You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
عقیدہ (1):
- بہت سے نبیوں پر اﷲ تعالیٰ نے صحیفے اور آسمانی کتابیں اُتاریں، اُن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں:
- تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر،
- زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر،
- اِنجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر،
-قرآنِ عظیم کہ سب سے افضل کتاب ہے، سب سے افضل رسول حضور پُر نور احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفےٰ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر۔
- کلامِ الٰہی میں بعض کا بعض سے افضل ہونا اس کے یہ معنی ہیں کہ ھمارے لیے اس میں ثواب زائد ہے، ورنہ اﷲ (عزوجل) ایک، اُس کا کلام ایک، اُس میں افضل ومفضول کی گنجاءش نہیں۔
عقیدہ (2):
- سب آسمانی کتابیں اور صحیفے حق ہیں اور سب کلام اﷲ ہیں، اُن میں جو کچھ ارشاد ہوا سب پر ایمان ضروری ہے ،
- مگر یہ بات البتہ ہوئی کہ اگلی کتابوں کی حفاظت اﷲ تعالیٰ نے اُمّت کے سپرد کی تھی، اُن سے اُس کا حفظ نہ ہوسکا،
کلامِ الٰہی جیسا اُترا تھا اُن کے ہاتھوں میں ویسا باقی نہ رہا، بلکہ اُن کے شریروں نے تو یہ کیا کہ اُن میں تحریفیں کر دیں، یعنی اپنی خواہش کے مطابق گھٹا بڑھا دیا۔
- لہٰذا جب کوئی بات اُن کتابوں کی ھمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ھماری کتاب کے مطابق ہے، ہم اُس کی تصدیق کریں گے اور اگر مخالف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ اُن کی تحر یفات سے ہے اور اگر موافقت، مخالفت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تصدیق کریں نہ تکذیب، بلکہ یوں کہیں کہ:
اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ.
اﷲ (عزوجل) اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ھمارا ایمان ہے۔
عقیدہ (3):
- چونکہ یہ دین ہمیشہ رہنے والا ہے، لہٰذا قرآنِ عظیم کی حفاظت اﷲ عزوجل نے اپنے ذِمّہ رکھی،
فرماتا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾
بے شک ہم نے قرآن اُتارا اور بے شک ہم اُس کے ضرور نگہبان ہیں۔
لہٰذا اس میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بیشی محال ہے، اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے تو جو یہ کہے کہ اس میں کے کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا، یا بڑھا دیا، یا بدل دیا، قطعاً کافر ہے، کہ اس نے اُس آیت کا انکار کیا جو ہم نے ابھی لکھی۔
عقیدہ (4):
- قرآنِ مجید، کتابُ اﷲ ہونے پر اپنے آپ دلیل ہے کہ خود اعلان کے ساتھ کہہ رہا ہے:
( وَ اِنۡ کُنۡتُمْ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثْلِہٖ ۪ وَادْعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا وَلَنۡ تَفْعَلُوۡا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ۚۖ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۴﴾ )
اگر تم کو اس کتاب میں جو ہم نے اپنے سب سے خاص بندے ( محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر اُتاری کوئی شک ہو تو اُس کی مثل کوئی چھوٹی سی سُورت کہہ لاؤ اور اﷲ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کوبلالو اگر تم سچے ہو تو اگر ایسا نہ کرسکو اور ہم کہے دیتے ہیں ہرگز ایسا نہ کر سکو گے تو اُس آگ سے ڈرو! جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
لہٰذا کافروں نے اس کے مقابلہ میں جی توڑ کوششیں کیں، مگر اس کی مثل ایک سطر نہ بنا سکے نہ بناسکیں۔
===========================
مسئلہ : اگلی کتابیں انبیا ہی کو زبانی یاد ہوتیں، قرآنِ عظیم کا معجزہ ہے کہ مسلمانوں کا بچہّ بچہّ یاد کر لیتا ہے۔
======================================
عقیدہ (5):
- قرآنِ عظیم کی سات قرائتیں سب سے زیادہ مشہور اور متواتر ہیں، ان میں معاذ اﷲ کہیں اختلافِ معنی نہیں، وہ سب حق ہیں،
- اس میں اُمّت کے لیے آسانی یہ ہے کہ جس کے لیے جو قراء ت آسان ہو وہ پڑھے
- اور حکم یہ ہے کہ جس ملک میں جو قراء ت رائج ہے عوام کے سامنے وہی پڑھی جائے، جیسے ھمارے ملک میں قرا ء تِ عاصم بروایتِ حفص، کہ لوگ ناواقفی سے انکار کریں گے اور وہ معا ذ اﷲ کلمہ کفر ہوگا۔
عقیدہ (6):
- قرآنِ مجید نے اگلی کتابوں کے بہت سے احکام منسو خ کر دیے۔
- یو ہیں قرآنِ مجید کی بعض آیتوں نے بعض آیت کو منسوخ کر دیا۔
عقیدہ (7):
- نَسخْ کا مطلب یہ ہے کہ بعض احکام کسی خاص وقت تک کے لیے ہوتے ہیں، مگر یہ ظاہر نہیں کیا جاتا کہ یہ حکم فلاں وقت تک کے لیے ہے، جب میعاد پوری ہوجاتی ہے تو دوسرا حکم نازل ہوتا ہے، جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پھلا حکم اُٹھا دیا گیا اور حقیقۃً دیکھا جائے تو اُس کے وقت کا ختم ہو جانا بتایا گیا۔
- منسوخ کے معنی بعض لوگ باطل ہونا کہتے ہیں، یہ بہت سخت بات ہے، احکامِ الٰہیہ سب حق ہیں، وہاں باطل کی رسائی کہاں...!
عقیدہ (8):
- قرآن کی بعض باتیں مُحکَم ہیں کہ ھماری سمجھ میں آتی ہیں اور بعض متشابہ کہ اُن کا پورا مطلب اﷲ اور اﷲ کے حبیب (عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم) سوا کوئی نہیں جانتا۔
- متشابہ کی تلاش اور اُس کے معنی کی کِنْکاش وہی کرتا ہے جس کے دل میں کجی ہو۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.