You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
از افادات: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ
پیش کش : ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
سبطینِ پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم ، شہزادگانِ بتول زہرا رضی اللہ عنہا حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب پر متعدد احادیث وارد ہیں ۔ ذیل میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکۃ امام احمدرضا بریلوی قدس سرہ کے مجموعہ "العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ" جلد 8 سے ماخوذ چند احادیث نشان خاطر کریں ۔
حدیث اول :
بخاری و مسلم ونسائی وابن ماجہ بطُرُقِ عدیدہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی
وھذا لفظ مؤلَّف منھا دخل حدیث بعضھم فی بعض
( آئندہ الفاظ ان متعدد روایات کا مجموعہ ہے، بعض کی احادیث بعض میں داخل ہیں۔ ت)
قال خرج النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فجلس بفناء بیت فاطمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا فقال اُدعی الحسن بن علی فحبستہ شیئافظننت انھا تلبسہ سخابا او تغسلہ فجاء یشتد وفی عنقہ السخاب فقال النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بیدہ ھکذا فقال الحسن بیدہ ھکذا حتی اعتنق کل منھما صاحبہ فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اللھم اِنیّ اُحبُّہ، فَاَحِبَّہ، وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہ، ۱؎ ۔
یعنی ایک بارسید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حضرت بتول زہرا رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور سید نا امام حسن رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو بلایا، حضرتِ زہرا نے بھیجنے میں کچھ دیر کی، میں سمجھا انھیں ہار پہناتی ہوں گی یا نہلا ررہی ہوں گی، اتنے میں دوڑتے ہوئے حاضر آئے ، گلے میں ہار پڑا تھا، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دست مبارک بڑھائے حضور کو دیکھ کر امام حسن نے بھی ہاتھ پھیلائے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو لپٹ گئے، حضور نے '' گلے لگا کر'' دعا کی: الہٰی! میں اسے دوست رکھتا ہوں تو اسے دوست رکھ اور جو اسے دوست رکھے اسے دوست رکھ۔ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی حِبِّہٖ وبارک وسلم۔
(۱؎ الصحیح للمسلم باب فضل الحسن والحسین مطبوعہ راولپنڈی ۲/ ۲۸۲)
حدیث دوم :
صحیح بخاری میں امام حسن رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی :
کان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا خُذ بیدی فیُقعدنی علی فخِذِہٖ ویقعد الحسین علٰی فخِذِہ الاُخرٰی ویَضُمُّناَ ثم یقول رب انی ارحمھما فار حمھما ۲؎ ۔
نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ران پر مجھے بٹھا لیتے اور دوسری ران پر امام حسین کو، اورہمیں '' لپٹا لیتے'' پھر دعا فرماتے : الہٰی! میں ان پر رحم کرتا ہوں تو ان پر رحم فرما۔
(۲؎ الصحیح البخاری باب وضع الصبی فی الحجر مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۸)
حدیث سوم :
اسی میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے:
ضَمَّنیِ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الٰی صدرہ ۔ فقال اللھم علمہ الحکمۃ ۱؎ ۔
سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے '' سینے سے لپٹایا'' پھر دُعا فرمائی: الہٰی! اسے حکمت سکھا دے۔
(۱؎ الصیح البخاری مناقب ابن عباس مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۵۳۱)
حدیث چہارم :
امام احمد اپنی مُسْنَد میں یعلٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:
ان حسناً وحُسینا رضی اﷲ تعالٰی عنہما یستبقا الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فضمّھما الیہ ۲؎ ۔
ایک بار دونوں صاحبزادے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آپس میں دوڑ کرتے ہوئے آئے حضور نے دونوں کو '' لپٹالیا''
