You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’اللہ میاں تھلے آ‘‘
شریعت کی روشنی میں
کچھ دن قبل پاکستان کے معروف اشاعتی ادارے فیروز سنز(پرائیوٹ) لیمیٹڈکی ریٹیل شاپ واقع مال روڈ لاہور جانا ہوا۔ اک کتاب کے سرورق پر نظر پڑی تو پھر ہٹ نہ سکی چونکہ کتاب کا نام کفر صریح پرمشتمل تھا چنانچہ تحریر ہے:
’’اللہ میاں تھلے آ‘‘
یعنی اللہ میاں نیچے آ۔
میں نے فوراًکتاب پکڑی ، رقم ادا کی اور گھر لا کر کتاب کا مطالعہ کیا ،معلوم ہوا کہ اس میں ایک طویل پنجابی نظم میں شان اُلوہیت کی صریح گستاخیاں کی گئی ہیں۔شاعر کا نام ’’سائیں اختر لہوری‘‘ ہے۔کتاب کے صفحہ نمبر ۴ کے مطابق یہ کتاب کا پانچواں ایڈیشن ہے،پہلی بار ۱۹۹۹ء میں طبع ہوئی۔
کتاب کے آغاز میں ’’سوچ سمندر دیاں چھلاّں‘‘ کے عنوان سے پنجابی زبان میں محمد اقبال محمدؔ ایڈووکیٹ(استاد دامن اکیڈمی،ٹکسالی گیٹ، لاہور) کا پیش لفظ ہے۔ موصوف اپنے پیش لفظ میں اس نظم کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ دی وحدانیت طاقت تے قدرت نوں تسلیم کر دیاں ہوئیاں،سائیں جی نے سماج دے دُکھ،بُکھ،ننگ، ظلم،جبر،قتل،چوری، ڈکیتی،غلامی، ناانصافی تے لُٹ مار جہے مقامی، قومی تے بین الاقوامی مسئلیاں ول دھیان دین تے مکاون لئی قادر مطلق اللہ تعالیٰ نال قدیمی سانجھ نوں قائم رکھدیاں ہوئیاں،سانجھ پُریت تے مدد لئی سد مار کے اپنے آپ نوں تے سماج دا کوڑھ تے کوہجھ دُور کرن دا جتن کرن والے سجناں نُوں ہمت تے حوصلہ دین دا راہ کڈھیا اے تاں جے سماج دے کوڑھ کولوں تنگ آئے ہوئے لوکی گالھ کڈھن یا چیکاں مارن دی تھاں ’’اللہ میاں تھلے آ‘‘ دا ورد کر کے ایس کوڑھ نُوں ختم کرن دا سدّا دے سکن۔‘‘
(اللہ میاں تھلے آ، ص:۱۸مطبوعہ فیروز سنزپرائیویٹ لیمیٹڈ،لاہور)
اس عبارت کا خلاصۃً اردو ترجمہ کچھ یوں ہے:
’’اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، طاقت اور قدرت کو تسلیم کرتے ہوئے ، سائیں جی نے سماج کے دُکھ،بھوک،ننگ، ظلم،جبر،قتل،چوری، ڈکیتی،غلامی، ناانصافی اور لوٹ مار جیسے مقامی، قومی اور بین الاقوامی مسئلوں کی طرف توجہ مبذول کرانے اور ان سے نجات کے لیے قادر مطلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قدیمی تعلق کو قائم رکھتے ہوئے،پیار دوستی اورمدد کے لئے پکار کر اپنے آپ کو اورسماج کے کوڑھ اور میلے پن کو دُور کرنے کی کوشش کرنے والے اصحاب کو ہمت و حوصلہ دینے کی راہ نکالی ہے تاکہ سماج کے کوڑھ(میلے پن)سے تنگ آئے ہوئے لوگ گالیاں دینے اور چیخ و پکار کرنے کی بجائے ’’اللہ میاں تھلے آ‘‘(یعنی اللہ میاں نیچے آ) کا ورد کر کے اس کوڑھ کو ختم کرنے کی صدا بلند کر سکیں۔‘‘
جناب اقبال صاحب کے اس تبصرہ کی حقیقت کتاب سے کس درجہ مطابقت ہے،اس کا اندازہ قارئین کرام کوآئندہ چند سطور میں ہو جائے گا۔ ہم یہاں اس نظم کے چند اشعار بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں جو کہ خالصتاً کفریہ مضامین پر مشتمل ہیں۔
