You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
’’فروغِ صبحِ تاباںؔ‘‘ کی تجلیات
از: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
حضرت سید وجاہت رسول قادری المتخلص بہ’’ تاباں‘ ‘ … ؛ دنیاے سنیت کی معروف علمی شخصیت کا نام ہے۔ ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا کراچی سے منسلک رہتے ہوئے آپ نے مذہبیات بالخصوص رضویات کے حوالے سے جو کارہاے نمایاں انجام دئیے ہیں وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ علم و فضل اور زہد و تقویٰ کے لحاظ سے شہرت کے حامل ایک خالص مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولنے والے سید وجاہت رسول تاباںؔقادری کے دل میںاپنے خاندانی بزرگوں کے ساتھ ساتھ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کے افکار و نظریات نے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ جذبہ موجزن کیاجس نے آپ کی فکر و نظر مخلصانہ عقیدت و محبت کا پیکر بنا دیا۔ جس کا اظہار آپ کی شعری و نثری کاوشات میں جابہ جا دکھائی دیتا ہے۔
تاباںؔ قادری صاحب کا خوب صورت شعری مجموعہ ’’فروغِ صبحِ تاباں‘‘ اس وقت میرے پیشِ نظر ہے۔ اِس میں حمد و مناجات ، نعت، تضمینِ نعت و مناقب، متفرق قطعات ، غزلیات ، سہرے اور نظمیات کے حسین و جمیل گل بوٹے کھلے ہوئے ہیں۔ اس مجموعے کا گوشۂ نعت و منقبت ذاتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت اور آقاے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ایک حسین گل دستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ممدوحین کے تئیں شاعر کی محتاط محبت کا اظہاریہ بھی ہے۔ قطعات اور غزلیات کے گوشے میں تاباں ؔ قادری صاحب نے عصری حسیت کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات و محسوسات ، عشقِ حقیقی و مجازی اور وارداتِ قلبی کا بیان کیا ہے علاوہ ازیں سہرے کے پھولوں کی خوشبو سے یہ مجموعہ مہک رہا ہے جب کہ اخیر میں نظمیات کا گوشہ تاباںؔ صاحب کے ایک اچھوتے رنگ کو نمایاں کرتادکھائی دیتاہے ۔
’’فروغِ صبحِ تاباں‘‘ کے ایک ایک شعر سے شاعر کا والہانہ خلوص، فداکارانہ عقیدت ، شریعتِ مطہرہ کا التزام ، الفاظ کا مناسب رکھ رکھاو اور شعریت کے حُسن کی جھلکیاں صاف طور پر نماں نظر آتی ہیں۔ تاباںؔ صاحب نے اپنی شاعری کو جن لفظیات سے سجانے کی کوشش کی ہے ، اُس میں دل کشی بھی ہے اور تازگی و طرفگی بھی۔تاباںؔ صاحب نے لسانی تعملات سے جن تراکیب کو طلوع کیا ہے اُن میں پیکریت اور امیجری بھی دکھائی دیتی ہے ۔ ’’فروغِ صبحِ تاباں‘‘ سے چند تراکیبِ لفظی ملاحظہ کریں تاکہ شاعر کی زباں دانی کا ایک ہلکا سا اشاریہ سامنے آجائے :
