You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت سیدنااسلم رضی اللہ تعا لیٰ عنہ فرماتے ہیں:امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ اکثر رات کے وقت مدینہ منورہ کا دورہ فرماتے تا کہ اگر کسی کو کوئی حاجت ہو تو اسے پورا کریں ، ایک رات میں بھی ا ن کے ساتھ تھا ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چلتے چلتے اچانک ایک گھر کے پاس رک گئے، اندرسے ایک عورت کی آواز آ رہی تھی: بیٹی دودھ میں تھوڑا ساپانی ملادو ۔
لڑکی یہ سن کر بولی :امی جان !کیا آپ کو معلوم نہیں کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا حکم جاری فرمایا ہے؟ اس کی ماں بولی: بیٹی! ہمارے خلیفہ نے کیا حکم جاری فرمایا ہے؟ لڑکی نے کہا: امیر المؤمنین حضرت سید نا عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےیہ اعلان کروایا ہے کہ کوئی بھی دودھ میں پانی نہ ملائے۔
ماں نے یہ سن کر کہا: بیٹی! اب تو تمہیں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں دیکھ رہے، انہیں کیا معلوم کہ تم نے دودھ میں پانی ملایا ہے، جاؤ اور دودھ میں پانی ملادو۔ لڑکی نے یہ سن کر کہا: خدا عزوجل کی قسم! میں ہر گز ایسا نہیں کرسکتی کہ ان کے سامنے تو ان کی فرمانبر داری کروں اور ان کی غیر موجود گی میں ان کی نافرمانی کروں،اس وقت اگر چہ مجھے امیر المؤمنین حضرت سید نا عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں دیکھ رہے، لیکن میرا رب عزوجل تو مجھے دیکھ رہا ہے ، میں ہر گز دودھ میں پانی نہیں ملاؤں گی ۔
حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ماں بیٹی کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو سن لی تھی ۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا: اے اسلم(رضی اللہ تعا لیٰ عنہ)! اس گھر کو اچھی طر ح پہچان لو ۔پھر آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہساری رات اسی طر ح گلیوں میں دورہ کرتے رہے، جب صبح ہوئی تو مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا: اے اسلم(رضی اللہ تعا لیٰ عنہ)! اس گھر کی طرف جاؤ اور معلوم کرو کہ یہاں کون کون رہتا ہے؟ اوریہ بھی معلوم کرو کہ وہ لڑکی شادی شدہ ہے یا کنواری؟
حضرت سیدنا اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں اس گھر کی طر ف گیا اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ اس گھر میں ایک بیوہ عورت اور اس کی بیٹی رہتی ہے ، اور اس کی بیٹی کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی ۔معلومات حاصل کرنے کے بعدمیں حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور انہیں ساری تفصیل بتائی،
آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ فرمایا: میرے تمام صاحبزادوں کو میرے پاس بلا کر لاؤ ۔ جب سب آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے پاس جمع ہوگئے توآپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے ان سے فرمایا :کیا تم میں سے کوئی شادی کرنا چاہتا ہے؟ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عرض کی:ـ ہم تو شادی شدہ ہیں۔
پھر حضرت سیدنا عاصم بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کی: ابا جان! میں غیر شادی شدہ ہوں، میری شادی کر ا دیجئے۔چنا نچہ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے اس لڑکی کو اپنے بیٹے سے شادی کے لئے پیغام بھیجا جو اس نے بخوشی قبول کرلیا۔ اس طرح حضرت عاصم رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی شادی اس لڑکی سے ہوگئی اور پھر ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی ولادت ہوئی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.