You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سرکارِ اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب 21 برس کے نوجوان تھے اُس وَقْت کا واقِعہ خود اُن ہی کی زَبانی ملاحَظہ ہو ،
چُنانچِہ فرماتے ہیں،
''سَتْرہویں شریف ماہِ فاخِر ربیعُ الآخِر ۱۲۹۳ھ میں کہ فقیر کو اکیسواں سال تھا۔ اعلیٰحضرت مصنِف عَلّام سیِدناَ الوالِد قُدِس سِرّہُ الماجِد و حضرت مُحِبُّ الرسول جناب مولیٰنا مولوی محمد عبدالقادِر صاحِب بدایونی دامت بَرَکاتہم العالیہ کے ہمراہِ رِکاب حاضِر بارگاہِ بیکس پناہ ِحُضور پُر نُور محبوبِ الہٰی نظامُ الحقِّ وَالدّین سلطانُ الْاَولیاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوا۔
حُجرہ مُقدَّسہ کے چار طرف مجالسِ باطِلہ لَہْو و سُرُوْد گرْم تھیں ۔شور و غَوغا سے کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی۔
دونوں حضراتِ عالِیات اپنے قُلوبِ مُطمئِنہ کے ساتھ حاضِرمُواجَہہ اَقدس ہوکر مشغول ہوئے ۔ اِس فقیرِ بے تَوقیرنے ہُجومِ شور و شَر سے خاطِر(یعنی دل )میں پریشانی پائی ۔
دروازہ مُطَہَرہ پر کھڑے ہوکر حضرتِ سلطانُ الْاَولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عرض کی کہ اے مولیٰ ! غلام جس کیلئے حاضِر ہوا ،یہ آوازیں اس میں خَلَل اندازہیں ۔ (لفْظ یِہی تھے یا ان کے قَریب ،بَہَرحال مضمونِ مَعْروضہ یِہی تھا ) یہ عرض کرکے بِسمِ اللہ کہہ کر دَہنا پاؤں دروازہ حُجرہ طاہِرہ میں رکھا بِعَونِ رَبِّ قدیر عَزوَجَلّ وہ سب آوازیں دَفْعَۃً گُم تھیں ۔ مجھے گمان ہوا کہ یہ لوگ خاموش ہورہے ،پیچھے پھر کر دیکھا تو وُہی بازار گَرْم تھا ۔قدم کہ رکھا تھا باہَر ہٹایا پھر آوازوں کا وُہی جوش پایا ۔ پھر بِسمِ اللہ کہہ کر دَہنا پاؤں اندر رکھا ۔ بِحَمدِاللہِ تَعَالیٰ پھر ویسے ہی کان ٹھنڈے تھے ۔اب معلو م ہوا کہ یہ مولیٰ عَزوَجَلّ کا کرم اور حضرتِ سلطانُ الْاَ ولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کرامت اور اس بندہ ناچیز پر رَحْمت و مَعُونَت ہے ۔ شکر بجا لایا اور حاضِر مُواجَہَہ عالِیہ ہوکر مشغول رہا ۔ کوئی آواز نہ سنائی دی ،جب باہَر آیا پھر وُہی حال تھا کہ خانقاہِ اقدس کے باہَر قِیام گاہ تک پہنچنا دشوار ہوا ۔
فقیر نے یہ اپنے اوپرگُزری ہوئی گزارِش کی ،کہ اوّل تو وہ نعمتِ الہٰی عَزوَجَلّ تھی اور ربَّ عَزوَجَلَّ فرماتاہے ،
وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ﴿٪۱۱﴾ ؎ ۱
اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کو لوگوں سے خوب بیان کر ۔''
مَع ھذٰا اِس میں غُلامانِ اولیائے کِرام رَحِمَہمُ اللہُ تعالیٰ کیلئے بِشارت اور مُنکِروں پر بَلا و حسرت ہے ۔ الہٰی ! عَزوَجَلَّ صَدَقہ اپنے محبوبوں (رِضْوانُ اللہِ تعالیٰ علیھم اَجمعین )کاہمیں دنیا و آخِرت و قَبْر و حَشْر میں اپنے محبوبوں عَلَیہُمُ الرِّضْوَان کے بَرَکاتِ بے پایاں سے بَہرہ مند فرما۔
(اَحْسَنُ الْوِعَاء لِاٰدَابِ الدُّعاء ص ۶۰ تا ۶۱)
۱ پ ۳۰ سورۃُ الضُّحیٰ آیت ۱۱
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.