You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بارگاہ الٰہی میں وسیلہ بنا کر دعا مانگنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ اسی کو توسل و استغاثہ و تشفع وغیرہ مختلف الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا کے دربار میں وسیلہ بنا نا یہ حضرات انبیاء مرسلین کی سنت اور سلف صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ اور یہ توسل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ سے پہلے آپ کی ظاہری حیات میں اور آپ کی وفات اقدس کے بعد تینوں حالتوں میں ثابت ہے۔
چنانچہ ہم یہاں تینوں حالتوں میں آپ سے توسل کرنے کی چند مثالیں نہایت ہی اختصار کے طورپر ذکرکرتے ہیں۔
(۱) ولادت سے قبل تَو سُّل
روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے دنیا میں آ کرباری تعالیٰ سے یوں دعا مانگی کہ
یَارَبِّ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ اَنْ تَغْفِرَ لِیْ
اے میرے پروردگار! میں تجھ سے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف فرما دے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے آدم ! تم نے محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو کس طرح پہچانا حالانکہ میں نے ابھی تک ان کو پیدا بھی نہیں فرمایا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! جب تو نے مجھے پیدا فرما کر میرے بدن میں روح پھونکی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ عرش مجید کے پایوں پر لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲلکھا ہوا ہے۔ اس سے میں نے سمجھ لیا کہ تو نے جس کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر عرش پر تحریر کرایا ہے وہ یقینا تیرا سب سے بڑا محبوب ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم (علیہ السلام) بے شک تم نے سچ کہا وہ میرے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہیں چونکہ تم نے ان کو میرے دربار میں وسیلہ بنایا ہے اس لئے میں نے تم کو معاف کر دیا اور سن لو کہ اگر محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نہ ہوتے تو میں تم کو پیدا نہ کرتا۔ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت فرمایا ہے۔(1) (روح البیان سورۂ احزاب ص۲۳۰)
(۲) ظاہری حیات اقدس میں توسل
حضرات صحابہ کرام آپ کی مقدس مجالس میں حاضر ہو کر جس طرح اپنی دین و دنیا کی تمام حاجتیں طلب فرماتے تھے اسی طرح اپنی دعاؤں میں آپ کو وسیلہ بھی بنایا کرتے تھے۔ بلکہ خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو یہ تعلیم دی کہ وہ اپنی دعاؤں میں رسول کی مقدس ذات کو خداوند تعالیٰ کے دربار میں وسیلہ بنائیں۔ چنانچہ ''معجزات'' کے ذکر میں آپ ایک نابینا کے بارے میں یہ حدیث پڑھ چکے کہ ایک نابینا بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ اﷲ تعالیٰ سے دعا کردیں کہ وہ مجھے عافیت بخشے آپ نے فرمایا کہ اگرتو چاہے تو میں دعا کر دیتا ہوں اور اگر تو چاہے تو صبر کر صبر تیرے حق میں اچھا ہے۔ جب اس نے دعا کے لئے اصرار کیا تو آپ نے اس کو حکم دیا کہ تم اچھی طرح وضو کرکے یوں دعا مانگو کہ
اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَامُحَمَّدُ اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ
یااللہ! میں تیری بارگاہ میں سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی،نبی رحمت کا وسیلہ پیش کرتا ہوں یا محمد! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں آپ کا وسیلہ پیش کیا ہے اپنی اس ضرورت میں تا کہ وہ پوری ہو جائے یا اﷲ! تو میرے حق میں حضور کی شفاعت قبول فرما۔
اس حدیث کو ترمذی و نسائی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے فرمایا کہ ھذا حدیث حسن صحیح غریب اور امام بیہقی و طبرانی نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے مگر امام بیہقی نے اتنا اور کہا ہے کہ اس نابینا نے ایسا کیا اور اس کی آنکھیں اچھی ہوگئیں۔ (1)(وفاء الوفا جلد۲ ص۴۳۰)
دعاء نبوی میں وسیلہ
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کاجب انتقال ہوا اور ان کی قبر تیار ہو گئی تو خود حضوراکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کی قبر کی لحد کھودی پھر اس قبر میں لیٹ کر آپ نے یوں دعا فرمائی کہ
یااﷲ!میری ماں(چچی)فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اوراس پر اس کی قبر کو کشادہ فرما دے۔ بوسیلہ اپنے نبی کے اور ان نبیوں کے وسیلہ سے جو مجھ سے پہلے ہوئے ہیں کیونکہ تو ارحم الراحمین ہے۔ (وفاء الوفاء جلد۲ ص۸۹)
جب حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بچپن میں ابو طالب کی کفالت میں تھے تو حضور کی یہ چچی یعنی ابو طالب کی بیوی فاطمہ بنت اسد آپ کا بڑا خاص خیال رکھتی تھیں یہ اسی احسان کا بدلہ تھا کہ آپ نے ان کو اپنی چادر مبارک کا کفن پہنایا اور خود اپنے دست رحمت سے اُن کی قبر کی لحدکھودی اور ان کی قبر میں کچھ دیر لیٹ کر دعا فرمائی۔
