You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ماہنامہ نوائے منزل لاہور، فروری 2015
انٹرویو پینل: حافظ عبدالرزاق قادری، محمد کامران اختر
علامہ مفتی محمد ارشد القادری موجودہ دور کے عظیم دینی سکالر، مبلغ اور محقق ہیں۔ وہ 16 فروری 1958ء کو پیدا ہوئے۔آپ سینکڑوں کتب کے مصنف ہیں۔ ان میں سے دو درجن کے قریب کتب زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ جبکہ باقی طباعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔آپ کا ایک عظیم علمی کارنامہ صحیح ترمذی شریف کی شرح فیوض النبی ہے۔ اس کی دو جلدیں چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔علامہ محمد ارشد قادری تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان نامی ایک تحریک کے بانی ہیں۔ اس تنظیم کے زیر انتظام مختلف اجتماعات، کانفرسیں اور سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔تعلیم و تربیت اسلامی مختلف فلاحی کاموں میں حصہ لیتی ہےتعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کا منشور وحدت امت ، خدمت امت اور استحکام امت ہے۔ تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کا صدر دفتر لاہور میں ہے۔
علامہ مفتی محمد ارشد القادری کی زندگی کے مختلف گوشوں سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے ان سے نوائے منزل نے خصوصی انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
نوائے منزل : آپ نے ابتدائی علوم و فنون کہاں کہاں سے حاصل کیے ؟
ابتدائی علوم تو اسی طرح سکول سے حاصل کیے جس طرح عام متوسط طبقے کے لوگ حاصل کرتے ہیں۔ پہلی دفعہ جب میرے والد صاحب مجھے سکول میں لے کر گئے اس وقت میں پانچ سال کا تھالیکن داخلہ نہ ہو سکا کیونکہ اس زمانے میں سات سال کی عمر میں بچوں کو داخلہ دیا جاتا تھا۔لہذا گھرمیں ہی تدریس کا آغاز ہو گیا۔اس کے بعد سات سال کی عمر میں داخلہ ہوا۔ہمارا گھر کوٹ نیناں میں تھا۔کوٹ نیناں شکر گڑھ سے مشرق میں دریائے روای کے مغرب میں ایک قصبہ ہے۔ پھر 1971ء کی جنگ میں ہم لاہور منتقل ہوئے ۔ باقی تعلیم لاہو ر میں حاصل کی۔
نوائے منزل : دینی علوم کی طرف رغبت کیسے ہوئی ؟
جب میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا تو مولانا حافظ نذیر صاحب ہمارے خطیب (کرمانوالی مسجد ابراہیم روڈ لاہور) ہوا کرتے تھے۔ ان سے متاثر ہوا۔کیونکہ وہ حضرت مولانا ابوالبرکات علیہ الرحمہ اور حضرت محدث اعظم رحمۃ اللہ علیہ جیسے بڑے بزرگ علماء کے شاگرد تھے۔ ان کا انداز تربیت بھی بہت عمدہ تھا۔انہی کے پاس کریما سعدی، نام حق ، پند نامہ اور صرف و نحوکی ابتدائی کتب پڑھیں۔اس کے علاوہ جامعہ رسولیہ شیرازیہ کے بانی اُستادِ محترم، حضرت علامہ حاجی محمد علی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ صاحب سے بھی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ استاد نقشبندی صاحب کا اندازِ تدریس منفرد ہوتا تھا۔ وہ روزانہ صبح سیر کے لیے دریائے راوی کے کنارے جاتے تھے۔ ا س لیےدین کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سکول جانے والے طلباء صبح سویرے سکول ٹائم سے پہلے پڑھنے کے لئے ان کے ساتھ دریا کی طرف پیدل جاتے۔ دریا کی طرف جاتے ہوئے وہ سبق سن لیتے تھے اور دریا کے کنارے بیٹھ کر اگلا سبق پڑھا دیتے تھے۔اور واپسی پر اگلے دن کے لیے نصیحت وغیر ہ فرما دیتے تھے۔ان کی زندگی کا یہ گوشہ بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا۔