نقل کفر کفر نباشد
نظم کے کل قطعات ۷۱ ہیں اور ایک کفر کی تکرار تو تمام قطعات میں پائی جاتی ہے جو کہ کتاب کے سرورق پر جلی حروف میں تحریر ہے ’’اللہ میاں تھلے آ‘‘ یعنی اللہ میاں نیچے آ۔
یوں تو اللہ کو’’ میاں‘‘ کہنے سے بھی علمائے کرام نے سختی سے منع کیا ہے کیونکہ اس کے دیگر معانی میں خلاف شان اُلوہیت کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے-لیکن ہم یہاں اس سے صرف نظر کرتے ہوئے چند ان کفریات کی طرف توجہ مبذول کراناچاہتے ہیں جو کہ نہایت صریح ہیں اور شاعر کی بے باکی اور گستاخی پر دال ہیں۔ سرورق پر کتاب کا نام یوں لکھا گیا ہے:
’’سُچے رب دے حضور دُکھی جگ دی پکار…اللہ میاں تھلے آ‘‘
یعنی سچے رب کی بارگاہ میں دُکھیاری خلقت کی فریاد…اللہ میاں نیچے آ۔
شاعر سائیں اختر لہوری نے اپنے خیالات فاسدہ کی نسبت پوری خلقت کی طرف کی ہے کہ تمام خلقت رطبُ اللسان ہے’’ اللہ میاں نیچے آ‘‘۔ یہ مصنف کانہایت صریح کذب اور بہتان ہے۔ امت مسلمہ اگرچہ اس وقت نہایت مشکل حالات سے گزر رہی ہے لیکن ان نازک لمحات میں بھی کوئی مسلمان اس قدر بے باکی نہیں کرسکتا بلکہ سب ربّ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی نیاز مندی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے گڑگڑاتے ہیں، عاجزی کرتے ہیں،اشکباری کرتے ہیں اور اُسی کو اپنے دُکھوں ،مصائب و مشکلات کا حل کرنے والا یقین کرتے ہیں۔
اس ایک مصرع میں دوسرا کفر ’’ تھلے آ‘‘(نیچے آ)ہے یعنی شاعر کے خیال میں اللہ کسی بلند مکان یا آسمان پر مکین ہے جس سے اللہ عزوجل کے لیے جسم اور مکان کا ہونا لازم آتا ہے جو کہ صریح کفر ہے ۔ اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل جسم سے پاک ہے ،مکان سے پاک ہے۔
تیسرا کفر ’’تھلے آ‘‘ کا پنجابی زبان میں استعمال کے لحاظ سے لازم آتا ہے کیونکہ لہجے میں ذرا سی درشتگی اور تلخی کے ساتھ یہی الفاظ تحقیر اور دھمکی کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں،تاہم بایں معنی کفر پر محمول ہونا شاعر کی نیت پر مبنی ہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک اشاعتی ادارہ اللہ عزوجل کے ساتھ کُھلا تمسخر ،ٹھٹھا بلکہ توہین پر مشتمل کتاب شائع گزشتہ تیرہ چودہ سال سے شائع کر رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، حتی کہ یہ کتاب کاپی رائٹ قوانین کے تحت رجسٹرڈ بھی ہو گئی( جیسا کہ ناشر نے کتاب کے آغاز میں تحریر کیا ہے)۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
قطعات ملاحظہ فرمائیں ہم نے سہولت کی خاطرہر قطعہ کے ساتھ خلاصۃً اردو ترجمہ کرنے کی حتی المقدور سعی کی ہے(قطعات کے نمبر شمار نظم کی ترتیب کے مطابق ہیں):
قطعہ نمبر: ۱
اللہ میاں تھلے آ
اپنی دنیا ویہندا جا
یا اسمانوں رزق ورھا
یا فر کر جا مُک مُکا(صفحہ نمبر:۴۳)