(۲؎ مسند احمد بن حنبل مناقب ابن عباس مطبوعہ دارالفکر بیروت ۴/ ۱۷۲)
حدیث پنجم :
جامع ترمذی میں انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے حدیث ہے:
سُئِلَ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ای اھل بیتک احبّ الیک قال الحسن والحسین وکان یقول لفاطمۃ ادعی لی ابنی فیشمھما ویضمھما ۳؎ ۔
سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھا گیا حضور کو اپنے اہل بیت میں زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا: حسن اور حسین۔ اور حضور دونوں صاحبزادوں کو حضرت زہرا سےبلوا کر '' سینے سے لگالیتے '' اور ان کی خوشبوُ سُونگھتے، صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلیہم و بارک وسلم۔
(۳ جامع ترمذی مناقب الحسن والحسین مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۴۰ ۔ ۵۳۹)
حدیث ششم :
امام ابوداؤد اپنی سُنن میں حضرت اُسید بن حُضیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روای :
بینما ھو یحدث القوم وکان فیہ مزاحٌ بینما یضحکھم فطعنہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی خاصرتہ بعود فقال اصبرنی قال اصطبر قال ان علیک قمیصاً ولیس علیّ قمیص فوضع النبی صلی اﷲ تعالٰی عیہ وسلم عن قمیصہ فا حتضنہ و جعل یقبّل کشعہ قال انما اردت ھذا یارسول اﷲ ۱؎ ۔
اس اثنا میں کہ وہ باتیں کررہے تھے اور ان کے مزاج میں مزاح تھا، لوگوں کو ہنسارہے تھے کہ سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لکڑی ان کے پہلو میں چبھوئی، انھوں نے عرض کی مجھے بدلہ دیجئے، فرمایا: لے۔ عرض کی: حضور تو کرتا پہنے ہیں اور میں ننگا تھا۔ حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کرتا اُٹھایا انھوں نے حضور کو اپنی '' کنار میں لیا'' اور تہیگاہِ اقدس کو چُومناشروع کیا پھر عرض کی : یا رسول اﷲ! میرا یہی مقصود تھا۔
(۱؎ سنن ابوداؤد باب قُبلۃ الجسد ( کتاب الادب) مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/ ۳۹۳)
ع دلِ عشّاق حیلہ گر باشد
( عاشقو ں کے دل بہانہ تلاش کرنے والے ہوتے ہیں)
صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی کل من احبہ وبارک وسلم۔
حدیث ہفتم:
اسی میں حضرت ابوذر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے:
مالقیتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قط الاصافحنی وبعث الی ذات یوم ولم اکن فی اھلی فلما جئت اخبرت بہ فاتیتہ وھو علی سریرفالتزمنی فکانت تلک اجود واجود ۲؎ ۔
میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو حضور ہمیشہ مصافحہ فرماتے۔ ایک دن میرے بلانے کو آدمی بھیجا میں گھرمیں نہ تھا، آیا تو خبر پائی، حاضر ہوا، حضور تخت پر جلوہ فرماتھے '' گلے سے لگالیا'' تو زیادہ جیّد اور نفیس ترتھا۔
(۲؎ سنن ابوداؤد باب فی المعانقۃ (کتاب الادب) مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/۳۵۲)
حدیث ہشتم:
ابو یعلٰی اُم المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے راوی:
قالت رأیت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم التزمَ علیًّا وقبّلہ، وھو یقول بابی الوحید الشھید ۳؎ ۔
میں نے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا حضور نے مولٰی علی کو '' گلے لگایا'' اور پیار کیا ، اور فرماتے تھے میرا باپ نثار اس وحید شہید پر۔
(۳؎ مسند ابو یعلٰی مسند عائشہ مطبوعہ موسس علوم القرآن بیروت ۴/ ۳۱۸)
حدیثِ نہم :
طبرانی کبیر اور ابن شاہین کتاب السُّنُّۃ میں عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں:
دخل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واصحابہ غدیرا فقال لیسبح کل رجل الی صاحبہ فسبح کل رجل منھم الٰی صاحبہ حتی بقی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وابوبکر فسَبَّحَ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الٰی ابی بکر حتی اعتنقہ فقال لو کنت متخذا خلیلا لا اتخذت ابا بکر خلیلا ولکنّہ صاحبی ۱؎
