You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
موجودہ مسلمانوں میں ایمانی پختگی کی کمی یامادیت پرستی کا زور؟
************************************
ہند میں ہوئے واقعاتِ ارتدادکے اسباب وعلل اور حل
آگرہ واقعہ ارتداد کا جائزہ شدھی تحریک کے تناظر میں
****************************************
’’گھرواپسی‘‘کے نام پر ہندوستان کی پُرامن فضاخراب کرنے کی کوشش
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
===============================
مذہب کا انسانی زندگی سے بڑاگہراتعلق ہے۔
مذہب کو انسانی زندگی میں بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔آثارقدیمہ،علم الانسان اور جغرافیائی تحقیقات نے یہ واضح کردیا کہ
اب تک انسانوں کی کوئی مستقل جماعتی ،قومی یاتہذیبی زندگی ایسی نہیں رہی ہے جو مذہب کی کسی نہ کسی شکل سے یکسر خالی رہی ہو۔یہی وجہ ہے کہ اس کا اظہار مختلف عقیدوں،مخصوص اعمال، رسومات، فنون لطیفہ کے مظاہر،مخصوص قوانین،اخلاقی ضابطوں،مخصوص رویوں،حرکات وسکنات اور بے شمار دیگر صورتوں میں ہوتاہے۔
انسانی زندگی میں مذہبی احساس کے اظہار کی لاتعداد اور متنوع شکلیں ہیں کہ اس کی کوئی مخصوص تشریح بہت مشکل معلوم ہوتی ہے۔
ڈنمارک کے ایک اسکالر ہوفڈنگ کے خیال میں مذہب تمام روایتوں میں اپنی انتہائی بنیادی صورت میں اعلیٰ قدروں کی بقا پر یقین کا نام ہے۔(مولاناآزادنیشنل اردو یونی ورسٹی ،بی اے سال اول،اسلامیات،پہلا پرچہ،ص:۱۲)
غرضیکہ زندگی کی تمام تر وسعت اور ہمہ گیری میں ہمیں مذہب کا ہی جلوہ دیکھنے کو ملتاہے۔ہم جیسے جیسے انسانی زندگی کا مطالعہ کریں گے ہمیں مذہب کی حقیقت کے نئے نئے عکس نظر آئیں گے۔
تمہیدی کلمات سے انسانی زندگی میں مذہب کی اہمیت وضرورت سے آگاہی ہوئی۔
تاریخی کتابوں کے ورق گردانی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے مذہب کی تبلیغ وتشہیر کے لیے جداجداطریقے اور حربے استعمال کئے ہیں۔
مگر اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے کبھی بھی بزورشمشیر اور طاقت کے بَل پر اپنی تعلیمات کی تبلیغ نہیں کی ۔ اکناف عالم میں اسلامی پرچم انسانیت کی اعلیٰ قدروں اور اخلاقی بنیادوں کے سبب بلند ہواہے ۔ہندوستان میں بھی اسلام کی اشاعت محض مجاہدین کے ذریعے نہیں بلکہ صحابۂ کرام ،تابعین عظام اور صوفیاکرام کے اخلاق ،کردار، روحانیت اور ان کی بے لوث خدمات کے ذریعے ہواہے۔
صدیوں تک مسلمانوں نے اس سرزمین پر حکومت کی مگر ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ ہمارے بادشاہوں،حکمرانوں اور علما ء نے بالجبر اسلام میں کسی کو داخل کیاہو۔
ہندوستانی باشندے کیوں دھرم تبدیل کرتے ہیں:
مسلمانوں نے جب ہندوستان میں قدم رکھاتو یہاں کے لوگ بھیدبھائو اور ذات پات کے نظام سے پریشان تھے،ان کے سامنے مسلمانوں کا سیدھاسادہ اور عدل ومساوات پر مبنی مذہب وعقیدہ آیا تو وہ اسلام کے دامن میں پناہ لینے لگے۔
اسی طرح عیسائی مبلغین نے خدمت خلق کے ذریعے ہندوستانی باشندوں کو اپنے سے قریب کیا ۔یہاں کے باشندے مسلم بنے یا عیسائی۔ان کی تعداد کبھی بھی اتنی زیادہ نہیں رہی کہ ہندوؤں کواکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہوجانے کا خطرہ پیداہوجاتا۔