اﷲ اکبر! واللہ!اس قبر میں قیامت تک رحمت کے پھولوں کی بارش ہوتی رہے گی جس قبر والے پرر حمۃ للعالمین کی رحمت کا اتنا بڑا بڑاکرم ہوا۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی نَبِیِّکَ نَبِیِّ الرَّحَمْۃِ وَاٰلِہِ وَصَحْبِہٖ دَائِمًا اَبَدًا
(۳) وفات اقدس کے بعد توسل
وفات اقدس کے بعد بھی حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اپنی حاجتوں اور مصیبتوں کے وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی دعاؤں میں وسیلہ بنایا کرتے تھے بلکہ آپ کو پکار کر آپ سے استغاثہ کیا کرتے تھے۔
بارش کے لئے استغاثہ
حضرت امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبر انور پر حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ !(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرمائیں وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا کہ تم حضرت عمر کے پاس جا کر میرا سلام کہو اوربشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں ۔اس شخص نے بارگاہ خلافت میں حاضر ہو کر خبر کر دی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ سن کر روئے پھر کہا اے رب! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں۔(وفاء الوفاء)
فتح کے لئے آپ کا وسیلہ
امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن قرط رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ اپنا خط امیر لشکر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نام مقام ''یرموک'' میں بھیجا اور سلامتی کی دعا مانگی۔ حضرت عبداﷲ بن قرط رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب مسجدنبوی سے باہر آئے تو ان کو خیال آیا کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی کہ میں نے روضہ اقدس پر سلام نہیں عرض کیا۔ چنانچہ واپس جا کر جب قبر انور کے پاس حاضر ہوئے تو وہاں حضرت عائشہ، حضرت عباس و حضرت علی و حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم حاضر تھے۔ حضرت عبداﷲ بن قرط رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان حضرات سے جنگ یرموک میں اسلام کی فتح کے لئے دعا کی درخواست کی تو حضرت علی و حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا مانگی کہ
یا اﷲ!ہم اس نبی مصطفی اور رسول مجتبیٰ کہ جن کے وسیلہ سے حضرت آدم علیہ السلام کی دعا قبول ہو گئی اور خدا نے ان کو معاف فرما دیا ان ہی کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں کہ تو حضرت عبداﷲ بن قرط پر اس کا راستہ آسان کر دے اور دور کو نزدیک کردے اور اپنے نبی کے اصحاب کی مدد فرما کر ان کو فتح عطا فرما دے۔
اس کے بعدحضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن قرط رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اب آپ جائیے۔ اﷲ تعالیٰ حضرت عمر و عباس و علی و حسن و حسین و ازواج نبی (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم)کی دعا کو رد نہیں فرمائے گا جب کہ ان لوگوں نے اس کی بارگاہ میں اس نبی کا وسیلہ پکڑا ہے جو اکرم الخلق ہیں۔(فتوح الشام جلد اول ص۱۰۵)
حضرت عمر کی دعاء میں وسیلہ
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب ان کے دور خلافت میں قحط پڑ جاتا تھا تو وہ بارش کے لئے اس طرح دعا مانگا کرتے تھے کہ
یااﷲ! ہم تیرے نبی کو وسیلہ بنا کر دعا مانگا کرتے تھے تو اس وقت تو ہم کو بارش دیاکرتاتھااب ہم تیرے دربارمیں تیرے نبی کے چچا(حضرت عباس)کو وسیلہ بناکر دعا کرتے ہیں لہٰذا تو ہم کو بارش عطا فرما۔
(بخاری جلد۱ ص۱۳۷ باب سوال الناس الامام الاستسقاء)
الغرض صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد تابعین و تبع تابعین اور دوسرے سلف صالحین نے ہمیشہ حضور رحمۃللعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے توسل و استغاثہ کا سلسلہ جاری رکھا اور بحمدہ تعالیٰ اہل سنت و جماعت میں آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ اور ان شاء اﷲ تعالیٰ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس سلسلہ میں سینکڑوں ایمان افروز واقعات پیش نظر ہیں۔ لیکن کتاب کے طویل ہو جانے کا خطرہ قلم پر کرفیو لگائے ہوئے ہے پھر بھی چند واقعات تحریر کرتا ہوں۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسّی دینار عطا فرمائے