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور حضور کے صحابہ ایک تالاب میں تشریف لے گئے، حضور نے ارشاد فرمایا: ہر شخص اپنے یار کی طرف پَیرے۔ سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق باقی رہے، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم صدیق کی طرف پَپر کے تشریف لے گئے اور انھیں گلے لگا کر فرمایا: میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرکو بناتا لیکن وہ میرا یار ہے۔ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی صاحبہٖ وبارک وسلم۔
(۱؎ طبرانی کبیر حدیث ۱۱۶۷۶ و ۱۱۹۳۸ مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱/ ۲۶۱ و ۳۳۹)
حدیث دہم :
خطیب بغدادی حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی:
قال کنا عند النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال یطلع علیکم رجل لم یخلق اﷲ بعدی احدا خیرا منہ ولا افضل ولہ شفاعۃ مثل شفاعۃ النبیین فما برحنا حتی طلع ابوبکر فقام النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقبّلہ والتزمہ ۲؎ ۔
ہم خدمت اقدس حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے، ارشاد فرمایا: اس وقت تم پر وہ شخص چمکے گا کہ اﷲ تعالی نے میرے بعد اس سے بہتر وبزرگ تر کسی کو نہ بنایا اور اس کی شفاعت شفاعتِ انبیاء کے مانند ہوگی ، ہم حاضر ہی تھے کہ ابو بکر صدیق نظر آئے سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے قیام فرمایا اور صدیق کو پیار کیا اور '' گلے لگایا''
(۲؎ تاریخ بغداد ترجمہ ۱۱۴۱ محمد بن عباس ابوبکر القاص مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت ۳/ ۲۴ ۔ ۱۲۳)
حدیث یازدہم :
حافظ عمر بن محمد ملاّ اپنی سیرت میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲتعالٰی عنہما سے راوی :
قال رأیت رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واقفاً مع علی بن ابی طالب اذااقبل ابوبکر فَصاَفحہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وعانَقہ، و قبّل فاہ فقال علی اتقبل فاابی بکر فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا ابا الحسن منزلۃ ابی بکرٍ عندی کمنزلتی عند ربیّ ۱؎ ۔
میں نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ، کے ساتھ کھڑے دیکھا اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ حاضر ہوئے، حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے مصافحہ فرمایا اور ''گلے لگایا'' او ران کے دہن پر بوسہ دیا ۔ مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ نے عرض کی: کیا حضورابو بکر کا مُنہ چومتے ہیں ؟ فرمایا: اے ابوالحسن ! ابوبکر کا مرتبہ میرے یہاں ایسا ہے جیسا میرا مرتبہ میرے رب کے حضور۔
(۱؎ سیرت حافظ عمر بن محمد ملاّ)
حدیث دوازدہم (۱۲) :
ابن عبدِ ربہّ کتاب بہجۃ المجالس میں مختصراً اور ریاض نضرہ میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے مطَوَّلاً، صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ابتدائے اسلام میں اظہار اسلام اورکفار سے حرب وقتال فرمانا،اور ان کے چہرۂ مبارک پر ضربِ شدید آنا،اس سخت صدمے میں بھی حضور اقدس سید المحبوبین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا خیا ل رہنا،حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دارالارقم میں تشریف فرما تھے اپنی ماں سے خدمتِ اقدس میں لے چلنے کی درخواست کرنا مفصلاً مروی ، یہ حدیث ہماری کتاب مَطْلَعُ الْقُّمَریْن فی اَباَنَۃِ سَبْقَۃِ الْعُمَرَیْن ( ۱۲۹۷ھ ) میں مذکور، اس کے آخر میں ہے:
حتی اذا ھدأت الرجل وسکن الناس خرجتابہ یتّکی علیھا حتی ادخلتاہ علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فانکبّ علیہ فقبّلہ وانکب علیہ المسلمون ورقّ لہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم رَقّۃ شدیدۃ ۲؎ ۔الحدیث۔
یعنی جب پہچل موقوف ہوئی اور لوگ سورہے ان کی والدہ اُم الخیر اور حضرت فاروق اعظم کی بہن ام جمیل رضی اﷲ تعالٰی عنہما انھیں لے کر چلیں،بوجہ ضعف دونوں پر تکیہ لگائے تھے، یہاں تک کہ خدمت اقدس میں حاضر کیا، دیکھتے ہی '' پروانہ وارشمع رسالت پر گر پڑے''( پھر حضور کو بوسہ دیا) اور صحابہ غایت محبت سے ان پر گرے۔حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے لئے نہایت رقت فرمائی۔