نوائے منزل : روحانی تربیت اور فیض کہاں سے حاصل کیا ؟
جب میں ایف۔اے کا سٹوڈنٹ تھا تو ایک بارحضرت مولانا عبدالرشید قادری رضوی رحمتہ اللہ علیہ (سمندری شریف) کے پیچھے جمعہ پڑھنے کے ارادے سے گیا۔تقریر تو زیادہ نہ سن سکا۔ جمعہ پڑھنے کے بعد جب صلوٰۃ و سلا م پڑھا گیا تو ایک شعر حضرت نے خود پڑھا۔اس کے بعد وہ لوگوں کے مسائل سننے لگ گئے۔ میں اٹھا اورچل دیا۔دو تین فرلانگ دور ہی گیا تھا کہ ایک ٹاہلی (شیشم)کے درخت کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا۔میں نے سوچا کہ اگر آج یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر شاید موقع نہ ملے ۔ اس لیے بیعت کرلینی چاہیے۔ لہذا میں واپس گیا اور حلقے میں جا کر بیٹھ گیا۔ مجھے دیکھ کر حضرت نے مسکرا کر فرمایا آ گئے ہو؟ہو گیا فیصلہ ؟؟او ر لوگوں سے فرمایا کہ اس نوجوان کو راستہ دوقریب آنے کے لیے۔ جب میں قریب آیا تو فرمایا آئیے، بڑھائیے ہاتھ۔
نوائے منزل: حضرت علامہ امام احمد شاہ نورانی رحمتہ اللہ علیہ سے آپ کی ملاقات کب ہوئی ؟
1980ء کے اواخر اور 1981ء کے اوائل میں، مَیں GC لاہور میں سٹوڈنٹ تھا۔ وہاں پہلی بار امام نورانی کو میں نے قریب سے دیکھا۔ دور سے تو پہلے بھی دیکھا ہوا تھا۔ اس وقت میں ٹائی ،پینٹ کوٹ میں تھا اور میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں مولوی بنوں گا۔ میں نے آٹو گراف کے لیے فائل مولانا کی طرف بڑھا دی۔تو مولانا نے اس پر لکھ دیا۔
؎ خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
بس اس کے بعد میری زندگی بدل گئی۔ میں شاہ احمد نورانی رحمتہ اللہ علیہ کی محبت میں غرق ہو گیا۔جس طرح میں نے عام مولویوں کے بارے میں سنا تھا مولانا کو اس کے بر عکس پایا۔عمدہ انگریزی، خوبصورت لب و لہجہ اور بے پناہ پیار۔کبھی ایسا مرد نہیں دیکھا تھا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں اس طرح کا بنوں گا جس طرح کے یہ ہیں۔ (مولاناارشد القادری علامہ نورانی کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ انٹرویو پینل)
نوائے منزل: آپ طویل عرصے سے حضرت داتا علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پر سوال جواب کی نشست منعقد کر رہے ہیں۔ اس کا خیال کیسے آیا؟
1990ء میں جب میں حج کرنے کے لیے پہلی مرتبہ حر مین شریفین گیا۔ جب مکہ مشرفہ سے مدینہ منورہ کی طرف گیا تو مسجد نبوی کی پرانی عمارت سے مغرب کی طرف نکلیں تو ایک خالی جگہ ہے ۔ میں نےاس طرف دیکھا کہ لوگوں کا ایک جگہ ہجوم ہے ۔ اور ایک صاحب کھڑے ہیں۔ لوگ پرچیوں پر سوالات لکھ کر دے رہے ہیں اور وہ جواب دے رہے ہیں۔ مجھے یہ طریق اچھا لگا۔ حج سے آتے ہی پہلی جمعرات کو ہی میں نے دربار حضرت داتا صاحب پر یہ نشست شروع کر دی۔کچھ نوجوانوں نے پہلی دفعہ فقہ کا سوا ل پوچھا ۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔اس سلسلے میں اغیار اور اپنوں کی طرف سے بھی رکاوٹیں بھی ڈالی گئیں ۔ سیکرٹری او قاف کو بھی خطوط لکھے گئے ۔ سیکرٹری صاحب نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ آپ نے کہاں سے پڑھا ہے۔ میں نے بتایا کہ میں اولڈ راوین ہوں۔ سیکرٹری صاحب بھی راوین ہی تھے۔اس لیے وہ بہت خوش ہوئے او ر مجھےاس کار خیر کی ان کی طرف سے بھی اجازت مل گئی۔
