You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
آزادی اظہار کے نام پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
************************
تحریر:۔محمداحمد ترازی
-------------------------------
انیس سو پچانوئے''1995ء'' کی بات ہے جب امریکہ کی ریاست اوکلاہاما میں دہشت گردی کی ایک بڑی واردات ہوئی،ابھی یہ واردات جاری ہی تھی کہ امریکی ٹیلی ویڑن چینلز نے ایک باریش نوجوان کی نشاندہی کرتے ہوئے واردات میں مسلمانوں کو دہشت گردقرار دے کر ملوث ہونے کی خبریں نشر کرنا شروع کردیں،مگر چند گھنٹوں بعد معلوم ہوا کہ واردات میں ایک امریکی عیسائی نوجوان ٹموتھی میک ویہہ ملوث ہے۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں بھی پیش آئی،جب دہشت گردی کی واردات جاری تھی کہ ناروے،امریکہ اور یورپ کے ریڈیو اور ٹی وی چینلز چیخ چیخ کر یہ پروپیگنڈہ کررہے تھے کہ واردات میں القاعدہ کا ہاتھ ہے،اُس وقت بعض مبصرین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اِس واردات کی وجہ ناروے کے اخبار میں شائع ہونے والے توہین رسالت پر مبنی نازیبا کارٹون ہیں،کسی نے دلیل دی کہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ناروے کے فوجی افغانستان میں لڑرہے ہیں،لیکن چند گھنٹوں بعد جب معلوم ہوا کہ واردات میں ناروے کا بنیاد پرست عیسائی شہری آندرے بہرویک ملوث ہے،جس نے 90 سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو مار ڈالا۔ آندرے بہرویک نے حراست میں لیے جانے کے بعد نہ صرف اپنے جرم کا اعتراف کیا بلکہ اُس پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے یہ قدم مغربی دنیا کو اسلام اور مسلمانوں سے محفوظ بنانے کیلئے اٹھایا ہے،اُس نے اپنے اِس اقدام کے جواز میں انٹرنیٹ پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی 15 سو صفحات پر مشتمل دستاویز بھی چھوڑی ۔
یہاں یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ جیسے ہی سانحہ اوسلو کے ذمہ دار آندرے بہرویک کا نام دنیا کے سامنے آیا، ناروے حکومت اور ذرائع ابلاغ نے اپنا پینترہ بدل لیا اور یہ ثابت کرنے کی کوششیں شروع کردی کہ آندرے ”پاگل“ ہے،اُس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔مغرب کی اِن کوششوں کا مطلب یہ تھا کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ آندرے محض ایک ”فرد“ ہے،ناروے یا مغرب کا نمائندہ نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی پاگل آندرے کی طرح کھیتی باڑی اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف 15 سو صفحات پر مشتمل دستاویزات تخلیق کرتا ہے ۔؟ اگر مغربی دنیا آندرے بہرویک کو ایک فرد قرار دے کر اجتماع سے الگ کرسکتی ہے تو پھر یہی اصول مسلم دنیا کیلئے کیوں استعمال میں نہیں لایا جاتا۔؟اِس سوال کا جواب کسی مغربی مفکر اور دانشور کے پاس نہیں ہے۔
قارئین محترم !درج بالاواقعات سے مغربی دنیا کی اجتماعی سوچ کے کئی اہم پہلونمایاں ہوکر ہمارے سامنے آتے ہیں،مگراِس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ مغربی دنیا نے اسلام ، صاحب اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹ،فریب اور قیاس آرائی کو اپنی پالیسی کا بنیادی نقطہ بنایا ہوا ہے۔