You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اسلامی بھائیو!
اس زندگی میں ہمیں ہر وقت بات چیت کرنے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے ۔ بلکہ ہم لوگ بلا ضرور ت بھی ہر وقت بولتے رہتے ہیں
حالانکہ یہ بلا ضرو رت بولنا بہت بہت ہی نقصا ن دہ ہے غیر ضروری گفتگو کرنے سے خاموش رہنا افضل ہے ۔
لہذا ہمارے پیارے مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی بات چیت کے سلسلے میں سنتیں اور آداب اور خاموشی کے فضائل وغیرہ یہاں پر بیان کئے جاتے ہیں ۔
(۱)سر کارمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم گفتگو اس طر ح دلنشین انداز میں ٹھہرٹھہر کر فرماتے کہ سننے والا آسانی سے یاد کرلیتا
چنانچہ اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ
سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم صاف صاف اورجدا جدا کلام فرماتے تھے، ہر سننے والا اس کو یا دکرلیتا تھا۔
============================
(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عائشہ،الحدیث ۲۶۲۶۹،ج۱۰،ص۱۱۵)
(۲)مسکرا کر اور خندہ پیشانی سے بات چیت کیجئے ۔
چھوٹوں کے ساتھ مشفقانہ اور بڑو ں کے ساتھ مؤد با نہ لہجہ رکھئے
ان شاء اللہ عزوجل دو نوں کے نزدیک آپ معزّز رہیں گے ۔
(۳)چلاّ چلاّ کر بات کرنا جیسا کہ آجکل بے تکلفی میں دوست آپس میں
کرتے ہیں ، معیوب ہے۔
(۴)دوران گفتگو ایک دوسرے کے ہاتھ پرتالی دینا ٹھیک نہیں کیونکہ تالی ، سیٹی بجانامحض کھیل کود،تماشہ اور طریقۂ کفار ہے۔
===============
(تفسیر نعیمی،ج۹،ص۵۴۹)
(۵) بات چیت کرتے وقت دوسرے کے سامنے با ربار ناک یا کان میں انگلی ڈالنا ، تھوکتے رہنا اچھی بات نہیں ۔
اس سے دو سرو ں کو گھن آتی ہے ۔
(۶)جب تک دوسرا بات کر رہا ہو ،اطمینان سے سنیں ۔ اس کی بات کاٹ کراپنی بات شرو ع نہ کردیں ۔
(۷)کوئی ہکلا کر بات کرتا ہو تو اس کی نقل نہ اُتا ریں کہ اس سے اس کی دل آزاری ہوسکتی ہے ۔
(۸) بات چیت کرتے ہوئے قہقہہ نہ لگائیں کہ سر کار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے کبھی قہقہہ نہیں لگایا (قہقہہ یعنی اتنی آواز سے ہنسنا کہ دوسرو ں تک آواز پہنچے ۔)
==================
(ماخوذ از مراٰۃالمناجیح،ج۶،ص۴۰۲)
(۹)زیادہ باتیں کرنے اور بار بار قہقہہ لگانے سے وقار بھی مجرو ح ہوتا ہے ۔
(۱۰)سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کافرمان عالیشان ہے:
جب تم کسی دنیا سے بے رغبت شخص کو دیکھو اور اُسے کم گو پاؤتو اس کے پاس ضرور بیٹھو کیونکہ اس پر حکمت کا نزول ہوتا ہے۔
==================================
(سنن ابن ماجہ،کتاب الزہد ،باب الزہد فی الدنیا،الحدیث ۴۱۰۱،ج۴،ص۱۲۲)
(۱۱)حدیثِ پاک میں ہے
جو چپ رہا اس نے نجات پائی ۔
===================
(شعب الایمان ،باب فی حفظ اللسان ،فصل فی السکوت عمالایعنیہ ،الحدیث ۴۹۸۳،ج۴،ص۲۵۴،جامع الترمذی ،کتاب صفۃ القیامۃ،باب (نمبر۵)الحدیث ۲۵۰۹،ج۴،ص۲۲۵ )
(۱۲)کسی سے جب بات چیت کی جائے تو اس کا کوئی صحیح مقصدبھی ہونا چاہے۔ اور ہمیشہ مخاطب کے ظرف اور اس کی نفسیات کے مطابق بات کی جائے۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے ،
کَلِّمُواالنَّاسَ عَلٰی قَدْ رِ عُقُوْلِھِمْ
یعنی لوگو ں سے ان کی عقلوں کے مطابق کلام کرو۔
یعنی اس طرح کی باتیں نہ کی جائیں کہ دو سروں کی سمجھ میں نہ آئیں ،الفاظ بھی سادہ صاف صاف ہوں،مشکل ترین الفاظ بھی استعمال نہ کئے جائیں کہ اس طر ح اگلے پر آپ کی علمیت کی دھاک تو بیٹھ جائے گی مگر مدعا خاک بھی سمجھ نہ آئے گا ۔
(۱۳)اپنی زبان کو ہمیشہ بُری باتوں سے روکے رکھیں ۔
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نجات کیا ہے ؟
فرمایا ،
اپنی زبان کوبر ی باتو ں سے روک رکھو۔
======================
(جامع الترمذی ،کتاب الزہد ،باب ماجاء فی حفظ اللسان ،الحدیث ۲۴۱۴،ج۴،ص۱۸۲)
(۱۴)اسلامی بھائیو! اگر ہم نے زبان کو صحیح استعمال کیا تو اس کا جو کچھ فائدہ ہوگا وہ سارا ہی جسم پائے گا اور اگریہ سیدھی نہ چلی کسی کو گالی وغیرہ دے دی تو زبان کو کوئی تکلیف ہو یا نہ ہو پٹائی دیگر اعضاء کی ہوگی۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :
جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے اعضا ء جھک کر زبان سے کہتے ہیں ،
ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر ! کیونکہ ہم تجھ سے متعلق ہیں ۔ اگر تو سیدھی رہے گی ، ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔
=========================
(المسند للامام احمد بن حنبل ،الحدیث ۱۱۹۰۸،ج۴،ص۱۹۰)
(۱۵) آپس میں ہنسی مذاق کی عادت کبھی مہنگی پڑجاتی ہے
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
آپس میں ٹھٹھا مذاق مت کیا کر وکہ اس طر ح (ہنسی ہی ہنسی میں) دِلوں میں نفر ت بیٹھ جاتی ہے ۔ اور بر ے افعال کی بنیادیں دِلوں میں استوار ہوجاتی ہیں ۔
===================
(کیمیائے سعادت ،رکن سوم مہلکات ،باب پیداکردن ثواب خاموشی ،ج۲،ص۵۶۳ )
(۱۶)بدزبانی اور بے حیائی کی با تو ں سے ہر وقت پرہیز کریں ،
گالی گلوچ سے اجتناب کر تے رہیں اور یاد رکھیں کہ اپنے بھائی کوگالی دینا حرام ہے
===============
(فتاوٰی رضویہ،ج۲۱،ص۱۲۷)
اور بے حیائی کی بات کرنے والے پر جنت حرام ہے ۔
حضور تا جدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:
اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (بے حیائی کی بات ) سے کام لیتا ہے ۔
================
(کیمیائے سعادت ،رکن سوم باب فحش،آفت پنجم گفتن است ،ج۲،ص۵۶۸)
اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہمیں گفتگو کرنے کی سنتو ں اور آداب پر عمل کرنے کی تو فیق مرحمت فرما۔
امین بجاہ النبی الا مین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.