تبدیلی ٔمذہب کی ایک اور وجہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ذریعے دلتوں اور بچھڑی قوم کا استحصال ہے۔ہندوستانی سماج کے اکثریتی طبقے میں چھوت چھات کا مرض شروع سے عام رہاہے اور وقت کے ساتھ اس میں کمی آنے کی بجائے شدت پیداہورہی ہے جس کے رد عمل میں آزادی کے 67؍سال کے دوران بارہاپسماندہ ذات کے لوگوں نے اجتماعی طور پر اپنامذہب تبدیل کرکے احتجاج کا طریقہ اپنایاہے۔
جیساکہ 1980ء کی دہائی کے دوران تامل ناڈو کے میناکشی پورم کے دلتوں کا واقعہ سامنے آیاتھاکہ انہوں نے اپنے تحفظِ عزتِ نفس کے لیے اسلام قبول کرلیاتھا۔
ڈاکٹر امبیڈکر صاحب اور ان کے ہمنواؤں کے مذہب تبدیلی کے ارادے کا واقعہ بھی بزرگوں کی زبانی سننے میں آتاہے، جس کا سبب بھی ان کی جماعت کا استحصال ہی بتایاجاتا ہے۔اُترپردیش کے میرٹھ،راجستھان کے چکواڑھ،ہریانہ کے جھنجھر،دارالحکومت دہلی اور دیگر کئی علاقوں میں تبدیلی ٔ مذہب کے مزید واقعات ہوتے رہے ہیں،ان سب کے پس ِپشت بھی انصاف کے حصول میں ناکام اور ظلم وستم کے شکار دلتوں کی برہمی کارفرماتھی۔سناتن دھرم کے مطابق ایساشخص جو ایک مرتبہ کسی اچھوت ذات میں پیداہوجائے وہ پوری زندگی اچھوت ہی رہتاہے یعنی اعلیٰ ذات کے ہندواِسے چھو نہیں سکتے۔ بلکہ ان پر ہر طرح کے ظلم کو رَوارکھتے ہیں۔اس بات کا ثبوت 12؍دسمبر2014ء کواردوٹائمزمیں شائع ایک رپورٹ کے مطابق شیڈولڈ کاسٹس اور شیڈولڈٹرائبس کمیشن کی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ صرف ایک سال کے دوران 23؍ہزار 742؍دلتوں پر مظالم کے مقدمات اعلیٰ ذات کے لوگوں پر درج کئے گئے۔ان میں سے 1034؍معاملے دلت خواتین کی عصمت دری اور3241؍مقدمات قتل کے تھے۔ان اعدادوشمار سے اندازہ ہوتاہے کہ
یومیہ تین وارداتیں دلت عورتوں کی عصمت دری اور نو واقعات دلتوں کے قتل کے اس ملک میں ہوتے رہے ہیں۔یہ وہ معاملے ہیں جن کا پولس ریکارڈ میں باقاعدہ اندراج ہے،ان کے علاوہ جو شکایات پولس میں درج نہیں ہوسکیں ان کی تعداد بھی ان سے کم نہیں ہوگی۔
جب غریب ومفلس افراد اونچی ذات والوں سے مظالم کا بدلہ نہیں لے سکتے تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ بچتاہے کہ وہ ہندومذہب کوطلاق دے کر بدھ مت،مسیحیت،اسلام یاسکھ مذہب میں پناہ لے لیں۔
امن کو خراب کرنے کی کوشش:
********************
ہندوستان کے باشندوں نے اسلام کی صداقت وحقانیت کو دیکھتے ہوئے اللہ کا پسندیدہ مذہب قبول کیاہے۔مگر افسوس!چند شرپسند عناصر اپنی شریر طبع کے سبب ہر دور میں مسلمانوں کو اپنے مذہب سے بیگانہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اترپردیش،ہریانہ ،راجستھان اوردہلی کے کئی علاقوں میں ’’دھرم پریورتن‘‘کے نام پر ہندوستان کی پُرامن فضاکو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کچھ دن قبل آگرہ کا واقعہ سامنے آیاکہ
سینکڑوں مسلمانوں کوراشن کارڈ اور آدھار کارڈبنانے کا جھانسا دے کر دھوکے سے ہندومت میں شامل کرلیاگیا۔
آگرہ میں ارتداد کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ بلکہ آریہ سماج کے لالہ منشی رام نے آگرہ میں ایک مرکز قائم کیاتھا جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو مذہب سے برگشتہ کیاجائے۔