’’ذوقِ مدحتِ آقا /راندۂ نعلینِ اقدس/ گیسوے مشکیں / کمالِ خُلقِ حسنہ / خیالِ پیکرِ جاناناں/ ضبطِ شوق/ انعامِ خسروانہ / نفحۂ گیسوے عنبر / حصنِ حصینِ دین / یدُ اللہِ کمالِ لطف / علاجِ زخمِ خنداں/ جرعۂ داروے دوست / آرایشِ گیتی / صحیفۂ اکمل / طریقۂ اجمل / تیغِ شر بار / سِرِّ شہِ اخیار / صیقلِ برّان / محورِ حُسنِ عقیدت / نکہتِ جاں بخش / رشتۂ آئینِ حق / سجدہ ریزیِ ّ جاں / طلسمِ نقشِ خیال / حُسنِ کیفِ جمال / پر تَوِ حُسنِ ازل / جستجوے حُسن / ذوقِ زخمِ خنداں / رہِ روی راہِ الفت الاماں / صفاے قلبِ شبنم / نویدِ شادمانی /نوا سنجِ حکمت / صد مژدۂ گل زار / خوش خصائل / طلوعِ خاورِ احمر / مبتلاے فریبِ خیال …وغیر ہ وغیرہ ۔
نعت گوئی کا فن کوئی معمولی حیثیت کا حامل نہیں کہ ہر کس و ناکس اسے ریاضت کرکے سیکھ لے، یہ سعادت انھیں خوش بخت افراد کے نصیبے میں آتی ہے جن پر فضل الٰہی اور فیضانِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نورانی چادر سایہ کناں ہوتی ہے۔ اردو نعت گوئی کی تاریخ میں کفایت علی کافیؔ ، محسن کاکوروی ، امام احمد رضا بریلوی، حسن رضا بریلوی ، نوریؔ بریلوی وغیرہم نے جو دل کش اور دل نشین نقوش ابھارے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ علاوہ ازیں نعت گوئی کے فن کو وسعت دینے والے حضرات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ جن میں’’فروغِ صبحِ تاباں‘‘ کے مصنف حضرت سید وجاہت رسول تاباںؔقادری بھی شامل ہیں ۔ موصوف نے صنفِ نعت میں کافی اچھے اور خوب صورت اشعار زیب قرطاس کیے ہیں۔
’’فروغِ صبحِ تاباں‘‘ کا بابِ سخن روایت کے مطابق حمدِ باریِ تعالیٰ سے وا ہوتاہے ، حمد میں شاعر اللہ کریم جل جلالہٗ کی شمار و حصار میں نہ آنے والی خوبیوں اور تعریفوں کے بیان میں اپنے آپ کو عاجز سمجھتا ہے، اور اللہ عزو جل کی صفات ِ عالیہ کا خوب صورت شعری اظہار یوں کرتا ہے ؎
میں حمد کیسے لکھوں رب کی اپنے لفظوں میں
شمار آسکے جس کی عطا نہ ہندسوں میں
وہ رب ہے مالک و مختار ہے سب کا
ہیں نیک و بند سبھی مخلوق اس کے بندوں میں
حمدِ باریِ تعالیٰ میں ربِ کائنات جل و عُلا کی تعریف و توصیف کے جلو میں دعا کی طرف قلم کو موڑت ہوئے اخیر وقت نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوۂ زیبا کے دیدار کی تمنا ، مدینۂ امینہ میں موت کی خواہش اور نعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے شوق و ذوق کی طلب کا یہ محبت آمیز انداز اہل سنت و جماعت کی شہرۂ آفاق خوش عقیدگی کا حسین مظہر ہے ؎
الٰہی تجھ سے دعا ہے کہ قربِ وقتِ نزع
ترے حبیب کا جلوہ ہو میری نظروں میں
گناہ گار ہوں لیکن یہ آرزو ہے کریم
مروں مدینے میں آقا کے پاک قدموں میں
وہ ذوقِ مدحتِ آقا عطا ہو تاباںؔ کو
کہ اُٹھے صبحِ قیامت یہ سُر خروؤں میں
