You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اب کے داتا کا بھی دربار لہو رنگ ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
***********************************
کس نے کاٹی ہیں یہاں آکے سروں کی فصلیں
تحریر :۔ محمد احمد ترازی
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے سلسلہ تصوف سے تعلق رکھنے والے شیخ ابوالفضل نے جب دیکھا کہ اُن کے شاگرد حسین زنجانی نے اپنی روحانی تعلیم وتربیت مکمل کرلی ہے اور مقام مطلوب پالیا ہے تو ایک دن اپنے ہونہار شاگرد کو بلایا،اُسے خرقہ خلافت عطا کیا اور حکم دیا،اے حسین.....آج میں تمہیں خدائے بزرگ و برتر کے حوالے کررہا ہوں،یہاں سے دیار ہند چلے جاؤجو شرک و بت پرستی کا گڑھ بنا ہوا ہے،وہاں توحید الٰہی کا چراغ روشن کرو، اِس راہ میں تمہیں شدید مشکلات اور کڑے مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا،ایسی ہر آزمائش میں صرف اپنے اللہ کو یاد کرنا،اُسی سے مدد مانگنا،وہ یقینا تمہاری مشکل کشائی کرے گا۔“ اپنے پیرومرشد کا حکم پاکر سید حسین زنجانی نے اپنے دونوں بھائی سید یعقوب زنجانی اور سید موسیٰ زنجانی کو ساتھ لیا اور سبزوار،نیشاپور،ہرات،غزنی،جلال آباد اور پشاور سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے،اُسے اپنا مسکن بنالیا،یوں لاہور کا جنوبی علاقہ جو آج ”شاہ عالمی“ کے نام سے مشہور ہے،اِس روحانی چراغ کا پہلا طاق بنا اور شرک و بت پرستی کے اندھیروں میں اسلام کی نور پاشی کا عمل شروع ہوگیا،سید حسین زنجانی اکیس سال تک شرک و بت پرستی کی تاریکیوں میں نور توحید کا چراغ جلاتے رہے۔
دوسری طرف اس دوران ہجویر کے سید عثمان کے ہاں پیدا ہونے والے سید علی ہجویری ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیخ حسین زنجانی کے پیرومرشد شیخ ابوالفضل کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں،شیخ کی نگاہ باطن نے دیکھ لیا کہ ہجویر سے آنے والے نوجوان کی پیشانی روشن ہے،انہوں نے نوجوان سید علی ہجویری کی روحانی تعلیم و تربیت شروع کردی،کچھ عرصے بعد ایک روز شیخ ابوالفضل نے اپنے ہونہار شاگرد کو بلایا اور شفیق لہجے میں کہا،علی.... میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے قلب میں اب مضبوطی اور استقامت آگئی ہے اور تم کامیابی کے ساتھ اُس خارزار بستی کا سفر کرسکتے ہو،سید علی ہجویری نے سر جھکائے ہوئے مودب لہجے میں جواب دیا،شیخ.... یہ سب اللہ کا کرم ہے اور آپ کی دعاؤں کا فیضان ہے،شیخ نے کہا،یقینا اللہ نے تمہیں ثمر بار کردیا ہے،اب اِس کا پھل دوسروں میں بانٹنے کا وقت آگیا ہے،تم رخت سفر باندھو اور لاہور چلے جاؤ،وہاں پیاس کی شدت سے بھٹکتی خلق خدا تمہاری راہ دیکھ رہی ہے،اپنے مرشد کامل سے دوری اور فرقت کے تصور سے سید علی ہجویری کی آنکھیں بھر آئیں،ادب سے عرض کی،شیخ.... وہاں تو آپ کے مرید کامل قطب الاقطاب سید شیخ حسین زنجانی پہلے ہی موجود ہیں،اُن کی موجودگی میں میری ذات سے لوگوں کو کیا فیض حاصل ہوگا؟ شیخ نے یہ سن کر پر جلا ل لہجے میں پوچھا،علی....میں اِسے حجت سمجھو ں یا انکار ؟علی ہجویری شیخ کی مرضی جان گئے،عرض کی نہیں شیخ.... مجال انکار کہاں،فقط فرقت کے احساس سے آزردہ ہوں،شیخ کہا،میری خدمت بجالانا چاہتے ہو تو بلاتاخیر لاہور پہنچو۔