پھر فروری 1925 ء میں آریہ مت کے بانی سوامی دیانند کی سوسالہ تقریب کے موقع پر مسلمانوں کو دین اسلام سے منحرف کرنے کے لیے مختلف کمیٹیاں بنائی گئیں۔
اس زمانے میں اخبار ’’تنظیم‘‘ امرتسر،’’زمیندار ‘‘لاہور اور ’’ملاپ‘‘لاہور وغیرہ میں لالہ ہردیال ایم اے کا مضمون شائع ہواجس سے ہندوذہنیت کھل کر سامنے آگئی۔اس مضمون کا یہ اقتباس قابل توجہ ہے:
’’اہل ہنود کا اسلام سے ہرگز اتفاق نہیں ہوسکتا۔اس لئے تمام مسلمانوں کوہرجائز وناجائز کوشش سے ہندوبناکر اہل ہنود کے کسی نہ کسی فرقے میں داخل کرلواور اس طرح سَوراجیہ حاصل کرلواور بھارت وَرش کو تمام غیر ہندوؤں سے پاک اور شُدھ کرلو اور ہندورِیاست قائم کرکے رعب،جاہ وحشم کی تخفیف اور زر کی لالچ سے تمام مسلمانوں کو گمراہ کرکے ہندوبنالو۔
(خلفائے محدث بریلوی،ص:47)
ان کے تبلیغ کا مقصد اپنے دھرم کاپرچار اور دھرم کی تبلیغ نہیں تھااور نہ ہی وہ اس کے پابند ہیں کہ جس کو مرتد کریں اس کو آریہ ہی بنائیں(آریہ سماج خود ذات پات کے بندھنوں کو توڑ نہیں سکا،اگر آریہ سماج اعلیٰ وادنیٰ کے فرق کو مٹاسکتاتو دلتوں کو دھرم پریورتن کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ہاں!یہ اور بات ہے کہ اسلام اپنی سچائی ان سے منواکر رہتا)۔
بلکہ اگر مسلمان بُت پرستی بھی قبول کرلے (معاذاللہ)تو بھی ان(ہندوؤں) کے لیے خوشی کی بات ہے،اسی کو وہ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ مقصد سناتن دھرم کی تبلیغ نہیں بلکہ مسلمانوں کی تعداد کم کرنا ہے۔جس نہج سے بھی میسر آسکے۔
شدھی تحریک کا پس منظر:
شدھی کے معنی ہے پاک کرنا۔ہندواس سے مراد یہ لیتے ہی کہ جو لوگ پہلے ہندو تھے،پھر اسلام قبول کرلیا،وہ ناپاک ہوگئے،انھیں پھر ہندوبنا کرپاک کیاجائے،اسی خیال سے انہوں نے اپنی تحریک کا نام ’’شدھی تحریک‘‘رکھاتھا۔انیسویں صدی تک ہندوازم میں دعوت وتبلیغ کا خصوصیت کے ساتھ کوئی شعبہ نہیں تھا۔
پنڈت سوامی دیانند سرسوتی نے ہندواِزم کی تبلیغ کا آغاز کیا ۔
تبلیغی کام ملکی پیمانہ پر 1920ء سے شروع ہوا۔خصوصاً راجپوتانہ علاقہ کو میدان ِ جنگ کی حیثیت سے منتخب کیاگیا۔
شاید اس کی وجہ یہ رہی ہوکہ مغل بادشاہ اکبر کا پایۂ تخت اکبرآباد (آگرہ) تھا، جس کے زیر اثر دین الٰہی کو فروغ حاصل ہواتھا۔اس عظیم فتنے کا خاتمہ علمائے کرام باالخصوص حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے کردیاتھا مگر اس کی بوباس یہاں کے باشندوں میں کچھ حد تک موجود تھی۔پنڈ ت دیانند سرسوتی اور آگرہ میں سوامی شردھانند کی ’’بھارتی شدھی سبھا‘‘کا صرف یہی مقصد تھا کہ مسلم راجپوتانہ قوم کو یہ ذہنی طور پر باور کرایا جائے کہ تم لوگ ہندوہو،تمہارے آباء واجداد ہندوتھے۔
شدھی تحریک کے اثرات رفتہ رفتہ اپنے اثرات مرتب کررہے تھے۔مسلمانوں کو مرتد بناکر ہندواِزم میں داخل کرنے کی اس تحریک کا طوفانی تبلیغی دورہ 1923ء سے شروع ہوا اور تقریباً ساڑھے چار لاکھ راجپوتانہ مسلمانوں کا شکار کیاگیا۔جگہ جگہ،گائوں گائوں اور قریہ قریہ جاکر بھولے بھالے مسلمانوں کو شدھی ہونے کے لیے کہاجاتاتھا،روپیہ ،پیسہ اور عورتوں کی لالچ بھی پیداکی جاتی تھی۔اور نہ جانے کس کس طرح کے حربے استعمال کئے گئے۔
آریوں کاطریقۂ تبلیغ:
آریوں کا شدھی کرنے کا طریقہ انتہائی گھنوناتھا۔یہ عام سی بات ہے اور ہر سنجیدہ شخص کہے گاکہ مذہب کی اشاعت اور تبلیغ لالچ سے نہیں کی جاتی بلکہ اس کا پیغام ہر آدمی کو پہنچائو،اپنے مذہب کی حقانیت وصداقت اس پر واضح کرو،یہاں تک کہ وہ پیش کردہ مذہب اختیار کرلے۔
مگر شدھی تحریک کے حامیوں نے دوسرے طریقے اختیار کیے۔
مثلاً:زراور زن کا استعمال،لٹریچرکا استعمال جس میں مذہب اسلام پر بے بنیاد الزامات کی یلغار تھی،کثرت کے ساتھ شدھی سبھائوں کا انعقاد،ایسے مدارس کا قیام جہاں آریائی تعلیم ذہن نشین کرائی جائے اور مسلمانوں کو باور کرایا جائے کہ تم لوگ ہماری قوم کے ہو،تمھارے باپ دادا ہندوازم پر تھے اور پانچواں طریقہ طبی کیمپ وشفاء خانوں کا قیام تاکہ ڈھونگی خدمت کے بہانے مقصد کا حصول ممکن ہو۔
متاثرہ علاقے:
ضلع میرٹھ، گوندی،سلائی،توڑی،سرادہ کھٹور،شاہ جہاں پور،پیالہ،لکوا،بنیانہ،سلطان پور،مراد پور،ضلع بلند شہر،آگرہ،سلطان پورہ،موضع کھڑوائی،موضع کھتینا،موضع نوبستہ،موضع فتح پورہ،موضع رائے بھا،موضع سیکچہ،ضلع متھرا،موضع بڑاولی،بندرابن،موضع نوگانواں،موضع سمیری،موضع اوندی،ضلع ایٹہ،اٹاوہ،جسونت نگر،مین پوری جیسے اضلاع،شہروں اورقصبوںکے علاوہ چھوٹے بڑے کئی دیہات شدھی تحریک کا شکار بن گئے اورلاکھوں افراد مرتد ہوگئے تھے۔
جماعت رضائے مصطفی کا ہنگامی اجلاس:
وصال اعلیٰ حضرت (1340ھ/ 1921ئ) کے بعد خطرناک فتنہ فتنۂ ارتداد (شدھی تحریک ) 1923ء میں سامنے آیا۔
اس فتنے کی سرکوبی کے لیے 8؍جمادی الاخرٰی 1342 ھ / 1923ء کو جماعت رضائے مصطفی بریلی کی جانب سے ایک ہنگامی جلسہ کاانعقاد ہوا۔
جس میں آریہ سماج کی شدھی تحریک کے فتنوں سے مسلمانوں کوبچانے کے لیے لائحہ عمل تیارکیا گیا۔ خلفائے اعلیٰ حضرت نے اس میں کلیدی کردار اداکیابالخصوص سرکار مفتی اعظم ہندعلامہ مصطفی رضا نوریؔ،مولاناحکیم غلام احمد سنبھلی،استاذ العلماء مولانارحم الٰہی منگلوری، صدر الافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی،نواب وحید احمد خان بریلوی،مولاناحشمت علی خان لکھنوی،حجۃ الاسلام مولاناحامد رضا خاں وغیرہم۔دھن دولت،طاقت وقوت اور افرادی کثرت سے لیس شدھی تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے ،ساڑھے چار لاکھ مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے 27؍جنوری 1923ء کو سرکار مفتی اعظم ہند کی قیادت میں محض دس جید علمائے کرام پر مشتمل وفد بے سروسامانی کی عالم میں اللہ ورسولﷺکی مدد پر کامل یقین واعتماد رکھتے ہوئے بریلی کی سر زمین سے روانہ ہوا۔
شدھی تحریک کے اثرات:
قافلے کی روانگی تک شدھی تحریک کے اثرات بہت سے علاقوں پر مرتب ہوچکے تھے۔جس کی بدولت پورے کے پورے گائوں کا نقشہ ہی بدل گیاتھا۔جماعت رضائے مصطفی کے وفد نے جومنظربیان کیاہے،اسے مولانامحمد شہاب الدین رضوی نے کتاب’’تاریخ جماعت رضائے مصطفی‘‘میں قلم بند کیاہے۔
اسی کتاب سے علاقہ ٔارتداد آگرہ کا ایک منظر سپردقلم ہے تاکہ احساس ہوکہ کتنے مسلم راجپوتوں کو آریوں نے مرتد کردیاتھا۔