(۲؎ الریاض النضرۃ ذکرام الخیر مطبوعہ چشتی کتب خانہ فیصل آباد ۱/ ۷۶)
حدیث سیز دہم (۱۳):
حافظ ابو سعید شرف المصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:
قال صعد رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم المنبر ثم قال این عثمان بن عفان؟ فوَثَبَ وقال انا ذایارسولَ اﷲ فقال اُدْنُ مِنِّیْ فَدَنَا مِنْہُ فَضَمَّہ اَلٰی صَدْرَہٖ وقَبَّلَ بَیْنَ عَیْنَیْہِ ۱؎ الخ
حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے پھر فرمایا: عثمان کہاں ہیں؟ عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ بے تابانہ اُٹھے اور عرض کی: حضور ! میں یہ حاضر ہوں۔ رسول اﷲ صـلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس آؤ۔ پاس حاضر ہوئے۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے '' سینہ سے لگایا'' اور آنکھوں کے بیچ میں بوسہ دیا۔
(۱؎ شرح المصطفی ( شرف النبی) باب بیست ونہم میدان انقلاب تہران ص ۲۹۰)
حدیث چہاردہم (۱۴) :
حاکم صحیح مستدرک میں بافادہ تصحیح اور ابویعلٰی اپنی مسند اور ابو نعیم فضائل صحابہ میں اور برہان خجندی کتاب اربعین مسمّی بالماء المَعِین اور عمر بن محمد ملاّ سیرت میں جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روای:
قال بینا نحن مع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی نفر من المھاجرین منھم ابوبکروعمر و عثمان وعلی و طلحۃ والزبیر و عبدالرحمٰن بن عوف وسعدبن ابی وقاص فقال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لِیَنْھَضْ کُلُّ رَجُلٍ الی کفوہ ونَھَضَ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الی عثمان فاعتنقہ،وقال اَنْتَ وَلِیّی فِی الدُنْیاَ والْاٰخِرَۃ ۲؎ ۔
ہم چند مہاجرین کے ساتھ خدمتِ اقدس حضور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے حاضرین میں خلفائے اربعہ و طلحہ و زبیر و عبدالرحمن بن عوف وسعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہم تھے،حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں ہر شخص اپنے جوڑ کی طرف اٹھ کر جائے اور خود حضور والا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عثمانِ غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی طرف اُٹھ کر تشریف لائے ان سے'' معانقہ'' کیا اور فرمایا: تو میرا دوست ہے دُنیا و آخرت میں ۔
( ۲؎ المستدرک باب فضائل عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ مطبوعہ بیروت ۳/ ۹۷)
حدیث پانزدہم (۱۵):
ابن عساکر تاریخ میں حضرت امام حسن مجتبٰی وُہ اپنے والد ماجد مولٰی علی مرتضی کرم اﷲ تعالٰی وجوہما سے راوی :ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عَانَقَ عثمان بن عفان وقال قد عَانَقْتُ اَخِیْ عثمان فَمَنْ کانَ لَہ اَخ فَلْیُعَانَقْہُ۔ ۳؎
حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے معانقہ کیا اور فرمایا:میں نے اپنے بھائی عثمان سے معانقہ کیا جس کے کوئی بھائی ہو اسے چاہئے اپنے بھائی سے '' معانقہ کرے''
(۳؎ کنز العمال بحوالہ ابن عساکر حدیث ۳۶۲۴۰ مطبوعہ دارالکتب الاسلامی حلب ۱۳/ ۵۷)
ا س حدیث میں علاوہ فعل کے مطلقاً حکم بھی ارشادہوا کہ ہر شخص کو اپنے بھائیوں سے معانقہ کرنا چاہئے۔
حدیث شانزدہم (۱۶) :
کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بتول زہرا سے فرمایا کہ عورت کے حق میں سب سے بہتر کیا ہے؟ عرض کی کہ نامحرم شخص اُسے نہ دیکھے۔ حضور نے '' گلے لگالیا اور فرمایا:
ذُرِّیَّۃ بَعْضُھَا مِنْ بَعْض (۱؎ القرآن ۳/ ۳۴)
( یہ ایک نسل ہے ایک دوسرے سے ۔ ت)
اوکما ورد عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ واٰلہ وبارک وسلم
( یا جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے وارد ہے۔ ت)
(فتاویٰ رضویہ شریف )
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.