حمد باریِ تعالیٰ کے بعد مناجات میں تاباںؔ قادری صاحب نے اللہ تعالیٰ سے اُس کی شانِ کریمی کا واسطہ دے کر اپنی خستہ حالی ، اُس کی رحمتِ بے پایاں کے صدقے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی ہے۔ مناجات کے ان شعروں کے بعد تاباںؔ صاحب کا اشہبِ قلم مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب رواں دواں ہوتا ہے۔ آپ نعت اور آدابِ نعت سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی نعتوں میں عقیدے و عقیدت کی وارفتگی کے باوصف محتاط انداز پایا جاتا ہے ۔ آپ نے روح و قلب کی گہرائیوں سے ادب کے گہرے دریا کی شناوری کرتے ہوئے عظمتِ رسول(ﷺ)کا پاس و لحاظ اور عبد و معبود کا فرق ملحوظ رکھ کر ہوش و خرد کے ساتھ، اس گہرے دریا سے ایسے ایسے گوہر ہاے آب دار چُنے ہیں جو قرآن و سنت کے متقاضی ہیں۔ آپ کی زبان و قلم شایستہ، ذہن و فکر پاکیزہ ،جذبہ و تخیل اعلیٰ اور افکار و رجحانات میں طہارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام کی زیریں رَو میں افراط و تفریط اور کذب آمیز مبالغہ آرائی کو کہیں بھی جگہ نہیں مل سکی ؎
شہِ دوسرا کا مقام اللہ اللہ
خدائی ہے زیرِ نظام اللہ اللہ
وہ جمالِ حُسنِ ہستی کہ نظر نظر فروزاں
وہ کمالِ خُلقِ حسنہ کہ مثال انبیا میں
طاعت ہے حق تعالیٰ کی طاعت رسول (ﷺ)کی
لازم ہے ہر بشر پر اطاعت رسول(ﷺ) کی
تلک الرسل کا راز یہ معراج میں کھلا
نبیوں کی اقتدا تھی امامت رسول (ﷺ) کی
حضرت سید وجاہت رسول تاباںؔقادری کی نعتوں میں پاکیزگی و طہارت ہے۔ عقیدۂ توحید، عرفانِ خداوندی،رسولِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا رتبۂ بلند،حضور ختمیِ مرتبت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اختیارات و تصرفات،عقیدے سے گہری وابستگی،تصوف و معرفت،فلسفہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود،شہرِ رسول (ﷺ) مدینۂ منورہ سے گہرا لگاو،زیارتِ مدینۂ منورہ کی شدید خواہش،فرقتِ مدینہ کا سوزِ دروٗں وغیرہ موضوعات شعری شان و شوکت سے جلوہ گر ہیں جو متاثر کن ہیں ؎
فنا فی المصطفیٰ سے ہے فنا فی اللہ کا حاصل
ہے عشقِ مصطفی ہی سے بقا باللہ کا حاصل
یحببکم اللہ کا مژدہ اسے ہے جو
کرتا ہے صدقِ دل سے اطاعت رسول(ﷺ)
کون جانے یہ گھڑی بھی پھر ملے یا نہ ملے
رحمتوں سے جھولیاں بھر سبزِ گنبد دیکھ کر
جاں سے عزیز جس کو ہے ایمان و دیں اسے
سنگِ درِ حبیب سے اٹھنا نہ چاہیے
کہیں آئینۂ ہستی ، کہیں اِک جلوۂ انور
رُخِ روشن کو کیا کہیے کہ کیا کیا ہم بھی دیکھیں گے
جناب تاباںؔقادری کی نعتوں میں عقیدے و عقیدت کے گہرے رچاؤ کے ساتھ شعریت کا حُسن بھی پنہاں ہے ، مناقب اور قصائد میں بھی آپ نے اپنے ممدوحین کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے کہیں بھی احتیاط کا دامن اپنے ہاتھوں سے چھوٹنے نہیں دیا ۔ آپ کی مرقومہ مناقب اور قصائد میں اپنے ممدوحین کے تئیں تاباںؔ صاحب کی محبت کا جو انداز دکھائی دیتاہے وہ مخلصانہ رویوں کا حامل ہے ۔ فرقِ مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے تاباںؔ صاحب نے مناقب و قصائد کو بھی محتاط وارفتگی کا آئینہ دار بنادیا ہے۔ امام حسنین کریمین رضی اللہ عنہم ، امام اعظم ابو حنیفہ ، سیدنا غوث اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا، حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا ، مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا ، حضرت مصلح الدین رضوی، مفسر اعظم مولانا ابراہیم رضا جیلانی میاں،حضرت محمد عمر ، مفتی سید غلام معین الدین نعیمی، پروفیسر مسعود احمد مجددی علیہم الرحمہ وغیرہ کی شان میں لکھی گئی مناقب اور حضرت سید شاہ تراب الحق قادری، علامہ اختر رضا ازہری وغیرہ کی شان میں لکھے گئے قصائد بھی بہت خوب ہیں ۔ ’’فروغِ صبحِ تاباں‘‘ کے مرتب نے اس گوشے میں ممکنہ حد تک مناقب و قصائد کے بعد نوٹ لگا کر ممدوحین کی مختصر سوانح درج کرکے قارئین کے لیے آسانی پیدا فرمادی ہے ۔ جو لائقِ تحسین ہے۔
’’فروغِ صبحِ تاباں‘‘ کا گوشۂ قطعات بھی خاصے کی چیز ہے اسی طرح ’’غزلیات‘‘ ، ’’سہرے ‘‘ اور’’ نظمیات‘‘ کے گوشوں میں شامل منظومات تاباںؔ صاحب کی شعر گوئی میں مہارت تامہ پر دلالت کرتی ہیں ۔ غزلیات میں آپ کے موے قلم سے نکلے ہوئے موضوعات آپ کے اپنے عہد سے باخبر ایک ایسے شاعر کو ظاہر کرتا ہے جس کی فکر میں خود آگہی ، کائنات آگہی اور خدا آگہی کے آفاقی تصورات پنہاں ہیں ۔ عشقِ حقیقی کے جلو میں عشقِ مجازی کا انداز ، عصری حسیت کا شعری اظہار، تصوفانہ رنگ و آہنگ، وارداتِ قلبی اور جذبات و احساسات کی ترجمانی آپ کی غزلوں میں نمایاں نظر آتی ہے ؎
تری بندگی ، مری زندگی ، مری زندگی ، تری بندگی
مرے ہر نفَس میں ہے تو ہی تو ، تو مرے عشق کا کمال ہے
بادہ نوشاں تو سب ہیں مستِ اَلَست
شیخ بھی قیل و قال میں گم ہیں
دل نہیں ہے آرزوؤں کا ہے مدفن عشق میں
یا سراپا بن گئے ہیں ایک ماتم خانہ ہم
بزم میں آئے ہیں جب بھی وہ سنور کے شمع ساں
جان دینے کو کوئی پروانہ وار آہی گیا
آدمی کو ڈھونڈنے جاؤں کہاں
اب تو عنقا آدمیت ہوگئی
اِس وفا کے شہر کا تاباںؔ یہی دستور ہے
پیار کی کرتے ہیں باتیں ، پھر بدل جاتے ہیں لوگ
’’فروغِ صبحِ تاباں‘‘ میں شامل جناب سید وجاہت رسول قادری تاباںؔ کی شعری ریاضتیں ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہیں ۔ جنا ب میرزا امجد رازیؔ نے ’’بلبلِ نغمہ ہزار‘‘ عنوان کے تحت جناب تاباںؔ قادری کے کلام میں موجود شعری و فنی محاسن کا بھرپور محاکمہ کیا ہے۔ حضرت سید وجاہت رسول تاباںؔ قادری کو ایسے خوب صورت شعری و فنی محاسن سے لبریز مجموعۂ کلام کی پیش کش پرصمیمِ قلب سے ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہوئے قلم روکتا ہوں ۔ اللہ کریم اس مجموعے کو قبولِ عام عطا فرمائے۔(آمین بجاہ الحبیب الامین صلی اللہ علیہ وسلم )
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.