’’علاقۂ ارتداد میں نومسلموں کی حالتیں دیکھ کر ہمارے مبلغین وفد کو وہ صدمے ہوئے کہ روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔نام پوچھئے تو بھوپ سنگھ،روپ سنگھ،ولی سنگھ، ہندوانی نام۔شکل دیکھئے تو داڑھی ندارد،دھوتی بندھی ہے،سرپر بالش بھر کی چٹیاہے،دروازوں پر رام رام لکھاہے،لٹیاتھال کھانے پینے کے برتن ہیں۔چوکا دیکھ کرکھاناپکایاجاتاہے،مسلمانوں سے چھوت مانتے ہیں،اپنے برتن انہیں چھونے نہیں دیتے،ان کے برتنوں کو ہاتھ نہیں لگاتے،وحشت کا یہ عالم ہے کہ پاس بیٹھنے اور بات سننے کو تیار نہیں۔(ص:17)
مولاناحشمت علی رضوی لکھنوی کے الفاظ میں:
’’ہم آبادی میں داخل ہوئے تو یہاں کے مسلمان کہلانے والے راجپوتوں کی حالت اس سے بھی بدتر پائی جو اخبارات میں دیکھی اور لوگوں سے سنی تھی۔مسلمانوں کے نام مرلی سنگھ،ہری سنگھ تھے۔سلام کی جگہ رام رام کہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ملاقات ہوتے ہی کہا’’صاحب ہم کو نماز ،روزہ نہ بتانا،اس سے خاندان بگڑجاتاہے اور ہماری راجپوتی میں فرق پڑتاہے‘‘۔ (ص:227)
مسلم راجپوتوں کی حالت دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر یہ معلوم ہوتاتھاکہ مکمل گائوں ہندوؤں کا ہے۔اسلام نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔بلکہ اسلام ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا ہے ۔ ہر چہارجانب مسلمانوں پر یلغار تھی اور میدان جنگ میں صرف جماعت رضائے مصطفی کا قافلہ دس نفوس قدسیہ پر مشتمل بے یارومددگار اسلام کی پاسبانی کرتاہوا،دربدر،گائوں گائوں ،قصبہ قصبہ اور قریہ قریہ جاتاہوا۔
وفدِ اسلام کودرپیش تکالیف:
ایک طرف شدھی تحریک کے کارکنان راجپوتی مسلمانوں کے ایمان کو لوٹ رہے تھے اور دوسری طرف ساڑھے چار لاکھ مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے دس جید علمائے کرام پر مشتمل وفد جی جان سے کوشش کررہاتھا۔
ایسے نازک حالات میں جب یہ وفد شورش زدہ علاقوں میں پہنچتاتو اسے طرح طرح کی اذیتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرناپڑتا۔بقول مولاناسید ایوب علی بریلوی :
’’مبلغین وفدِ اسلام جب ان کے گائوں میں پہنچتے ہیں تو ان پر کیچڑ پھینکتے ہیں،کتّے دوڑاتے ہیں،دوردور سے ہنسی اور تمسخر اڑاتے ہیں۔گائوں میں آریوں کے اغوا سے یہ انتظام کردیاجاتا ہے کہ مبلغین اسلام کو آٹا،دال،نمک،مرچ کوئی چیز میسر نہ آنے پائے۔
(تاریخ جماعت رضائے مصطفی،ص:218)
ان مصائب وآلام اور پریشانیوں کے باوجود وفدِ اسلام نے ہمت نہیں ہاری اور وہ بھوکے پیاسے رہ کر بھی اسلام کی تبلیغ واشاعت میں کمر بستہ رہے۔
فتح ونصرت:
تیزوتند دھوپ میں،خاردار علاقوں میں،پیاس کی شدت اور پیروں کے آبلوں پر صبر کرتے ہوئے اسلام کے ان جانباز مجاہدین نے رسول اللہﷺکی بھولی بھالی امت کا شیرازہ بکھرنے سے بچانے کی انتھک محنت کیں،ان کی مشقت رائیگاں نہیں گئی،اللہ کی مدد شامل ِ حال رہی،گنبد خضریٰ سے طلوع ہوتاہواانوار ورحمت کاسورج امید کی کرن بن کران نفوس قدسیہ پر رحمت ونور کی برسات کرنے لگا، مَنْ جَدَّوَجَدَ کے جلوے نظرآنے لگے،اسلام نے ایک بار پھر اپنی حقانیت وصداقت کالوہاغیروں سے منوایا،باطل کے شامیانے میں پناہ لینے والے مسلمانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، وہ تائب ہوئے اور اللہ کے پسندیدہ مذہب کو صدق ِدل سے دوبارہ قبول کیا۔
اس نورانی وعرفانی کیفیات کو وفد کی تحریرکردہ رپورٹ کے ذریعے پڑھئے اور ان کی محنت پر رب کے انعامات واکرامات کا جائزہ لیجئے۔
الحمدللہ!
