You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حافظ ملت حضرت علامہ عبد العزیز صاحب مراد آبادی علیہ الرحمۃ ہندوستان کے مشہور صوبہ یو۔پی کے ایک مغربی ضلع مراد آباد کے قصبہ بھوجپور میں ۱۸۹۴ ء میں پیدا ہوئے آپ دنیائے اسلام کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے بانی ہیں ۔
آپ نے اپنی عظیم جامعہ کو حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمۃ کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس کا نام جامعۃ اشرفیہ رکھا ۔
جس وقت آپ علیہ الرحمۃ نے استاد مکرم حضرت صدر الشریعہ علامہ امجد علی صاحب علیہ الرحمۃ (صاحب بہار شریعت ) کے حکم پر تکمیل درسیات کے بعد اعظم گڑھ ضلع کے قصبہ مبارکپور تشریف لائے اس وقت یہاں ایک مدرسہ مصباح العلوم کے نام سے قائم تھا ۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمۃ کی انتھک محنت کے باعث اللہ عزوجل نے اسی چھوٹے سے مدرسے میں برکت عطا فرمائی اور بالآخر یہ مدرسہ ایک عظیم الشان پھل دار درخت کی حیثیت سے جامعہ اشرفیہ کے نام سے متعارف ہوا ۔ چناچہ جامعہ اشرفیہ کے فاضلین آج بھی اس جامعہ کے پرانے نام کی طرف نسبت کرتے ہوئے دنیابھر میں مصباحی معروف ہیں ۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمۃ ایک عہد ساز اور انقلاب آفریں شخصیت کے مالک تھے۔ آپ علیہ الرحمۃ نے زندگی کے قیمتی لمحات انتہائی خوبی سے دین ومسلک کی خدمت و اہتمام میں گزارے ۔ آپ کے پاکیزہ اور روحانی کیفیات سے سرشار وجود میں بھی اخلاق کریمانہ اور اوصاف بزرگانہ کا ایک جہاں آباد تھا ۔ آپ اخلاق ، جہد مسلسل ، استقلال ، ایثار ، ہمت ، کردار ، علم ، عمل ، تقوی ، تدبر ، اسلامی سیاست ، ادب ، تواضع ، استغناء ، توکل ،قناعت اور سادگی جیسے بے پناہ اوصاف سے بھی مزین تھے ۔
جامعہ اشرفیہ کی تعمیر کے وقت جب آپ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں کوئی عقیدت مندکوئی ہدیہ وغیرہ پیش کرتا تو آپ علیہ الرحمۃ اسے جامعہ اور اس کے اساتذہ کے مصرف میں لاتے۔ چونکہ مبارکپور ، یوپی کا انتہائی گرم علاقہ ہے اور تعمیر کے وقت اشرفیہ میں پنکھے وغیرہ کی کوئی خاص سہولیات میسر نہ تھیں چنانچہ اگر کہیں سے آپ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں پنکھا پیش کیا گیا تو آپ علیہ الرحمۃ نے قبول فرما کر فورا ہی کسی ایسے مدرس کے ہاں بھجوا دیا جس کے کمرہ میں یہ سہولت میسر نہ تھی اور کبھی بھی یہ پسند نہ فرمایا کہ خود آرام میں رہیں اور اشرفیہ کے طلبہ ومدرسین محرومی کا شکار ہوں ۔
آپ علیہ الرحمۃ ایک انتہائی مالدار اور صاحب ثروت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر آپ علیہ الرحمۃ نے اپنی زمینوں کا بیش بہا حصہ اشرفیہ کے لئے وقف فرمادیا تھا ۔ یہاں تک کہ آپ علیہ الرحمۃ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ نے اپنے قیمتی ملبوسات فروخت کر کے بھی بسا اوقات اشرفیہ کے طلبہ کے لئے خوردونوش کا اہتمام فرمایا ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی قائم کردہ یونیورسٹی جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں وہ برکت رکھی کہ پاک وہند کے بڑے بڑے معروف اصحاب علم وفضل جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں بسر کئے ہوئے اپنے دور طالبعلمی پر ناز کرتے ہیں جبکہ جامعہ اشرفیہ بھی اپنے ان فاضلین پر خوب نازاں ہے ۔
ان ارباب علم وفضل میں معروف ترین شخصیات یہ ہیں:
۱۔ مفتی محمد شریف الحق صاحب امجدی علیہ الرحمۃ ۔
۲۔مفتی محمد وقار الدین صاحب علیہ الرحمۃ ۔ (سابقہ مفتی دار العلوم امجدیہ کراچی )
۳۔ مفتی ظفر علی نعمانی صاحب علیہ الرحمۃ ( بانی دار العلوم امجدیہ کراچی )
۴۔ علامہ ضیاء المصطفی الاعظمی دامت برکاتہم العالیہ(معروف محدث کبیر انڈیا )
۵۔قاری رضاء المصطفی الاعظمی دامت برکاتہم العالیہ
۶۔ علامہ عبد الرؤوف صاحب علیہ الرحمۃ ( مرتب فتاوی رضویہ )
۷۔ مفتی عبد المنان صاحب الاعظمی دامت برکاتہم العالیہ ( مرتب فتاوی رضویہ )
حافظ ملت علیہ الرحمۃ نے ۱۹۷۶ ء میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔ آپ علیہ الرحمۃ کے وصال کے وقت شہزادہ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ بلک پڑے اور پھوٹ پھوٹ کر روئے ۔ جب دل کو کچھ سنبھالہ ہوا تو دیر تک حافظ ملت علیہ الرحمۃ کے اوصاف حسنہ بیان فرماتے رہے ۔ پھر فرمایا ۔
اس دنیا سے جو لوگ چلے جاتے ہیں ان کی جگہ خالی رہتی ہے خصوصا مولوی عبدالعزیز علیہ الرحمۃ جلیل القدر عالم ، مرد مومن ، مجاہد ،عظیم المرتبت شخصیت اور ولی کی جگہ کا پر ہونا بہت مشکل ہے ۔ یہ خلا پر نہیں ہوسکتا ۔
( مفتی اعظم ہند ۔ ص ۱۳۹)
اللہ عزوجل ہمارے ان بزرگوں کو ہماری جانب سے بہترین جزا عطافرمائے اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین کی خوب خدمت کرنے کی توفیق بخشے ۔ خصوصا دینی مدارس قائم کرنے ، انہیں آباد کرنے اور ان سے بھر پور جانی ومالی تعاون کرنے کی ہمت وتوفیق دے ۔
امین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.