یعنی اللہ میاں نیچے آ،اپنی دنیا کو دیکھتا جا، یا تو آسمان سے رزق کی فراوانی کر یا پھر مُک مُکا کر جا۔ (مُک مُکا کا مطلب ختم کرنا اور محاورۃً Dealکے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔)
شعر میں شامل کفریات:
۱۔اللہ میاں نیچے آ
۲۔مُک مُکا کرنا
قطعہ نمبر:۲
تینوں دِھی ویاہنی پیندی…نانکی چھک بنانی پیندی
رُسی بھین منانی پیندی…لتھ جاندے سبھ تیرے چا
اللہ میاں تھلے آ(صفحہ نمبر:۴۳)
یعنی اے اللہ ! اگر تجھے اپنی بیٹی کا بیاہ کرنا پڑتااور اپنی نواسی کی شادی پر سامان جہیز دینا پڑتا(نانکی چھک-اہل پنجاب میں اس سامان کو کہتے ہیں جو کہ ننھیال کی طرف سے نواسی کی شادی پر جہیز میں دیا جاتا ہے۔)اللہ ! اگر تجھے اپنی ناراض بہن کو منانا پڑتا تو تیرے سب شوق ختم ہو جاتے…اللہ میاں نیچے آ۔
شعر میں شامل کفریات:
۱۔اللہ عزوجل کے لیے اولاد کا تصور پیش کرنا۔
۲۔اللہ عزوجل کے لیے بہن کا تصور پیش کرنا۔
۳۔ اللہ عزوجل کو عاجز و بے بس ظاہر کرنا
۴۔ اللہ عزوجل کے شوق کا ختم ہونا۔
۵۔اللہ میاں نیچے آ۔
قطعہ نمبر:۳
دِھیاں نُوں تُوں جمنے دیندوں…کُڑماں دے تُوں طعنے سہندوں
نال شریکاں کدے نہ بہندوں…مٹی جاندی کپڑے کھا
اللہ میاں تھلے آ(صفحہ نمبر:۴۳)
یعنی اے اللہ! تجھے بیٹیوں کے گھربچوں کی ولادت پر تحائف دینے پڑتے اور تجھے اس کے سُسرال سے طعنے سہنے پڑتے تو تُورشتہ داروں کے ساتھ بیٹھنے سے مکمل اجتناب کرتااور مٹی تیرا لباس کھا جاتی…اللہ میاں نیچے آ۔
شعر میں شامل کفریات:
۱۔اولاد کا اثبات۔
۲۔رشتہ داروں کا اثبات۔
۳۔ اللہ عزوجل کے لیے جسم کا تصور۔ کہ لباس پہننے کے لیے جسم کا ہونا
ضروری ہے۔
۴۔اللہ میاں نیچے آ۔
قطعہ نمبر:۴
تیرے گھر نہ دانے ہُندے…پاٹے لیف پرانے ہندے
کملے لوک سیانے ہندے… پا دیندے تینوں گھبرا
اللہ میاں تھلے آ
یعنی اے اللہ!تیرے گھر کھانے کو گندم نہ ہوتی، اوڑھنے کو پھٹے پرانے لحاف بھی نہ ہوتے، تو تیری اولاد اور گھر کے افراد یوںتیرا گھیراؤ کرتے کہ تُو گھبرا جاتا…اللہ میاں نیچے آ۔
شعر میں شامل کفریات:
۱۔اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا گھر یعنی مکان ثابت کرنا۔
۲۔اللہ عزوجل کے لیے محتاجی کا تصور پیش کرنا۔
۳۔ پھٹے پرانے بستروں کا تصور۔
۴۔اہل و عیال کا تصور۔
۵۔اللہ عزوجل کے لیے کھانے پینے کا تصور۔
۶۔ اللہ عزوجل کے گھبرا جانے کا تصور۔
۷۔ اللہ میاں نیچے آ۔
قطعہ نمبر:۵
تیرا کوٹھا چوندا رہندا…بھجدا رہندوں اُٹھدا بہندا
دِسدا نہ تینوں چڑھدا لہندا…اُگ پیندا ہر پاسے کھا
اللہ میاں تھلے آ
یعنی اے اللہ!تیرے گھر کی چھت سے پانی ٹپکتا رہتا اور تُو اٹھتے بیٹھتے اس پانی سے بھیگتا رہتا، تجھے روز وشب گزرنے کی خبر بھی نہ ہوتی اور گھر کے ہر طرف گھاس اُگ جاتی…اللہ میاں نیچے آ۔
شعر میں شامل کفریات:
۱۔اللہ عزوجل کے لیے گھر کا اثبات اور وہ بھی اس قدر توہین کے ساتھ کہ
اس گھر کی چھت سے بارش کا پانی ٹپکتا ہو۔
۲۔اللہ عزوجل کے لیے جسم کا اثبات بایں معنی کہ اٹھتے بیٹھتے چھت سے
بارش کا ٹپکتا پانی سر پہ پڑتا ہو۔
۳۔ اللہ عزوجل کو زمانہ یعنی اوقات میں مقید کرنا۔
