You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ
(MUHAMMAD BURHAN UL HAQ JALALI, Jhelum)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
کیا مسلمان بچے کو کفر پڑھانا جائز ہے؟ کیا جھوٹے خدا کے بارے میں جھوٹی کہانیاں پڑھانا جائز ہے؟ ہمارے ایک بھائی ہیں، انہوں نے مجھے ایک کتاب دکھائی، غالباً اس کا نام تھا "گولڈن ٹچ" (Golden Touch) اور oxford سے وہ چھپی ہوئی ہے کراچی کی کئی اسکولوں میں پڑھا ئی جاتی ہے۔ اس میں جو بکواسات ہیں یعنی ایک کفر نہیں سینکڑوں کفر بھرے ہوئے ہیں۔ بچہ اس کو یاد بھی کرتا ہے اسکا امتحان بھی دیتا ہے اس کو رٹتا بھی ہے۔ میں آپ کو ایک دو مثالیں بیان کرتا ہوں۔
اس میں نظریہ یہ دیا گیا ہے کہ ایک شراب کا خدا ہے۔ نعوذ باللہ۔ یہ آسمان سے اترتا تھا، اور آ کے شراب پیتا تھا اور اسکے کان ایسے تھے اس کی دم ایسی تھی۔ پھر ایک خیالی انھوں نے تصویر بنائی ہے۔ یہ بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے۔ اور بچوں سے سوال کیا بتائیے شراب کا خدا کون تھا کیسا تھا تو وہ ایسی بکواس لکھ رہے ہیں۔ بتائیے کیا بچے کا ایمان بچے گا؟ کیا پڑھانے والے کا ایمان بچے گا۔ پھر اس میں لکھا ہے میوزک کا خدا تھا، جو آسمان سے اترتا تھا اس کو میوزک سننے کا شوق تھا۔ توبہ استغفر اللہ۔
کیا اللہ کے سوا کوئی اور خدا ہے؟ لفظ خدا استعمال کر کے اتنی بے حیائی اور اتنی گندگی؟ اب مجھے بتائیے اس کا اثر کیا ہوگا بچوں پر۔ بچوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں نعوذ باللہ خدا نیچے اتر کر شراب پی رہا ہے میوزک سن رہا ہے تو تم بھی شراب پیو۔ اب سوچیں کس طرح بچوں کا ذہن خراب کیا جا رہا ہے اور یہ کوئی فرضی باتیں نہیں ہیں۔ اگر کسی کو میری بات پر اعتراض ہو، اور وہ کہے کہ مولانا صاحب ایسی کوئی کتاب ہی نہیں ہے تو میں آپ کو کتاب بھی دکھا سکتا ہوں۔ اب نام ذہن میں رکھیں۔ لیڈی برڈ Lady Bird کی سریز series جو آج ہر اسکول میں پڑھائی جا رہی ہے، اس کے اندر کیا ہے؟
دو بچوں کی کہانی ہے۔ وہ سور سے کھیل رہے ہیں خنزیر سے کھیل رہے ہیں اس کو چوم رہے ہیں چاٹ رہے ہیں گود میں بٹھا رہے ہیں، اور بار بار ایک جملہ ہے کہ ہم سور سے پیار کرتے ہیں ہم خنزیر سے محبت کرتے ہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ پھر کتے کی کہانی۔ کتے کو ساتھ سلا رہے ہیں اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے۔ کیا کتا رکھنا اور اس طرح کتا پالنا کیا اسلام میں جائز ہے؟ پھر ماں باپ کی تصویریں، جو بے حیا قسم کے لباس پہنے ہوئے سمندر میں نہاتے ہوئے دکھائے جا رہے ہیں۔ کون سے بچے؟ نرسری کے بچے، KG-1 اور KG-2 کے بچوں کو پڑھائے جا رہے ہیں۔ اور معذرت کے ساتھ، ان اسکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے جو مذہبی کہلاتے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے۔ ہم نے بات کی تو انہوں نے کہا کیا کریں؟ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اگر ہم نہیں پڑھائیں گے تو پھر لوگ ہمارے اسکول میں بچے داخل نہیں کریں گے یعنی وہ اسکول جہاں بچوں کو حفظ کرایا جا رہا ہے، وہاں بھی یہ گندا کورس پڑھایا جا رہا ہے۔ یعنی کتنا یہود و نصاری ہمارے ذہنوں پر قابض آ گئے کہ لوگوں کی سوچ ایسی بن گئی کہ اگر یہ نہیں پڑھیں گے تو ہمارے بچے ترقی نہیں کر سکیں گے۔ پھر آپ کوئی بھی انگلش کی کتاب اٹھا لیں ۔ دوسری کی اٹھا لیں پانچویں کی اٹھا لیں۔ کرسمس ڈے منانے کا پورا chapter ہوتا ہے۔ اس پر مضامین بچوں کو لکھوائے جاتے ہیں انگلش میں۔ کرسمس ٹری، پھر کرسمس، پھر عیسائیوں کے جو خرافات، گرجاگر، یہ وہ سب سکھائے جاتے ہیں بچے اس پر مضامین لکھتے ہیں پھر شراب کا ذکر، پھر زنا کا ذکر، پھر نائٹ کلبوں کا ذکر، پھر نا محرم عورتوں سے دوستی کرنا، انہیں فرینڈ بنانا، یہ سارا کلچر۔ انگلش نہیں سکھائی جا رہی آپکو، انگلش کے ذریعے یہود و نصاری کا کلچر پلایا جا رہا ہے آپ کے بچوں کے ذہنوں کو۔
انگلش سکھانی ہے؟ تو انگلش میں قرآن کریم کا ترجمہ سکھائیں۔ انگلش میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت پڑھائیں۔ انگلش سکھانی ہے تو انگلش میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت پرھائیں۔ حضور غوت اعظم رضی اللہ عنہ کی سیرت پڑھائیں۔ ان خبیثوں لعینوں مردودوں کے گندے کرتوت کیوں پڑھائے جا رہے ہیں ہمارے بچوں کو۔ تباہ کیا جا رہا ہے۔ احساس نہیں ہے۔ ہمارے بچوں کے ذہن برباد کیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کڑوا سچ ہے، کہ اگر ہم جب کسی سے بات کرتے ہیں تو اسکو ہضم نہیں ہوتا کسی کو۔ مولانا صاحب بڑی دقیانوسی باتیں کر رہے ہیں۔ بڑے backward آپ ہو گئے۔ ہم کیا آپکے ان طعنوں کی وجہ سے قرآن کریم کو چھوڑ دیں؟ قرآن کریم تو ہمیں یہی حکم دیتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دامن تھامنا ہے تو حضور کی شریعت تو ان بے حیائیوں سے ہمیں منع کرتی ہے۔
گندگی، پھر ایسے ایسے لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جو کافر ہیں یہودی ہیں عیسائی ہیں یا وہ بدعقیدہ ہیں بد مذھب ہیں ان کی تعلیمات کفریات پر منحصر ہیں۔ ان کو ہیرو بنا کر ہمارے کورس میں دکھایا جا رہا ہے۔ بچے کی فطرت ہے جس کی آپ تعریف کریں گے جس کو ہیرو بنائیں گے وہ اس کی تعلیمات کو اپنائے گا۔ کیا ہمارے لئے خالد بن ولید ہیرو نہیں ہیں؟ کیا عمر فاروق ہیرو نہیں ہیں؟ کیا غازی علم الدین شہید ہیرو نہیں ہیں؟ کیا سلطان صلاح الدین ایوبی ہیرو نہیں ہیں؟ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
ہمیں یہ خبیثوں کے اور مردودوں کے کافر فاسق فاجر لوگوں کو ہیرو بنانے کی ضرورت کیا ہے؟ میری اس گفتگو کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انگلش نہ سکھائی جائے۔ انگلش سکھانا تعلیم زبان سکھانا اور ہے اور انگلش کے نام پر دھوکا دے کر یہود و نصارا کے کلچر کو بچوں کے ذہنوں میں ڈالنا اور چیز ہے۔ (حضرت علامہ مفتی محمد آصف عبداللہ قادری مد ظلہ عالی کی تقریر سے ایک اقتباس)
دردمندانہ التجاء: خدارا! اپنے آپ کو، اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب اور تمام مسلمانوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ خدارا اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ اپنے بچوں اور اپنے بہن بھائیوں کی اسکول کا کورس وقتا فوقتا چیک کرتے رہیں۔ اگر آپ کو ان کے کورس میں کہیں بھی خرافات یا مشکوک مواد نظر آئے تو فلفور ہی اسکول کی انتظامیہ اور تمام متعلقہ اداروں کو مطلع کریں۔ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس ہم سب اللہ و رسول کی بارگاہ جواب دہ ہیں۔ براہ کرم اس پیغام کو جہاں تک آپ سے ممکن ہو پہنچائیں اور اسے اپنے لئے توشہٗ آخرت بنائیں۔ جزاک اللہ خیرا احسن الجزاء فی الدارین
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.