آج مغربی ذرائع ابلاغ معروضیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے پیشے میں اِسے ایمان کا درجہ دیتے ہیںمگر وہ عملی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں، حالانکہ پیشہ ورانہ دیانت اور اخلاقیات کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر آپ کی نشر کردہ خبرکسی وجہ سے غلط ثابت ہوجائے تو اُس پر متعلقہ فرد،افراد یا ادارے سے فوری معذرت طلب کی جائے اور آئندہ اِس قسم کی لغو اور بے بنیاد خبر کے نشر ہونے سے بچنے کی تدابیر اختیار کی جائیں،مگر عملاً ایسا نہیں کیا جارہا،آج بھی مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ جھوٹی اور بے بنیاد قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسلام ،صاحب اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور اُمت محمدیہ کو دہشت گرد ظاہر کرکے دنیا میں بدنام کررہے ہیں،جبکہ مغربی میڈیا کے کسی نمائندے کو یہ توفیق نہیں ہورہی کہ وہ اپنی جھوٹی خبروں اور بے بنیاد قیاس آرائیوں پر شرم و ندامت کا اظہار کرتے ہوئے عالم اسلام سے معذرت طلب کرے ۔
درحقیقت مغرب کا یہ طرز عمل علم،انصاف،توازن،تہذیب اور دلیل سے خالی ہے،دنیا میں آزادی اظہار رائے،حقوق انسانی اور مساوات کا ڈھنڈورا پیٹنے والا مغرب اسلام اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دوہرا معیار اپنائے ہوئے ہے،وہ اپنی منافقت اور تعصب کو آزادی اظہار کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے،یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب جو آزادی رائے،حقوق انسانی،روشن خیالی،وسعت نظر،عدم تشد د،مذہبی رواداری،شہری آزادی، جمہوریت اور آزادی نسواں کے چیمپین ہونے کا دعویدار ہے،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز متعبصانہ رویہ رکھتا ہے،آج مغرب میں آزادی اظہار رائے کا مطلب پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے ذریعے اسلام،صاحب اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مقدس اسلامی شخصیات کی توہین و تمسخر اڑانا لیا جاتا ہے،جوپورے مغربی معاشرے کی اجتماعی سوچ کا مظہر ہے،معاملہ یہ ہے کہ مغرب پہلے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلام کی مقدس شخصیات کی توہین وتنقیص کرتا ہے اور جب ردعمل میں کہیں کوئی انفرادی واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو وہ اُسے جواز بناکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہوجاتا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اسلام تشدد پسند دین اور اِس کے ماننے والے متشدد لوگ ہیں،یہی مغرب کا طریقہ واردات اور اصل نفسیات ہے، پہلے وہ مد مقابل سے اپنے مقائیس اور فکری کسوٹیاں منواتا ہے اور پھر چابکدستی سے اُس عمل پیرا ہوجاتا ہے ۔
آج مغربی دنیا کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ گاہے گاہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کی جسارت کرکے عالم اسلام کی دل آزاری کرتا ہے اور پھر اپنے فعل قبیح کو آزادی اظہار کا نام دے کر جاری رکھنے پر بصد بھی رہتا ہے،جبکہ آزادی اور کسی کی دل آزاری میں زمین آسمان کا فرق ہے،دنیا کے کسی معاشرے میں رائے کے اظہار کی ایسی آزادی نہیں دی گئی کہ جب چاہے، جو چاہے کسی کی بھی عزت خاک میں ملادے،آج دنیا کے ہر معاشرے میں اپنے اپنے حالات وعوامل کے مطابق اظہار رائے کی حدود مقرر ہیں،حقائق کو بیان کرنے کیلئے بھی کچھ ضابطے اور قرینے مقرر کیے گئے ہیں،جیسے یورپ وامریکہ جہاں فحاشی وعریانی عروج پر ہے مگر بچوں میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والی فحش نگاری اور مذہبی ونسلی منافرت پھیلانے والی تحاریر وتقاریر پر پابندی ہے، آسٹریا،بیلجیئم،چیک ری پبلکن،فرانس،جرمنی،اسرائیل،ایتھوپیا،پولینڈ، رومانیہ،چیکو سلواکیہ، سوئزرلینڈ وغیرہ میں عالمی جنگوں کی تباہی کے انکار کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے،یورپ کے اکثر ممالک میں ہولوکاسٹ کے انکار بلکہ اُس کے بارے میں یہ تک کہنے کی اجازت نہیں کے اُس میں ہلاک شدہ یہودیوں کی تعداد مبالغہ آمیز ہے ۔