چنانچہ مرشد کے حکم کے مطابق سید علی ہجویری نے رخت سفر باندھا اور پاپیادہ سفر کرکے دو ماہ کے عرصے میں غزنی سے لاہور پہنچے، صعوبتوں سے پر کٹھن سفر میں ایک ہی سوال سارے راستے چبھتا رہا کہ قطب الاقطاب سید شیخ حسین زنجانی کی موجودگی میں میرا چراغ کہاں جلے گا،جس روز آپ لاہور میں پہنچے تو شام ہوچکی تھی، چنانچہ آپ نے شہر کے باہر ہی شب بسر کی،صبح شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک بہت بڑا جنازہ آرہا ہے،جس کے ساتھ ہزاروں لوگ آہ وزاری کررہے ہیں،آپ بھی ہجوم سے جاملے اور زار و قطار روتے ہوئے ایک شخص سے پوچھا،یہ کس کا جنازہ ہے،وہ بولا …حضرت شیخ حسین زنجانی انتقال فرماگئے ہیں،یہ سننا تھا کہ سید علی ہجویری کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،اپنے مرشد کامل شیخ ابوالفضل کی مصلحت کو نہ سمجھنے اور لاہور آنے میں عذر تراشنے کے احساس نے درد کی شدت کو اور بھی بڑھا دیا،آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے،لاہور کے لوگ حیران تھے کہ یہ اجنبی نوجوان کون ہے جو اِس قدر گریہ کررہا ہے،یہ حکمت خداوندی تھی کہ جس دن ایک چراغ گل ہوا،اُسی دن لاہور کے طاق میں ایک نیا چراغ روشن ہوگیا،غزنی کے جواں سال درویش نے سب سے پہلے ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا،مغل شہزادہ داراشکوہ نے اپنی مشہور کتاب ”سفینتہ الاولیا“ میں لکھاکہ لاہور کے علماءکو سخت اعتراض ہوا کہ قبلہ کی سمت درست نہیں،علی ہجویری نے ان کا اعتراض سنی ان سنی کردیا، مسجد تیار ہوگئی تو نوجوان درویش نے علماءکو دعوت دی،نماز پڑھائی،علماءنے کہا،ہمیں اب بھی شک ہے کہ سمت قبلہ درست نہیں ہے،حضرت علی ہجویری نے مسجد کے میناروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا… آپ حضرات ملاحظہ تو فرمائیں،علماءنے نگاہیں اٹھائیں تو دیکھا کہ عین سامنے خانہ خدا موجود ہے،حضرت علی ہجویری کا چراغ تین عشروں سے زائد تک لاہور کی فضاؤں کو جگمگاتا رہا،لاکھوں انسان سید علی ہجویری کے فیضان سے مشرف بہ اسلام ہوئے،غزنی کے یہ درویش سید علی ہجویری داتا گنج بخش کے نام سے معروف ہوئے اور 1072ءمیں دنیائے فانی سے رخصت ہوئے،لیکن صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی یہ درگاہ بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک کے لیے روحانی فیوض و برکات اور آسودگی کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
آج حضرت داتا گنج بخش کو ساری دنیا میں تصوف اور صوفیانہ تعلیمات کے سبب جانا جاتاہے،حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کا سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے،عوام آپ کو گنج بخش (خزانے بخشنے والا) اور داتا صاحب کہتے ہیں،دریائے راوی کے کنارے واقع لاہور شہر جو صوبہ پنجاب کی راجدھانی اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا ثقافتی،تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے،اسے پاکستان کا دل بھی کہتے ہیں،شاہی قلعہ،شالامار باغ،بادشاہی مسجد،مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں مغل دور کی یادگار ہیں،سکھ اور برطانوی دور کی تاریخی عمارتیں بھی اسی شہر میں موجود ہیں،لیکن جنوبی ایشیاءکی روحانی دنیا میں داتا کے دربار کی وجہ سے یہ شہر سب سے زیادہ مشہوراور داتا کی نگری کہلاتا ہے،لاہور کا داتا دربار مرجعِ خلائق ہے،جہاں روزانہ ہزاروں لوگ اکتساب فیض کیلئے آتے ہیں، داتا صاحب کے مزار پر حاضری دیتے ہیں،یہاں چوبیس گھنٹے لنگر چلتا اور درود و سلام،حمدو نعت خوانی کے نذرانے پیش کئے جاتے ہیں،کبھی کسی نے یہ خیال بھی نہیں کیا ہوگا کہ جو دربار مرجع خلائق ہے اور جہاں سے لوگوں کو روحانی سکون ملتا ہے، اُسی دربار میں ایک دن ایسا بھی آئے گا جب دہشت گرد خون کی ہولی کھیلیں گے،کوئی پاکستانی اِس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی دہشت گردقوت امن و آشتی