ہے اور انہیں دعوت غور و فکر دینا ہے کہ ان کا نظریہ اعلیٰ حضرت مجدداعظم مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ سے متعلق صحیح نہیں ہے ۔اور ان کو کافر کہنا تو اللہ رب العزت کے ایک بہت بڑے ولی کی گستاخی اور توہین ہے ۔جیسا کہ مضمون میں دیوبندی حضرات ہی کی آٹھ مستند شہادتوں سے یہ بات ثابت کی گئی کے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ کی توہین بالکل بھی درست نہیں اور انہیں معاذ اللہ کافر کہنا تو خود پر کفرکو لازم کرنا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ میری اس تحریر کو مسلمانوں کے لئے نفع بخش بنائے اور دیوبندی حضرات کو اپنے غلط موقف سے رجوع کی توفیق عطا فرمائیں ۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.