مبلغین نے جس صبروتحمل کے نمونے پیش کئے وہ ان کے دلوں پر نقش ہوگئے اور اسلامی اخلاق نے ان کے قلوب کو اس طرح تسخیر کیاکہ انہوں نے اپنی خواہش سے نام بدلوالئے،چوٹیاں کٹوائیں،میلاد شریف پڑھوائے،باربار قرآن کریم سنااور پھر استدعاجاری رہی،سیر نہ ہوئے،طہارت اور نماز کے طریقے سیکھے،جہاں آب ودانہ بند کررکھا،وہاں اتنی بڑی بڑی جماعتوں سے نمازیں ہوئیں کہ شوکتِ اسلام نظرآنے لگی۔
(مرجع سابق،ص:218)
ارتداد کے اثرات کے خاتمے کے لیے منصوبہ:
اس تباہ کن فتنے کا خاتمہ تو بروقت ہوگیامگر اس کے اثرات انسانی اعمال وافعال پر مرتب ہوچکے تھے۔اس کے ازالہ کے لیے سرکار مفتی اعظم ہنداور ان کے رفقاء نے مذکورہ مقامات پر بڑے بڑے جلسے لیے،مدارس کا قیام کیا،اسلامی تعلیمات پر مبنی کتابچے،کتاب اور بااثرتحریریں مفت تقسیم کیں،متاثرہ علاقوں میں تبلیغی دوروں کا سلسلہ دراز رہا،ائمہ کو مسلمانوں کی ذہن سازی وتربیت کے لیے تیار کیا،بعض حساس علاقوں میں مبلغین نے رہائش اختیار کی تاکہ دوبارہ فتنہ سر نہ اُٹھاسکے،آریہ سماج کے پنڈتوں کو مناظرے کاباربار چیلنج کیاگیا مگر وہ نہ آئے جس سے اسلام کی حقانیت ہر ایک پر روشن ہوگئی ، اخبارات وتقریروں کے ذریعے سوئے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی۔
بحمدہ تعالیٰ!دس لوگوں نے تحریک کا آغاز کیاتھا،مگر ان مجاہدین کی پُردرد صدائوں نے وہ اثرات مرتب کئے کہ متعدد انجمنوں کے کارکنان،سرکردہ افراد ،علماء وحفاظ کی کثیر جماعت آپ کے دست وبازو بن کراس فتنے کی سرکوبی اور اسلام کی عظمت قلوب میں بٹھانے کے لیے تیار ہوگئے۔سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے انجمن مسلم راجپوت کا قیام فرمایاجس میں سربرآوردہ اور بااثرمسلم راجپوت جماعت رضائے مصطفی کی ہدایات پربے خبر ،ناواقف لوگوں کو غلط راہ سے بچانے کی کارآمد اور معتبر تدابیر اختیار کرنے لگے۔
آگرہ میں دوبارہ شورش:
نومبر ،دسمبر2014ء آگرہ میں 60؍خاندانوں کے 384؍مسلمانوں کو باقاعدہ ٹوپی اور برقعہ پہناکر ان کا شدھی کرن کیاگیا۔دراصل یہ واقعہ ملک گیر مہم کا حصہ ہے،جس کے تحت ان تمام مسلمانوں کو ہندودھرم میں واپس لایاجائے گاجنہوں نے تاریخ کے کسی بھی موڑ پر اسلام قبول کیاہے۔اس مہم کو گھر واپسی کا نام دیاگیاہے۔14؍دسمبرکو اردوٹائمز میں شائع ایک رپورٹ کے ذریعے اس بات کاانکشاف ہواکہ اس مہم کے لیے مکند راؤ پاشیکر کی قیادت میں 58؍پرچارکوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ گھر واپسی مہم کی کامیابی کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگائیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ گھر واپسی کے لیے ناسک کے کنبھ میں مذہب تبدیل کرنے والوں کو گوداوری ندی میں پاک کرنے کا منصوبہ بھی بنایاگیاہے۔
جو اگست 2015ء میں روبہ عمل آئے گا۔7تا9؍نومبر کو ناگپور میں منعقدہ میٹنگ کے مطابق آگرہ کے بعد اگلاہدف علی گڑھ ہے،جہاں 25؍دسمبر کرسمس ڈے کے موقع پر عیسائیوں کی شدھی کی جائے گی۔جس پر تبصرے وخبرے اور پابندی کے بیانات نیوز چینلوں کی سرخیوں میں دوڑ رہے ہیں۔جیساکہ بیان کیاجاچکاہے کہ ان کا مقصد دھرم کی تبلیغ نہیں ہے بلکہ مردم شماری میں اپنی تعداد کو بڑھاناہے تاکہ ’’رام راج‘‘کی راہ ہموارہوسکے۔دھرم جاگرن کمیٹی کے راجیشور سنگھ نے اس مہم کو 20؍اضلا ع میں چلانے کی تیاری کی ہے۔راجیشور سنگھ نے اپیل بھی کی ہے کہ ’’گھر واپسی مہم‘‘کی کامیابی کے لیے دل کھول کر چندہ دے۔