نوائے منزل:تصانیف کا سلسلہ کب سے شروع کیا؟
5 جنوری 1981ء کو میں نے پہلی کتا ب مکمل کی۔ جس کا عنوان تھا تعظیم مصطفی قرآن حکیم کی روشنی میں۔ وہ کتاب ابھی بھی موجود ہے۔
نوائے منزل: ترمذی شریف کی شرح لکھنے کا خیال کیسے آیا؟
بڑا گھر بنگلہ ایک جگہ ہے۔ وہاں میں میلاد شریف کے جلسے میں گیا۔ میری ملاقات علامہ محمد مسعود حسان صاحب سے ہوئی۔ جو مفتی محمد امین صاحب کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے عربی میں چند منٹ بات کی۔ میں نے بھی عربی میں دس سے پندرہ منٹ تک کلا م کیا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ کھانے پر بیٹھے تو انہوں نے پوچھا کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں ۔ میں نے بتایا کہ جمعہ پڑھا رہا ہوں ۔ کچھ کتابیں لکھی ہیں اور ایک ادارہ بنا رہا ہوں۔ مولانا نے کہا کہ ایسے بندے کو کوئی بڑا کام کرنا چاہیے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کرنا چاہیے۔ مولانا کہنے لگے مسلم ،بخاری پر تو کام ہو گیا۔ ترمذی شریف پر کام کی ضرورت ہے۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ اب ترمذی شریف پر کام کروں گا۔ اس کام کے لیے ایک سال تک تو سوچ بچار کرتا رہا۔ پھر ایک سال اس کا نظم بناتے بناتے گزر گیا۔تین سال کے بعد نظم طے ہوا۔ پھر کام شروع کیا۔ اب تک الحمد للہ دو جلدیں مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔اور اندرون اور بیرون ملک سے لوگوں نے بہت سراہا ہے ۔میں نے کوشش کی ہے ہر جگہ ادب کی زبان استعمال کروں۔ کچھ مقامات پر تنقید بھی کی ہے مگر اپنا لہجہ ہمیشہ دھیما رکھا ہے۔
نوائے منزل: مستقبل میں کن عنوانات پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے توفیق عنایت فرمائی تو انشا اللہ تفسیر پر کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
نوائے منزل :آپ کا تعلق علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم سے رہا ہے۔ جو سیاست میں علما کے امام تھے۔ موجودہ سیاسی عدم استحکام کے پس منظر میں علما کا کیا کردار ہے؟
میں اس موقعے پر ایک ایک کڑوا سچ بولنا چاہتا ہوں۔ چاہے کسی کو برا ہی کیوں نہ لگے۔ درحقیقت آپ نے جس طبقے کی طر ف اشارہ کیا ہے اس طبقے نے مولانا نورانی کی قدرہی نہ کی۔اگر یہ طبقہ مولانا کی قدر کرتا توحالات ایسے نہ ہوتے۔ مجھے معلوم نہیں کہ علما ئے کرام اور مشائخ عظام نے کیوں اس گوہر نایاب کو نظر انداز کیا۔اور غلبہ اسلام کا خواب پورا نہ ہوسکا۔
؎ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
ان کا ایک مخالف آخری وقت میں مولانا کے پاس آیا اور کہا کہ کیا ہوا مولانا اگر آپ کو آپ کی قوم نے چھوڑ دیا ہے۔ مگر ہم آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گئے۔
یہ علامہ نورانی کی تو عظمت کا اعتراف تھا مگر ہمارے علما اور مشائخ کے خوبصورت چہرے پر ایک عجب انداز کا تھپڑ تھا۔