اور روحانی تجلیات کے اِس مرکزکو بھی نشانہ بناسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ داتا گنج بخش،حضرت بہاﺅ الدین زکریا ملتانی،حضرت شاہ رکن عالم ملتانی،بابا فرید الدین،بابا بلھے شاہ وہ بزرگ ہیں،جن کی ساری زندگی کا فکر و فلسفہ اخوت و محبت،امن اور بھائی چارے پر محیط ہے،اِن بزرگوں کی ساری زندگی لوگوں کو تشدد سے دور رکھنے اور امن کی طرف لانے میں صرف ہوئی اوران کے مزارات صدیوں سے قائم ہیں،یہ وہ عرصہ ہے جس میں کبھی سکھوں نے لاہور کو تاراج کیا،تو کبھی وقت کی کوئی اور قوت پنجاب پر حملہ آور ہوئی،لیکن کیا مجال ہے کہ کسی بھی غیر مسلم قوت نے اِن صوفی بزرگوں کے مزاروں کو ذرا سی بھی گزند پہنچائی ہو،حیرت کی بات ہے کہ وہ مزارات جن کو سکھوں اورہندوﺅں نے بھی ادب اور احترام کی نظر سے دیکھا،آج اُن بزرگوں کے مزارات بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ لاہور میں داتا دربار پر خودکش حملہ جس میں 44افرادشہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے،پاکستان میں کسی مزار پر پہلا حملہ نہیں ہے،اس سے بھی قبل اسلام آباد کے قریب بری امام کے مزار پر خودکش حملے میں بیس افراد ہلاک ہوچکے ہیں،5مارچ2009ءمیں صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کے مضافات میں واقع پشتو کے مشہور صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار کے ستونوں کے ساتھ دھماکہ خیز مواد رکھ کر تباہ کر دیاگیا،6 مارچ2009ءکو نوشہرہ میں واقع بہادر بابا کے مزار کو نامعلوم افراد نے بموں سے نقصان پہنچایا،11مئی 2009ءکوخیبر ایجنسی کے لنڈی کوتل میں مقبول پشتو شاعر امیر حمزہ خان شنواری کے مزار کی بیرونی دیوار کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا،مارچ2008ءکوپشاور سے ملحق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں سرگرم لشکر اسلام نے صوبائی دارالحکومت کے قریب شیخان کے علاقے میں چار سو سال پرانا ابو سید بابا کا مزار تباہ کرنے کی ناکام کوشش کی،31جولائی2007ءکوقبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں برطانوی سامراج کے خلاف لڑنے والے حریت پسندمجاہد حاجی صاحب تورنگزئی کے مزار پر قبضہ کر لیا ،18دسمبر سال 2007ءکوعبدالشکور ملنگ بابا کے مزار کو دھماکے سے نقصان پہنچایا گیا،شدت پسندوں کا ہدف گذشتہ کئی برسوں میں محض صوفیاءکرام کے مزارات ہی نہیں رہے بلکہ کئی گدی نشینوں نے بھی اِن دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی جان گنوائی،تکفیری سوچ اور خارجی نظریات نے اِن شدت پسندوں کو سماجی مقبولیت رکھنے والے گدی نشینوں کا بھی دشمن بنا دیاہے،خیبر ایجنسی میں منگل باغ کے لشکر اسلام نے 2008ءمیں پیر سیف الرحمان کو شدید جھڑپوں کے بعد علاقہ بدر کر دیا تھا،اُن کے علاقے سوات کے گدی نشین پیر سمیع اللہ کو دسمبر میں شدت پسندوں کے خلاف لشکر کشی کے بعد ایک جھڑپ میں ہلاک کر دیا گیا،اُن کی لاش کو بھی بعد میں قبر سے نکال کر مینگورہ کے ایک چوراہے پر لٹکا دیا گیا اور نامعلوم مقام پر دفن کردیا گیا،ضلع جھل مگسی میں فتح پور کے مقام پر ایک مزار پر حملے میں تیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے،جس کی ذمہ داری صوبائی پولیس سربراہ نے کالعدم سپاہ صحابہ پر ڈالی اور اُس کے چند مبینہ اراکین کو گرفتار بھی کیا۔