تبدیلی ٔ مذہب پر پابندی:
وقت کی یہ کیسی نیرنگی ہے کہ ایک طرف برادران وطن عیسائیوں اور مسلمانوں کو ورغلانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور دوسری طرف انہیں اپنوں کی تبدیلی ٔ مذہب سے اس قدر خوف ہے کہ کئی ریاستوں میں انہوں نے اپنی طاقت کے بل پر دھرم پریورتن پر قانوناًپابندی عائد کردی ہے۔ چھتیس گڑھ 2000ئ،گجرات 2003ء اور راجستھان 2008ء میں تبدیلی مذہب پر روک کا قانون نافذکیاگیا۔
اڑیسہ میں تبدیلی مذہب کے نام پر سنگھ پریوار کے لوگوں نے ایک انتہائی ظالمانہ کام انجام دیاتھا۔آسٹریلیائی مشنری گراہم اسٹنس کو اس کے دو معصوم بچوں کے ساتھ ایک گاڑی میں زندہ جلادیاگیاتھا۔گراہم اسٹنس پر اڑیسہ میں ہندوؤں کو عیسائی بنانے کا الزام لگایاگیاتھا۔مناکشی پورم کی شورش بھی سب پر عیاں ہیں،گزشتہ کچھ ماہ قبل میرٹھ اور مظفرنگر کے فسادات کی وجہ بھی قارئین نہیں بھولے ہونگے۔ایک جانب مسلمانوں پر لڑکیوں کوعشق میں پھنساکر مسلمان بنانے کا الزام دوسری جانب خود اسی عمل میں گرفتار۔(تفصیل کے لیے ماہنامہ سنّی دعوت اسلامی اکتوبر2014ء کے شمارے میں راقم کا مضمون’’ لَوجہاد:مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا بھگواپروپیگنڈہ‘‘کا مطالعہ کریں)۔
ہندوستان کاآئین کسی بھی شخص کو اپنی مرضی کے مطابق مذہب اختیار کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی اجازت دیتاہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی آئین میں ان لوگوں کے لیے سزاکا بندوبست بھی ہے جوکسی کولالچ دے کر یا خوف زدہ کرکے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
آگرہ کا واقعہ اسی ذیل میں آتاہے اور اسی لیے آگرہ پولس نے دھرم جاگرن منچ کے صوبائی کنوینر نندکشور بالمیکی کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
واقعۂ ارتداد کاتجزیہ:
ارتداد کے اس واقعہ کا حقیقی تجزیہ کیاجائے تو بہت سے ایسے عوامل سامنے آتے ہیں جن کے سبب یہ دلخراش حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ان عوامل کے حل کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے۔
(۱)موجودہ دور میں مسلمان طبقاتیت کا شکار ہورہے ہیں ۔ امیر و غریب کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
مالدار طبقہ زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات سے جی چُرا رہاہے جس کے سبب غریب طبقہ غیروں کے دَر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔
(۲)غریب طبقہ بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہے۔ان کا حال بھی تاریک ہے اور مستقبل بھی۔تاریخ گواہ ہے کہ بھوک سے بلبلاتے ہوئے بچوں کے آنسواورسسکیاں ماں باپ کو ارتدادکا راستہ بتاتے ہیں۔
حدیث پاک میں اس بات کی طرف واضح اشارات ملتے ہیں کہ بھوک انسان کوکفر تک لے جاتی ہے۔
(۳) کہیں مساجد کی کمی ہے جبکہ مساجد معاشرے میں قلعوں کا کام انجام دیتی ہیں۔مساجد کے ذریعے مسلمانوں کے عقائد واعمال کی اصلاح اور اخلاق وکردار کی تربیت کا فریضہ بخوبی ادا کیا جاتا ہے۔ مگر مساجد ومدارس کی کمی کے باعث دین سے دوری اوراسلامی تعلیمات سے ناآشنائی جیسے مسائل کا سامناہوتاہے۔