نوائے منزل : آپ کے خیال میں علامہ نورانی میں وہ کون سی مقناطیسیت تھی جو سب لوگوں کو ان کے قریب لے آتی تھی؟
اللہ تعالیٰ نے علامہ کے ذہن میں کوئی خانہ چھوٹا نہیں رکھا۔ مقام عشق ایک بڑا مقام ہے مگر مقام درد اس سے بھی بڑا مقا م ہے۔ علامہ نورانی مقام درد پر فائز تھے۔مگر آج جو لوگ ان کو امام اور رحمتہ اللہ کہتےہیں میں نے خود ان کو علامہ کے خلاف تقریریں کرتے بھی سنا ہے ۔ مگر آج سب لوگوں کو احسا س ہو گیا ہے کہ علامہ کی عظمت کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم لوگ انتظار کرتےہیں کہ قابل اور لائق بند ے کی قبر بن جائے پھر ہم اس کی تعریف میں بہت سے القابات بولیں بس اس کی قبر بن جائے۔ میرے خیال میں کسی کی عظمت کےلیے اس کی قبر کا بن جانا ضروری نہیں ہے۔
نوائے منزل: آپ ہمیشہ اتحاد امت کے داعی رہے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دہشت گردی کے اسباب میں سے ایک سبب فرقہ واریت بھی ہے؟
اس حوالے سے میرا دیکھنے کا زاویہ مختلف ہے۔ میں پاکستان میں کوئی بڑی مصیبت نہیں دیکھتا۔ میں یہ سوال ضرور کروں گا کہ ہم نے اپنا ریموٹ کسی اور کے ہاتھ میں کیوں دیا ہوا ہے۔ اغیار جب چاہتے ہیں چینل تبدیل کر دیتے ہیں۔جب آپ کی بات انجام تک پہنچتی ہے تو چینل ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی یورپی لابی ہمارے ایوانوں میں گھس گئی۔ آپ قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ ایک بار پڑھ لیں آپ کو اندازا ہو جا ئے گا۔
نوائے منزل:امت کو کن کن نکات پر متحد کیا جا سکتا ہے؟
ہم نے کئی بار کہا ہے کہ اگر تو ہم آئمہ ، علما اور لیڈروں کے نام پر جمع کرنا چاہیں تو ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔امت کو فقط رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے نام پر جمع کیا جا سکتا ہے۔
؎ ٹھوکریں کھاتے پھرو گے ان کے در پر پڑ رہو
قافلہ تو اے رضاؔ اول گیا آخر گیا
نوائے منزل: ایک اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ آپ نام تو امام احمد رضا بریلوی کا لیتے ہیں مگر امت کو کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پرجمع ہو جائیں۔ آپ کا کیا موقف ہے؟
احمد رضا کا نام لینا کوئی جرم تو نہیں ہے۔ امام احمد رضا نے تو عظمت رسول کی یاد دلائی ہے۔ یاددہانی کرانے والے کو فراموش کر دینا کوئی دانائی تو نہیں ہے۔ اسی طرح قاسم نانوتوی صاحب، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، اشرف علی تھانوی صاحب، تبلیغی جماعت کے الیاس کاندھلوی صاحب اور مودودی صاحب بھی یہی بات کہتےہیں۔
فساد کی بنیاد یہ بات ہے کہ جب ہم دوسروں کو مجبور کرنے کی کوشش کرتےہیں کہ ہماری بات مانی جائے تو شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ تمام اَئمہ اور علما نے ایک دوسرے سےا ختلاف ضرور کیا ہے مگر کسی کو مجبور نہیں کیا کہ ان کی بات ہی مانی جائے۔
سب سے پہلے ابن تیمیہ صاحب جو حضرت غوث اعظم کے بعد کے زمانے میں دریائے دجلہ اور فرات کے دوآبہ میں پیدا ہوئے ان کی سوچ اس طرح کی ہوئی کہ جو تحقیق میں نے کردی ہے امت کو چاہیے کہ وہ اس پر لبیک کہہ دے۔ میں ان کےاخلاص کا قائل ہوں مگر ان میں یہ ایک نقص پایا جاتا تھا۔
میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں، کچھ عرصہ پہلے تک ایک سوال کیا جاتا رہا کہ قلبِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آب زم زم سے دھویا گیا۔ تو آخر کیا نقص تھا آپ میں جس کو ختم کرنے کے لیے ایسا کرنا پڑا ۔ علما نے اس کے مختلف جوابات دیے۔ جب مجھ پر یہ سوال کیا گیا تو میں نے کہا کہ آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ قلب محمد کو آبِ زم زم سے فیض دیا گیا۔ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آب زم زم کو قلب محمد سے فیض دیا گیا۔ لوگوں نے مان لیا اور مطمئن ہو گئے۔
نوائے منزل:پاکستان میں بے شمار دینی تربیتی اور انقلابی جماعتیں موجود ہیں۔ مگر آج تک کوئی تبدیلی رونما نہ ہو سکی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
سرور عالم نے 23 سال کاجو تبلیغ کا کام کیا 10 سال مکہ مشرفہ اور 13 سال مدینہ منورہ اس کے 5 مراحل ہیں۔
پہلا مرحلہ دعوت کا ہے۔ یعنی دعوت اسلامی۔
دوسرا مرحلہ تربیت اسلامی: دعوت کےساتھ ساتھ تربیت بھی لازم ہے ۔
تیسرا مرحلہ تنظیمِ اسلامی: تربیت کے بعد نظم و ضبط قائم کرنا بھی لازم ہے۔
چوتھا مرحلہ تحریکِ اسلامی: اس کے بعد تحریک کا مرحلہ آتا ہے۔ اور تحریک کےبعد پانچواں مرحلہ انقلاب کا ہے۔ اس زاویے سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ مستقل جماعتوں کے نام نہیں ہیں۔ بلکہ یہ مراحل ہیں رسول اللہ کی تبلیغی مشن کے۔ ہم ان مراحل کو سمجھنے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ ہم تبلیغ کےمرحلے پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور نعرہ انقلاب کا لگا دیتے ہیں۔جس میں کامیابی نہیں ہوتی۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر اسرار صاحب پی ٹی وی پر آئے اور خوب چھائے۔ انہوں نے انقلاب کی بات شروع کردی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار خون ریزی ہوگی اس کے بعد انقلاب آ جائے گا۔جب صحافیوں سے سامنا ہوا تو ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیاکہ اگر بالفرض آپ انقلاب لے آتےہیں اور اسی خون ریزی کے دوران ہندوستان کی افواج سرحدوں پر حملہ کر دیتی ہیں تو آپ کے انقلاب کا کیا بنے گا۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ اس پرایک کارٹونسٹ نے ایک کارٹو ن بھی بنایا جس میں دکھایا گیا کہ ڈاکٹرصاحب پی ٹی وی کے سٹیشن سے باہر نکل رہے ہیں۔ اور اس کے نیچے ایک شعر لکھا گیا کہ ۔
؎ نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
انقلاب کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ مراحل کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
نوائے منزل: آپ قارئین نوائے منزل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ہر بندہ اپنے اندر تبدیلی لائے۔ ہم نے ڈنڈا پکڑا ہوا ہے اور دوسروں کو ٹھیک کرنے کےلیے نکلے ہوئے ہیں۔ اگر ہم خود کو ٹھیک کرنا شروع کر دیں بہت جلد معاشرے میں تبدیلی آ سکتی ہے۔
نوٹ: یہ انٹرویو آڈیو ریکارڈ کیا گیا تھا، بعد میں نوائے منزل کی ٹیم نے چیدہ چیدہ باتیں شائع کیں۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.