You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
عید میلاد کے موقع پر خصوصی تحریر
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ کی ہمہ گیر خوبیاں
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
اللہ عزوجل نے نبی اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلیٰ بنایا۔ اسی طرح جمالِ صورت میں بھی یکتا و بے نظیر بنایا۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین خلوت و جلوت، سفر و حضر میں جمالِ جہاں آرا کو دیکھتے رہے، انہوں نے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضل و کمال کی جو تصویر کشی کی ہے اسے سن کر یہی کہنا پڑتا ہے ؎
کوئی تجھ سا ہواہے نہ ہوگا شہا
آپ سر کے بال سے لے کر پیر کے ناخن تک اللہ عزوجل کی قدرت کے مظہر ہیں۔ چند سطور سرکارِ دوعالم ا کے سراپائے اقدس کے حوالے سے باختصار نقل کرتے ہیں تا کہ ہمارے دلوں میں آپ کی الفت و محبت دوبالا ہو جائے۔
حضور ﷺ کی بچپن کی ادائیں
حضرت حلیمہ کا بیان ہے کہ آپ کا گہوارہ یعنی جھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتا تھا اور آپ بچپن میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے تو چاند آپ کی انگلی کے اشاروں پر حرکت کرتاجب آپ کی زبان کھلی تو سب سے اول جوکلام آ پ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا’’ اللہ اکبراللہ اکبرالحمد للہ رب العالمین وسبحان اللہ بکرۃواصیلا‘‘ بچوں کی عادت کے مطابق کبھی بھی آپ نے کپڑوں میں بول وبراز نہیں فرمایابلکہ ہمیشہ ایک متعین وقت پر رفع حاجت فرماتے اگر کبھی آپ کی شرمگاہ کھل جاتی توآپ رو رو کر فریاد کرتے اور جب تک شرمگاہ نہ چھپ جاتی آپ کو چین اور قرار نہیں آتا تھا اور اگر شرمگاہ چھپانے میں مجھ سے کچھ تا خیر ہو جا تی تو غیب سے کوئی شرمگاہ چھپا دیتاجب آپ اپنے پیروںپر چلنے کے قابل ہو ئے تو باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہو ئے دیکھتے مگر خود کھیل کود میں شریک نہیں ہوتے تھے لڑکے آپ کو کھیلنے کے لئے بلاتے تو آپ فرماتے کہ میں کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں ۔(مدراج النبوۃ)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی اور مسکراہٹ
امام ترمذی نے حارث بن جزء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے حضرت حارث نے کہا کہ میں نے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا ۔دوسری روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہنسی تبسم تھی ۔حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن فرماتی ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے دریافت کیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لاتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ کار کیا تھا ؟آپ نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ کریم الاخلاق تھے ہنستے بھی تھے اور مسکراتے بھی تھے ۔
سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاا نداز تکلم
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب گفتگو فرماتے تو آہستہ آہستہ ،ہر لفظ الگ الگ کرکے تلفظ فرماتے اور بسا اوقات ایک لفظ کویا جملے کو تین مرتبہ دہراتے تاکہ تمام سامعین اس کو پوری طرح سن بھی لیں اور اس کامفہوم سمجھ بھی لیں ۔ اثناء گفتگو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بکثرت تبسم فرمایا کرتے ۔حضرت عباس فرماتے ہیں جب حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو کرتے تو معلوم ہوتا کہ دہن مبارک سے نور نکل رہا ہے ۔دوران گفتگو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض اوقات اپنا سر مبارک آسمان کی طرف بلند کرتے اور’’ اللہ اکبر‘‘ کہتے ۔امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ بلا ضرورت گفتگو نہیں فرمایا کرتے تھے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سکوت بہت طویل ہوا کرتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پاک سے جوامع الکلم صادر ہوتے تھے نہ ان میں غیر ضروری طوالت ہوتی اور نہ ایسا اختصار ہوتا جس سے کلام کے معانی کو سمجھنا مشکل ہوجائے ۔ام معبد نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انداز تکلم کو خوب بیان کیا ہے فرماتی ہیں :جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموشی اختیار فرماتے تو پیکر وقار معلوم ہوتے اور جب گفتگو فرماتے تو ایک خاص قسم کی چمک روئے اقدس پر رونما ہوجاتی ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو بڑی حسین اور دلکش ہوتی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ ٔمبارک کی رنگت
وہ صحابہ کرام جو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ بیان کرنے میں بڑی شہرت رکھتے تھے ان میں سے جمہور صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ کی ابیض سے تو صیف کرتے اور بعض میں ہے’’ کَانَ اَبیض مَلِیحًا‘‘سفیدی لیکن ایسی سفیدی جس میں ملاحت ہوتی ۔حضرت علی مرتضیٰ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رنگت سفید تھی جس میں سرخی کی ملاوٹ تھی یعنی سرخ وسپید ۔ابو ہریرہ فرماتے تھے رنگت ابیض تھی یوں معلوم ہوتا تھاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاندنی سے ڈھالا گیا اور چاندنی سے اس لئے تشبیہ دی ہے کہ چاندنی کی سفیدی دوسری سفیدیوں سے اعلیٰ ہو تی ہے ۔حضرت انس فرماتے ہیں کہ اس میں ایسی سفیدی تھی جس میں سرخی کی ملاوٹ ہوتی ایسی سفید ی نہیں تھی جو آنکھوں کو ناگوارگزرے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابہ کے ساتھ نشست کا انداز