(۴)یہ لوگ ووٹرکارڈ او رآدھار کارڈ جیسی معمولی مگراہم چیزوں سے بھی محروم تھے۔ان کاغذات سے محرومی کے سبب غیر ملکی قرار دیئے جانے کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہتاتھا۔غیر مسلم جماعتوں نے انہی چیزوں کا سہارا لے کر انہیں مرتد بنانے کی کوشش کی ۔یہ بات ملکی اور عالمی مسلم تنظیموں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔مسلم تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ دعوت وتبلیغ کے ساتھ اس شعبے میں بھی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیں۔
کچھ باتیں اپنے آپ سے:
آخر میں ایک حتمی بات ہمیں اپنے آپ سے کرنی ہے۔غیر مسلموں کی سازشیں اپنی جگہ۔مگر کیاآج کے مسلمان ایمانی اعتبار سے اتنے کمزورہوگئے ہیں کہ چندسکّوں کی چمک دمک ایمان کو متزلزل کردے؟
چند کاغذات کی غیر موجودگی توحید کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دے؟
یا کسی کا ڈر وخوف ارتداد کی راہ کا مسافر بنادے؟
ہمارا ماضی تو ہم سے یہ کہتا ہے کہ جب بات ایمان کی آئی تو ہمارے اسلاف نے اپناگھر بار،مال ومتاع حتیٰ کہ اپنا وطن بھی چھوڑ دیا،صرف ایمان کی حفاظت کے لیے۔انہیں کھَولتے ہوئے تیل میں ڈال دیاگیا،سولی پر لٹکادیاگیا،ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دی گئیں،ان کی نظروں کے سامنے ننھّے ننھّے بچوں کے جسموں پر گھوڑے دوڑادیئے گئے،سروں کونیزوں پر چڑھادیاگیا،مگران غیور مسلمانوں کے ضمیر نے دامنِ مصطفیٰﷺ سے غداری کرنا گوارا نہیں کیا اور انہوں نے اپنی جان راہِ خدامیں نثار کردی ۔
دعوت دین کے جدید تقاضوں میں ہم اتنے الجھ کر رہ گئے ہے کہ ماضی میں جن بنیادوں پر ہمارے اسلاف نے دین کی عمارت کو مضبوط ومستحکم کیاتھا،ان بنیادوں پر ہم نے محنت کرنا کم یابالکل ہی بند کردی ہے۔اکابر واسلاف کے نقوش اور ان کا طریقۂ تبلیغ دن بہ دن دھندلا ہوتا جارہاہے،روحانی محفلوں کا انعقاد،تزکیۂ قلب کی مجلسیں،ذکرواذکار کی بزم اور خانقاہی تصور ناپیدہوتا جارہا ہے۔
دو چار گھنٹوں پر مشتمل دھنواں دھار تقاریر والے چند اجلاس، کچھ لڑیچر اور چھوٹی چھوٹی کامیابی پر بڑی بڑی تشہیر ہمارا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ دعوت دین کے جدید تقاضوں سے ہمیں انکار نہیں ہے مگر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ سب کچھ یہی نہیں ہے۔
ان چیزوں کے ساتھ صوفیائے کرام کا طریقہ،خانقاہی نظام اورانفرادی محنت جیسے اہم امور پر بھی خاطرخواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔آج کا مسلمان مادیت پرستی کا شکار ہوتاجارہاہے۔صرف بیان بازی سے اخلاق وکردار کو نہیں بدلاجاسکتا،آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نفسیات کو پَرکھاجائیں،اور ان خطوط پر متاع حیات کو گامزن کیاجائے جن پر چل کر امید افزانتائج حاصل ہو۔ہمارے معاشرے میں یہ بات بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی عالم یا شیخ کے ہاتھوں کوئی ایک غیر مسلم ایمان قبول کرلے تو مہینوں تک اخبار ورسائل اور سوشل میڈیاکے ذریعے واہ واہی بٹورنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔اس معاملے میں اخبار بازی سے پرہیز کرناچاہئے ،اس کے سبب نقصان ہونے کاقوی امکان موجودہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مادیت کے دَلدَل سے نکل کر دل ودماغ میں اسلام کی سچی محبت بٹھائی جائے،صحابہ واسلاف کی قربانیاں بتائی جائیں،دین کی اشاعت میں رسول اکرمﷺکے عطا کردہ درس کا ذکر کیاجائے تاکہ اسلام کے متعلق ایسی محبت پیداہو جس کے سامنے بڑی سے بڑی سازشیں اور طاقتیں زیروزبر ہوجائیں۔
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.