لیکن گذشتہ آٹھ سو سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دہشت گردوں نے داتا دربار میں بھی خون کی ہولی کھیلی،روحانی سکون کی تلاش میں پریشان حال،نیک اور بے گناہ انسانوں کو قتل کرکے نہ صرف مزار کا تقدس مجروح کیا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کو بھی بدنام کیا،دہشت گردوں کے اِس اقدام کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،لیکن معاملات صرف مذمت سے نہیں، عملی اقدامات سے ہی درست ہو سکتے ہیں،آج دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی جرات کے سبب حضرت معین الدین اجمیری کے ”ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما“ اور مردقلندر اقبال ”سید ہجویری مخدوم امم“ کے مزارمبارک کااحاطہ خون سے لت پت ہے، کاروباری مراکز،مسلموں اور غیرمسلموں کی عبادت گاہیں اور سرکاری عمارتیں پہلے ہی غیرمحفوظ تھیں اب مادی و سماجی مسائل سے گھبرا کر روحانی سکون کی تلاش میں سرگرداں عامتہ المسلمین کی اِن پناہ گاہ کو جہاں دل اور شکم دونوں کی غذا دستیاب ہے قتل گاہ میں تبدیل کردیا گیا ہے،بت کدہ ہند میں شرک و بدعات کی تاریکی کو اسلام کی روشنی سے بدلنے والے حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے روحانی پیرو مرشد حضرت سید علی ہجویری کے مزار پر حملہ ہمارے نزدیک اسلام کی اُس روحانی اقدار پر حملہ ہے جو برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی آبیاری کا سبب بنی۔
داتا دربار پر حملہ اولیائے کرام سے محبت رکھنے والوں کی روح کو ز خمی،دل کو چھلنی اور اعصاب کو شل کردینے والا ایسا واقعہ ہے جس کے بعد پاکستان میں غم وغصے کی لہر کا دوڑنا ایک فطری امر ہے،لوگ حکومت کی ناکامیوں کے خلاف مشتعل ہو اٹھے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اِس موقع پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے،رویت ہلال کمیٹی کے مرکزی چیئرمین اور سنی رہبر کونسل کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے اس سانحہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ”یہ سانحہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جبکہ مزارات سے تعلق رکھنے والے گیلانی،قریشی،مخدوم،کاظمی اور شاہ ان مزارات کی نسبت کی برکت سے اعلیٰ اقتدار پر فائز ہیں،ان سب کے عہد اقتدار میں پاکستان کے سب سے بڑے مزار کی حرمت کی پامالی ایک المیہ اور لمحہ فکریہ ہے اور ان سب کیلئے باعث شرم ہے،ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ترجیحات بالکل مختلف ہیں اسے صرف اقتدار سے غرض ہے،عوام کی جان و مال کی کوئی پرواہ نہیں ہے،کچھ عوامی نمائندوں کا کہنا ہے کہ اب تک کسی بھی حملہ آور کو قرار واقعی سزا نہیں ملی جسکی وجہ سے حملہ آوروں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ داتا دربار پر حملے کے بعد اب پاکستان میں کوئی جگہ محفوظ بھی نہیں رہی ہے،مدرسہ، خانقاہ،مزار،تاریخی مقامات اور یہاں تک کہ مسجد یں بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں،ایک ایسا ملک جہاں صرف مسلمان بستے ہوں،وہاں ایسی مقدس جگہیں بھی اگر محفوظ نہیں تو اِس سے بڑھ کر حیرت اور افسو س کا اور کیا مقام ہو سکتا،کیا اب بھی یہ کہنے کو باقی ہے کہ دہشت گرد وں کا کوئی مذہب ہے،خود کو مسلمان کہلانے والے یہ دہشت گرد کس طرح کا اسلام پھیلانا چاہتے ہیں اور کس طرح کا معاشرہ وجود میں لاناچاہتے ہیں،یہ سب جانتے ہیں،سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی ہماری حکومت اور اس کے ذمہ دار افراد ایسے دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے رہیں گے،جنہوں نے ملک کی سلامتی،استحکام اور بقاءکو داؤ پر لگادیا ہے اور جن کی وجہ سے پوری دنیامیں اسلام کے نام لیوا شرمسار ہیں۔
حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر اِس نوعیت کا واقعہ اگرچہ باقی اِس طرح کے تمام واقعات کی طرح ہی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے،لیکن ہر شخص یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ ایک ایسی مقدس درگاہ جس کے مکین نے برصغیر میں اسلام پھیلایا،کوکس حکم یا اشارے پر نشانہ بنایا گیا،وہ کون سا ذہن ہوسکتا ہے جو اللہ کے اِن پیارے بندوں کے خلاف نبرد آزما ہے،اِس دھماکے کا مقصد بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ یہاں خود کش دھماکہ کرانے والے دراصل کسی ایسے مکتبہ فکر کا ذہن رکھتے ہیں جو بزرگان دین کی درگاہوں کے خلاف ہے،اگر ہم غور کریں تو ہمارے معاشرے میں ایسے مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہیں،جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ درباروں سے لگاؤ اچھا نہیں،یہی وہ فکر ذہن اور سوچ ہے جو بارود کے زور پر ناپختہ ذہنوں کو خود کش حملوں کی تربیت دے کر پاکستان میں انارکی پھیلارہی ہے اور اپنے خارجی خیالات و فکر پر مبنی اسلام کو دوسروں پر ٹھونسنا چاہتی ہے،جبکہ پاکستان کی اکثریت اسلام کی پیروکار اور بزرگان دین سے عقیدت و محبت رکھتی ہے۔
لیکن افسوس کہ ِاس ملک میں ایک خاص نکتہ نظر کے مذہبی رجعت پسنداکثریت کی مذہبی سوچ پر اپنی دقیانوسی خارجی سوچ کو طاقت کے زور پر مسلط کرنا چاہتے ہیں،جس کی وجہ سے سانحہ داتا دربار کے بعد اِن رجعت پسند مذہبی عناصر اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف شدید ردعمل سامنے آرہا ہے ،جو اِن سے نفرت،برات اور بیزاری کاکھلا اظہار ہے،لہٰذا اِن حالات میں بزرگان دین سے عقیدت رکھنے والے ہر مسلمان کو صبروتحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے،کیونکہ ہمارا دشمن ہماری صفوں میں دراڑیں ڈال کر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرکے تخریب کاری کے راستے پر لیجانا چاہتا ہے،عقلمندی،جذبہ حب الوطنی اور بزرگان دین سے محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ صبرواستقامت سے کام لے کر اپنے اتحاد،یکجہتی کی قوت سے دشمن کے تمام تر مذموم عزائم کو ناکام بنا دیا جائے ۔خوب کہا عرشی ملک نے کہ ....
”اب کے داتا کا بھی دربار لہو رنگ ہوا....
یہ وہ دربار کہ جو امن کا گہوارہ تھا....
یہ وہ دربار جو الفت کا رواں دھارا تھا....
جو غریبو ں کو امیروں کو بہت پیارا تھا ....
جہاں مذہب کو نہ مسلک کو تھا پرکھا جاتا....
نہ حسب کو،نہ نسب کو، جہاں دیکھا جاتا....
کوئی دیوان،جہاں،خاص نہ تھا،عام نہ تھا....
نام والا نہ تھا کوئی،کوئی بے نام نہ تھا....
جوق در جوق چلی آتی تھی خلقت ساری....
آس و امید کا،خوراک کا لنگر جاری....
بھوک مٹ جاتی دل و پیٹ کی باری باری....
کتنی صدیوں سے تھا روشن، یہ محبت کا چراغ....
زرد موسم میں بھی سرسبز رہا،عشق کا باغ....
دہریے بھی یہاں پاتے تھے عقیدت کا سراغ....
کس نے کاٹی ہیں یہاں آکے سروں کی فصلیں....
کون انساں کی مٹانے پہ تلا ہے نسلیں....
باڑ نفرت کی سرِ راہ اگانے والو....
خانقاہوں پہ جلے دیپ بجھانے والو....
بو میں بارود کی جنت کو کمانے والو....
خو د کشی کر کے بڑا جشن منانے والو....
تم کہ کرتے ہو،عقیدوں کی بنا پر حملہ....
اب کے تو تم نے کیا،بادِ صبا پر حملہ....
مردِ درویش کے پیغام ِبقاءپر حملہ....
ایک صوفی کی محبت کی صدا پر حملہ....
یہ تو حملہ ہے عقیدت پہ،وفا پر حملہ....
آس و امید پہ اور حرفِ دعا پر حملہ....
دلِ مظلوم کی ہاں آہِ رسا پر حملہ....
مار پائیں نہیں جس شخص کو صدیاں عرشی....
کس لئے کرتے ہو اس مردِ خدا پر حملہ ....“
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.