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے صحابہ کے درمیان تشریف لے جاتے تو اپنے گھٹنوں کو اپنی ہم نشینوں سے آگے نہ کرتے ۔جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کو تھام لیتا جب تک وہ خود اپنا ہاتھ واپس نہ کرتا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ہاتھ کو نہ چھوڑ تے ۔اور جو شخص بھی بارگاہ رسالت میں حاضر ی کاشرف حاصل کرتاجب تک وہ خود اٹھ کر نہ چلا جاتا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے نہ ہو تے ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ جب کہیں تشریف فرما ہو تے توخود درمیان میں بیٹھتے ۔صحابہ کرام حلقہ باندھے چاروں طرف بیٹھا کرتے ۔سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خطاب فرماتے تو کبھی ایک طرف کے لوگوں پر توجہ دیتے ،پھر دوسری طرف کے لوگوں پر پھر تیسری طرف کے لوگوں پر تو جہ فرماتے ۔حضرت ابو ہریرہ اور ابو ذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان میں بیٹھتے۔ ناواقف اعرابی آتے تو وہ یہ نہ سمجھ سکتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں تشریف فرما ہیں ۔انہیں لو گوں سے پوچھنا پڑتا ۔ہم نے بارگاہ رسالت میں عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجازت دیں تو ہم اونچا چبوترہ بنا لیں تا کہ اعرابی پہچان سکیں ۔چنا نچہ ہم نے ایک چبوترہ بنایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوتے اور ہم ایک دوسرے کے پیچھے صفیں بنا کر بیٹھ جاتے ۔
ہادی انس وجان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کھانے پینے کا انداز
بزار اور طبرانی نے ثقہ راویوں کے واسطہ سے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جب کھانے کی کوئی چیز بطور ہدیہ پیش کی جاتی تو پہلے پیش کر نے والا اس سے تناول کرتا اور پھرحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ۔اس احتیا ط کی وجہ یہ ہے کہ فتح خیبر کے بعد ایک یہودن نے حضور کی خدمت میں ایک بکری کا گوشت بھون کر پیش کیا اور اس میں زہر ملا دیا تھا سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس احتیاط کا التزام فرمایا تاکہ آئندہ کو ئی دشمن اسلام ایسی حرکت نہ کر بیٹھے ۔سرور عالم ﷺ جب کھانا کھانے کیلئے تشریف فرما ہوتے تو اس طرح نہ بیٹھتے جس سے غرور اور رعونت کا اظہار ہو بلکہ اس طرح نشست فرماتے کہ عجزو تواضع کا اظہار ہو ۔حضرت جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو مخاطب کرتے ہو ئے فرمایا کہ میں اس حالت میں نہیںکھاتا کہ میں تکیہ پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوں ۔ (رواہ البخاری احمد وغیر ہما )امام مسلم ابو دائود عبداللہ بن بسر سے روا یت کر تے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں ایک بکری پیش کی گئی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھٹنوں پر بیٹھے اور اس گو شت کو تناول فرمانے لگے ایک اعرابی نے دیکھا تو کہنے لگا بیٹھنے کی یہ صورت کیسی ہے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔مجھے اللہ تعالیٰ نے عزت والا بندہ بنایا ہے مجھے جابر اور متکبر نہیں بنایا ہے ۔
سو نے سے پہلے کے معمولات
حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو پاس بلا کر اہل اسلام کے مسائل پر باہمی مشاورت فرماتے ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کمرے میں نہ بیٹھتے جس میں اندھیرا ہو ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیا جلانے کا حکم دیتے ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے پہلے وضو فرمالیا کرتے ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے پہلے سرمہ استعمال فرماتے ۔ہر آنکھ میں تین تین سلائیاں ڈالتے ۔حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھی پشت کے بل استراحت فرماتے اور ایک پیر کو دوسرے پر رکھتے ۔اگر کو ئی شخص پیٹ کے بل سویاہوا ہوتا تو اسے اپنے پیر سے ضرب لگاتے اور فرماتے: دو زخیوں والی نیند سے جاگو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیٹ کے بل سونے کو ناپسند فرمایا اور اس کو جہنمیوں کا طریقہ بتایا ۔
زینت اور مصطفی جان ِرحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر اور حضر میں ان پانچ چیزوں کو نظر انداز نہیں کرتے تھے :آئینہ ،سرمہ دانی ،کنگھی ،تیل اورمسواک ۔ حضرت ام المومنین فرماتی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر کا ارادہ فرماتے تو میں یہ چیزیں تیار کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامان میں رکھواتی :خوشبودار تیل، کنگھی، آئینہ، قینچی، سرمہ دانی اور مسواک ۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب رات کے وقت بستر پر استراحت فرماتے تو اس سے پہلے مسواک کرتے وضو فرماتے اور بالوں میںکنگھی کرتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنگھی ہاتھی دانت کی بنی تھی جس سے حضورر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بالوں کو درست کیا کرتے تھے ۔حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آئینہ میں اپنے دل پذیر چہرے کو دیکھتے تو بارگاہ الٰہی میں عرض کرتے ۔اے اللہ تعالیٰ! تو نے میری ظاہری صورت کو حسین بنایا ہے الٰہی !میرے اخلاق کوبھی حسین بنادے اور میرا رزق میرے لئے وسیع فرما دے ۔
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.