۴۔ اللہ عزوجل کو بے خبر ظاہر کرنا۔
۵۔اللہ عزوجل کے لیے نیند کا تصور (پھٹے پرانے لحاف سے)
۵۔ اللہ میاں نیچے آ۔
قطعہ نمبر:۶
تیری ماں تے پیو نہ ہُندا…گھر وچ آٹا گھیو نہ ہندا
جو تُوں چاہندوں سو نہ ہندا…ویہندا وکدی کس کس بھا
اللہ میاں تھلے آ
یعنی اے اللہ! اگر تیرے ماں باپ فوت ہو جاتے،تیرے گھر سے آٹا گھی ختم ہو جاتا اور تُو جو چاہتا وہ نہ ہوتا تو تجھے پتہ چلتا کہ کس بھاؤ بکتی ہے یعنی تجھے تیری حیثیت پتہ چل جاتی…اللہ میاں نیچے آ۔
شعر میں شامل کفریات:
۱۔اللہ عزوجل کے لیے والدین کا تصور۔
۲۔اللہ عزوجل کے لیے مکان کا اثبات۔
۳۔ گھر سے راشن کا ختم ہونا جو کہ محتاجی پر منتج ہوتا ہے۔
۴۔ اللہ عزوجل کے حسب منشاء کام نہ ہونا۔
۵۔ اللہ عزوجل کو بے بس و لاچار ظاہر کرنا۔
۶۔ اللہ میاں نیچے آ۔
قطعہ نمبر:۹
سدھا سادا ساؤ ہوندوں…مسکیناں دا بھاؤ ہوندوں
دفتر دے وچ باؤ ہندوں…افسر دیندے مغز کھپا
اللہ میاں تھلے آ
یعنی اے اللہ! تُو اگر سیدھا سادہ سائیں ہوتا،اور کسی دفتر میں ملازم ہوتا تو افسرتیرا دماغ کھا جاتے…اللہ میاں نیچے آ۔
شعر میں شامل کفریات:
۱۔اللہ عزوجل کے لیے انسان ہونے کے تصور۔
۲۔اللہ عزوجل کے لیے ملازمت کا تصور۔
۳۔ جسمانیت کا اقرار۔
۴۔ اللہ عزوجل کا مخلوق سے عاجز آنے کا تصور۔
۵۔ اللہ میاں نیچے آ۔
قطعہ نمبر:۱۲
تیرے گھر لئی چندہ منگدے…ڈر دے لوک نہ کولوں لنگھدے
سب نُوں گھر تے دے نہ سکیا…اپنا گھر تے آپ بنا
اللہ میاں تھلے آ
یعنی (مولوی لوگ)تیرے گھر(مسجد) کی تعمیر کے لیے چندہ مانگتے پھرتے ہیں ،لوگ ڈرتے ہوئے راہ بدل لیتے ہیں۔(اے اللہ !) تُو پوری مخلوق کو تو گھر نہیں دے سکا، کم از کم اپنا گھر تو خود بنا لے…اللہ میاں نیچے آ۔
شعر میں شامل کفریات:
۱۔اللہ سب لوگوں کے لیے گھر مہیا کرنے سے عاجز رہا۔
۲۔اللہ میاں نیچے آ۔
قطعہ نمبر: ۱۳
نیک محمد کدھر جاوے …روٹی رزق حلال کماوے
تیرا حکم تے طیب روزی…بن گیا اوہدے گل دا پھاہ
اللہ میاں تھلے آ
یعنی سیدھا سادہ مسلمان کدھر جائے،روٹی روزی تلاش کرے، تیرے حکم (یعنی عبادات)ا ور حلال رزق کی طلب اس کے گلے کا پھندا بن گئی ہے …اللہ میاں نیچے آ۔
شعر میں شامل کفریات:
۱۔اللہ عزوجل کے نازل کردہ احکام مخلوق کے گلے کا پھندا بن گئے ہیں۔
۲۔اللہ میاں نیچے آ۔
اسی طرح صفحہ نمبر ۵۴ کے آخری قطعہ میں ایک مصرع ’’تینوں وی لا گئے نی دائ‘‘( یعنی اے اللہ! یہ لوگ تجھ سے بھی داؤ کھیل گئے ہیں)صریح کفرہے۔
صفحہ نمبر ۶۴ پر ایک قطعہ یوں تحریر ہے:
کیوں کیتے نی ماڑے پیدا…کیہ سی تینوں ایہدا فیدا
نہ کوئی کلیہ نہ کوئی قیدا…تگڑے لیندے لُٹ لُٹا
اللہ میاں تھلے آ
یعنی (اے اللہ!) تُو نے کمزوروں،غریبوں کو کیوں پیدا کیا، اس تخلیق میں تیرا کیا مفاد تھا؟ نہ کوئی اُصول نہ قاعدہ،طاقتور کمزور کو لوٹ رہے ہیں…اللہ میاں نیچے آ۔
شعر میں شامل کفریات:
۱۔اللہ عزوجل سے شکوہ کرنا کہ تُو نے کمزوروں اور غریبوں کو کیوں پیدا کیا ہے۔
