You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی کی کتاب "تحذیرالناس" کے خلاف میں تقریظ لکھی ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ
مولانا انوار اللّٰہ حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ حاجی صاحب کے خلیفہ تھے انہوں نے ایک کتاب "انوار احمدی" کے نام سے تصنیف فرمائی جس پر حاجی صاحب کی تقریز موجود ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کتاب پر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تقریظ اُردو میں بھی ہے اور عربی میں بھی۔
#اردو میں #تقریظ کا یہ حصہ خاص کر پڑھنے کے قابل ہے۔ تحریر فرماتے ہیں :
"ان دنوں ایک عجیب و غریب کتاب لاجواب مسمیٰ بہ "انوار احمدی" مصنفہ حضرت علامہ دوراں ، فرید دوراں ، عالم با عمل و فاضل بے بدل ، جامع علوم ظاہری و باطنی ، عارف باللہ مولوی محمد انوار اللّٰہ حنفی و چشتی سلمہ اللہ تعالیٰ فقیر (امداد اللہ مکی) کی نظر سے گزری اور بلسان حق ترجمان مصنف علامہ اول تا آخر سُنی ۔ اس کتاب کے ہر ہر مسئلے کی تحقیق محققانہ میں تائید ربانی پائی گئی کہ اس کا ایک ایک جملہ اور فقرہ امداد مذہب اورمشرب اہل حق کی کر رہا ہے اور حق کی طرف بلاتا ہے"۔(انوار احمدی)
#عربی میں #تقریظ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
-ترجمہ-
"میں نے اس کتاب کو سنت کریمہ کے مطابق پایا اس لیے میں نے اس کتاب کا نام انوار احمدی رکھا اور یہی میرا مذہب ہے اور اسکے مشتملات پر ہی میرے مسلک و مشرب کا مدار ہے۔ مقبول بندوں کا پروردگار اسے قبول فرمائے اور ذخیرہ آخرت بنائے".(انوار احمدی طبع فرید بک اسٹال لاہور)
اس کتاب "انوار احمدی" سے "تحذیرالناس" کے رد میں ایک اقتباس پیش کرنا چاہتے ہیں جن کی حقانیت پر شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ ماجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے مہر توثیق ثبت فرمائی ہے اور جنہیں اپنا مذہب ، اپنے مشرب کا مدار اور امداد مذہب اہل حق قرار دیا ہے ۔صاحب تحذیرالناس کو تنبیہ کرتے کرتے ایک مقام پر مولانا انوار اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی غیرت عشق و ایمان نقطہ انتہا کو پہنچ گئی ۔ تحریر فرماتے ہیں:
"بھلا جس طرح حق تعالی کے نزدیک صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہیں ویسا ہی اگر آپ کے نزدیک بھی رہتے تو اس میں آپ کا کیا نقصان تھا ۔ کیا اس میں بھی کوئی شرک و بدعت رکھی تھی جو طرح طرح کے شاخسانے نکالے گۓ۔ یہ تو بتایۓ کہ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے حق میں ایسی کون سی بدسلوکی کی تھی جو اسکا بدلہ اس طرح لیا گیاکہ فضیلت خاصہ بھی مسلم ہونا مطلقا ناگوار ہے ۔ یہاں تک کہ جب دیکھاکہ خود حق تعالی فرما رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب نبیوں کے خاتم ہیں تو کمال تشویش ہوئی کہ فضیلت خاصہ ثابت ہوئی جاتی ہے ۔جب اس کے ابطال(جھٹلانے) کا کوئی ذریعہ دین اسلام میں نہیں ملا تو فلاسفہ معاندین کی طرف رجوع کیا اور امکان ذاتی کی شمشیر دو دم (دو دھاری تلوار ) ان سے لے کر میدان میں آکھڑے ہوۓ۔ افسوس ہے اس دھن میں یہ بھی نا سوچا کہ معتقدین سادہ لوح کو اس خاتم فرضی کا انتظار کتنے کنویں جھنکاۓ گا ۔مقلدین سادہ لوح کے دلوں پر اس تقریر نامعقول کا اتنا اثر تو ضرور ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت میں شک پڑ گيا۔ چناںچہ بعض اتباع نے اس بنا پر الف لام خاتم النبیین سے یہ بات بنائی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف ان نبیوں کے خاتم ہیں جو گزر چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی انبیاء پیدا ہوں گے اور ان کا خاتم کوئی اور ہو گا۔معاذاللہ اس تقریر نے یہاں تک پہنچا دیا کہ قرآن کا انکار ہونے لگا ۔ ذرا تو سوچیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے سلسلے میں یہ سارے احتمال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نکالے جاتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کس قدر شاق گزرتا۔"(انوار احمدی ص 70، 71)
----
ماخوذ از "ختم نبوت اور تحذیر الناس" مصنفہ حضرت سید بادشاہ تبسم بخاری صاحب دامت برکاتھم العالیہ
---
-#نوٹ-»»»»» (مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی نے "تحذیرالناس" میں آیت کریمہ "وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ " کی ایسی تشریح کی گئی جس سے ناصرف مسلمانان برصغیر پاک و ہند بلکہ حرمین شریفین اور اس وقت کے عالم اسلام میں تشویش و اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ دراصل "تحذیرالناس" وہ متنازعہ اور فتنہ پرور کتاب ہے جس سے متعلق عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اس نے قادیانیت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا )
-#نوٹ- »»»»»» {حضرت مولانا انوار اللّٰہ حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ جنوبی ہند کی مشہور علمی شخصیت ہیں۔ وہ جامعہ نظامیہ(حیدرآباد دکن ) دائرۃ المعارف اور کتب خانہ آصفیہ کے بانی تھے ۔ اور اکابر دیوبند مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی اور مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی کے شیخ طریقت حضرت مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خلیفہ اجل تھے ۔ حضرت مولانا انوار اللّٰہ حیدرآبادی نے "انوار احمدی" کتاب 1888 ء میں مکی مکرمہ کے قیام کے دوران تصنیف فرمائی ، اس کتاب میں عقائد اہلسنت کو بڑے معقول اور دل پذیر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مولانا انوار اللّٰہ حیدرآبادی کو اپنی تقریظ میں ان الفاظ سے یاد کیا ہے:
"حضرت علامہ دوراں ،
فرید دوراں ،
عالم باعمل،
فاضل بے بدل،
جامع علوم ظاہری و باطنی ،
عارف باللہ مولوی محمد انوار اللّٰہ چشتی "}
-#نوٹ- »»»»»» {حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سچے پکے سنی صحیح العقیدہ مسلمان تھے، جب کہ ان کے دیوبندی خلفاء نے ان سے عقائد میں اختلاف کیا اور وہابیت اختیار کی اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیوں کا سلسلہ شروع کیا۔}
---
طالب دعا
ابوالبتول صفدر
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.