خودآزادی اظہار رائے کی بات کرنے والے مغرب کی اپنی حالت یہ ہے کے وہاں بھی کوئی کھل کر اُن کے دستور، اقتدار اعلیٰ یا پالیسیوں پر بات نہیں کرسکتا،صرف یورپ وامریکہ کیا، پوری دنیا میں ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں،دنیا کے ہر ملک میں وہاں کے دستور یا اقتدار اعلیٰ سے بغاوت یاباغیانہ اظہار رائے کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے اور مجرموں کیلئے موت تک کی سزا موجود ہے،اسی طرح مقدس ہستیوں، مقدس مقامات،اور مقدس اشیاءکی توہین پر بھی سزا کا قانون زیادہ ترممالک میں موجود ہے،مگر جب معاملہ اسلام،صاحب اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اورقابل تعظیم اسلامی شخصیات کا آتا ہے تو یہ تمام اصول و قاعدے اور ضابطے وقانون معطل وبے اثر ہوجاتے ہیں اورایسے فعل قبیح کی جسارت کرنے والے کو نام نہاد آزادی اظہار کاتحفظ فراہم کردیا جاتا ہے ۔
مغرب کے اسی اسلام دشمن کردار اور دوہرے منافقانہ معیار کو دور حاضر کے نوجوان اسکالر محمد متین خالد نے اپنی نئی کتاب”آزادی اظہار کے نام پر“میں بے نقاب کیا ہے،انہوں نے اِس کتاب میں بے لگام آزادی اظہار کے خبط میں مبتلا مغرب کے مکروہ چہرے کی نقاب کشائی کرتے ہوئے دلائل وبرہان سے ثابت کیا ہے کہ اخلاق، مساوات، رواداری،انسانی آزادی اور آزادی اظہار کے نام نہاد علمبرداروں کا اصل کردار کیا ہے اوروہ کس طرح رعونت،عدم برداشت اور دشنام طرازیوں کے شرمناک عملی نمونے پیش کرتے ہیں، کتاب میں نامور ادیب ودانشور اور مشہور کالم نویس محمد صلاح الدین،ڈاکٹر محمد امین،شاہنواز فاروقی،پروفیسر عبدالجبار شاکر، پروفیسر خورشیداحمد، عطا الرحمن،اوریا مقبول جان،ڈاکٹر انیس احمد،محمداسماعیل قریشی،سابق وزیر خارجہ آغاشاہی،ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید، اسرار کسانہ،سید عاصم محمود،محمد عامر خاکوانی،پروفیسر شمیم اختر،اشتیاق بیگ،ڈاکٹر مجاہد منصوری،حافظ شفیق الرحمن،ڈاکٹر عامر لیاقت حسین،ارشاد احمد حقانی،حامد میر،عرفان صدیقی،انور غازی،انصار عباسی،ڈاکٹر محمود احمد غازی، عطا اللہ صدیقی اوررابرٹ فسک وغیرہ کے تقریبا 100کے قریب تحقیقی مضامین ومقالات شامل ہیں ۔
جو دین اسلام میں شخصی آزادی کی حدودوقیود واضع کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دین اسلام آزادی رائے کی اجازت دینے کے باوجوداِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کے بنیادی عقائد اور اقدار پر تیشہ زنی یا کیچڑ اچھالی جائے،یا کسی کو ایسی شخصی آزادی حاصل ہوجو فرد اور معاشرے کیلئے فتنہ وفساد کا سبب بن جائے،بلاشبہ یہ تحقیقی کتاب صاحب ِمولف کی عرق ریزی کی مظہراور اعجاز قلم کا منفرد شہکار ہے،جس کامطالعہ مغرب کی اسلام دشمنی کا پردہ چاک کرتا ہے،صاحب ِمطالعہ کے ایمان کو نئی جلا بخشتا ہے اور قلب و روح کوطمانیت و آسودگی عطا کرتا ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.