مشہور حافظ الحدیث حضرت محمد بن منکدر (متوفی ۲۰۵ھ) کا بیان ہے کہ ایک شخص نے میرے والد کے پاس اسّی دینار بطور امانت رکھے اور یہ کہہ کر جہاد میں چلا گیا کہ میری واپسی تک اگر تمہیں اس کی ضرورت پڑے تو خود خرچ کر لینا۔ والد نے قحط سالی میں یہ رقم خرچ کر ڈالی۔ اس شخص نے جہاد سے واپس آ کر اپنی رقم کا مطالبہ کیا۔ والد نے اس سے وعدہ کر لیا کہ کل آنا اور رات مسجد نبوی میں گزاری کبھی قبر انور سے لپٹتے، کبھی منبر اطہر سے چمٹتے اسی حال میں صبح کر دی ابھی کچھ اندھیرا ہی تھا کہ ناگہاں ایک شخص نمودار ہوا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اے ابو محمد! یہ لو۔ والد نے ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک تھیلی ہے جس میں اسی دینار ہیں صبح کو والد نے وہی دینار اس شخص کو دے دئیے۔
قبر انور سے روٹی ملی
مشہوربزرگ اورصوفی حضرت ابن جلادرحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کابیان ہے کہ میں مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور فاقہ سے تھامیں نے قبر انور پر حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)میں اپ کامہمان ہوں اتناعرض کرکے میں سوگیا۔خواب میں حضورنبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھے ایک روٹی عنایت فرمائی آدھی میں نے کھالی۔ جب آنکھ کھلی تو آدھی روٹی میرے ہاتھ میں تھی۔
امام طبرانی کو کیسے کھانا ملا؟
امام ابو بکر مقری کہتے ہیں کہ میں اور امام طبرانی اور ابو شیخ تینوں حرم نبوی میں فاقہ سے تھے جب عشاء کا وقت آیا تو میں نے قبر شریف کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) ہم لوگ بھوکے ہیں۔ یہ عرض کرکے میں لوٹ آیا۔ امام ابو القاسم طبرانی نے مجھ سے کہا کہ بیٹھو رزق آئے گا یا موت۔ ابوبکر مقری کا بیان ہے کہ میں اور ابو الشیخ تو سو گئے مگر طبرانی بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک علوی نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہم نے کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دو غلام ہیں جن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ٹوکری ہے جو قسم قسم کے کھانوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہم لوگوں نے بیٹھ کر کھایا اور خیال کیا کہ بچے ہوئے کھانے کو غلام لے لے گا مگر وہ باقی کھانا بھی ہمارے پاس چھوڑ کر چلا گیا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو علوی نے ہم سے کہا کہ کیا تم نے حضور نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فریاد کی تھی کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خواب میں مجھے حکم دیا کہ میں تمہارے پاس کچھ کھانا لے جاؤں۔
ایک ظالم پر فالج گرا
ایک شخص نے روضہ اقدس کے پاس نماز فجر کے لئے اذان دی اور جونہی اس نے ''اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ'' کہا، خدا م ِمسجد میں سے ایک شخص نے اٹھ کر اس کو ایک تھپڑ مارا۔ اس شخص نے رو کر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ''آپ کے حضور میں میرے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے؟'' اسی وقت اس خادم پر فالج گرا۔ اسے وہاں سے اٹھا کر لے گئے اور وہ تین دن کے بعد مر گیا۔
(تذکرۃ الحفاظ، مصباح الظلام و کتاب الوفاء وغیرہ)
الغرض حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے توسل اور استغاثہ جائز بلکہ مستحسن ہے۔ یہی و جہ ہے کہ لاکھوں علماء ربانیین و اولیاء کاملین ہر دور میں بزرگان دین سے نظم و نثرمیں توسل واستغاثہ کرتے رہے اوریہی اہل سنت و جماعت کا مقدس مذہب ہے۔
حضرت امامِ اعظم کا استغاثہ
اگر ہم اس کی مثالیں تحریر کریں تو کتاب بہت طویل ہو جائے گی مثال کے طور پر ہم صرف امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قصیدہ میں سے تین اشعار تبرکاً نقل کرتے ہیں جن میں حضرت امام موصوف نے کس طرح درباررسالت میں اپنا استغاثہ پیش کیا ہے اس کو بہ نگاہ عبرت دیکھئے ۔ ملاحظہ فرمائے۔
یَا سَیِّدَ السَّادَاتِ جِئْتُکَ قَاصِدًا
اَرْجُوْا رِضَاکَ وَاَحْتَمِیْ بِحِمَاکَ
اَنْتَ الَّذِیْ لَوْلَاکَ مَا خُلِقَ امْرَؤٌ
کَلًّا وَّ لَا خُلِقَ الْوَرٰی لَوْلَاکَ
اَنَا طَامِعٌ بِالْجُوْدِ مِنْکَ وَلَمْ یَکُنْ
لِاَ بِیْ حَنِیْفَۃَ فِی الْاَنَامِ سِوَاکَ
(قصیدۂ نعمانیہ)
ترجمہ: اے سید السادات! میں آپ کے پاس قصد کرکے آیا ہوں میں آپ کی خوشنودی کا امیدوار ہوں اور آپ کی پناہ گاہ میں پناہ گزین ہوں۔ آ پ کی وہ ذات ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کوئی آدمی پیدا نہ کیا جاتا اور نہ کوئی مخلوق عالم وجود میں آتی۔ میں آپ کے جود و کرم کا امیدوار ہوں۔ آپ کے سوا تمام مخلوق میں ابو حنیفہ کا کوئی سہارا نہیں!
واخر دعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العٰلمین واکرم الصلوٰۃ وافضل السلام
علی سید المرسلین واٰلہ الطیبین اصحابہ المکرمین وعلٰی اھل طاعتہ
اجمعین برحمتہ وھو ارحم الراحمین اٰمین یارب العالمین .
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.