۲۔مخلوق کی تخلیق میں رب تعالیٰ کے لیے مفاد کا تصور۔
۳۔ اللہ میاں نیچے آ۔
اب آخر ی قطعہ نقل کیا جارہا ہے :
فر وی تینوں سجدے کرناں…ازمائشاں لئی دُکھڑے جرناں
مظلوماں لئی جیوناں مرناں…ظالم میتھوں رہن خفا
اللہ میاں تھلے آ
یعنی اے اللہ! ان سب مصائب و آلام کے باوجود میں تجھے سجدے کرتا ہوں ،آزمائشیں مول لیتا ہوں،رنج و غم سہتا ہوں، مظلوموں کی خاطر جان کی بازی لگادیتا ہوں حتّٰی کہ ظالم لوگ مجھ سے خفا رہنے لگے ہیں…اللہ میاں نیچے آ۔
یوں تو آخری مصرع کے سوا اس قطعہ میں اورکوئی کفر نہیں پایا جاتا لیکن اس شعر کو شاعر نے کتاب کے صفحہ نمبر ۳۷ پر ’’حمد‘‘ کے عنوان سے درج کیا ہے، اب قارئین کرام اس شاعر کی علمی استعداد کا اندازہ خود کر لیں کہ جس شعر میں شاعر اپنی مدح بیان کر رہا ہے اس کو رب تبارک و تعالیٰ کی حمد کے عنوان سے نقل کر دیا۔
قارئین کرام! آپ نے اس نظم میں پائے جانے والے صریح کفریات کو ملاحظہ کیا،جن اوصاف کی نسبت حضرت قادر مطلق سے کی گئی ہے وہ سراسر شان اُلوہیت کی تنقیص و توہین پر مشتمل ہیں اور حق تبارک و تعالیٰ ان سے پاک ہے۔
سُبْحٰنِ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یََصِفُوْنَ۔
اقبال صاحب کے پیش لفظ سے اقتباس ہم نے آغاز مضمون میں نقل کیا،موصوف علم و فہم اور قوت ادراک سے اس قدر عاری ہیں کہ ان صریح کفریات میں ان کو رب تعالیٰ کی قدرت مطلقہ کا اظہار نظر آتاہے اور کہتے ہیں کہ مخلوق ان دُکھوں تکلیفوں پر آہ و بُکا،چیخ و پکار کرنے کی بجائے ’’اللہ میاں تھلے آ‘‘ کا ور د کرے۔
ایک صاحب مسمی جاوید رسول نگری اس کفریہ نظم لکھنے پر شاعر کی یوں ہمت بندھاتے ہیں:
’’سائیں صاحب کو دیکھتے ہی مجھے ان کی نظم ’’اللہ میاں تھلے آ‘‘یاد آ جاتی ہے تو بے اختیار میرے منہ سے نکلتا ہے:
اللہ میاں تھلے آ سائیں اختر واہ بھئی واہ
(اللہ میاں تھلے آ،مطبوعہ فیروز سنز -صفحہ:35)
والعیاذ باللہ تعالیٰ
الحاصل یہ کہ شاعر اپنی حد درجہ بے باکی اور گستاخی کے سبب کفر کا مرتکب ہوا ،کتاب کے ناشر،معاونین،مقرظین،مؤیدین اور ان صریح کفریہ اشعار کو سن کر لطف اندوز ہونے والے قارئین سب پر توبہ کرنا اور تجدید ایمان کرنا فرض ہے،اگر شادی شدہ تھے تو تجدید نکاح بھی کرنا ہو گی اور کسی سے بیعت کی تھی تو وہ بیعت بھی فسخ ہو گئی۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اس کتاب کی اشاعت پر پابندی لگائے اور شاعر اور ناشر کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کتاب کی بھر پور مذمت کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقدیس پر پہرہ دیتے ہوئے حق وصداقت کا علم بلند کریں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ایسے گستاخانہ نظریات سے اپنی پناہ میں رکھے،ایمان کی سلامتی عطا فرمائے ،ایمان پر زندگی اور اسی پر موت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و الہ وسلم۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.